اس بھرے گھر میں میاں بیوی، پانچ بچّے، ان سب کا ہر وقت آنا جانا اور پھر ان کے دوستوں کی فوج، بس گھر میں ہر وقت رونق ہی رونق تھی مگر دادا ابّا تنہائی کے احساس میں ڈوبتے چلے جا رہے تھے، تڑکے آنکھ کھلتے ہی پہلا خیال یہ آتا کہ ایک اور دن سر پہ آن کھڑا ہے۔
دادا ابّا نے ساری عمر جہلم میں گزار دی۔ یہ شہر اور یہاں کے رہنے والے اُن کی ذات میں رچ بس چکے تھے۔ بازار میں سودا سلف لینے جاتے تو دوکانداروں اور راہ میں ملتے لوگوں سے بات چیت کرنے میں اچھا خاصا وقت گزر جاتا۔ گلی کے کونے پہ دودھ دہی کی دکا ن پہ ہر روز شام دوستوں اور ہمسایوں کی محفل جمتی ۔ گھر کے اندر بیوی کے گلے شکوے یا قصے کہانیاں جاری رہتیں تو وہ اخبار یا کتاب سے نظر اٹھا کر ہوں ہاں کر دیتے۔ شاید ان کو بھی ان باتوں کا چسکا لگ گیا تھا۔ اگر کبھی وہ اپنے بیٹے یا بیٹی کے پاس رہنے کے لئےچلے جاتے تو چند دنوں بعد اپنے گھر، اپنے محلے کی یاد اتنی ستانے لگ جاتی کہ کچھ ہی دن گزار کر واپس کھنچے آتے۔
جب دادی امّاں رخصت ہو گئیں تو چھوٹا بیٹا دادا ابّا کو اپنے گھر حیدرآباد لے آیا۔ وہ تو اکیلے رہنے کے قابل ہی نہیں تھے، ایک تو عمر کی ضعیفی اور دوسرے چولہے چوکھٹ کے بارے میں بالکل لا علمی۔ اور پھر اکیلے رہنے کی ضرورت ہی کیا تھی جب اولاد اور اولاد کی اولاد بھی موجود تھی۔ کتنے مان سے دودھ کی دکان پہ بیٹھے دوستوں کو بتاتے کہ ان کا بیٹا اور بہو ان کو ساتھ لے جانے کے لئے کتنے بضد ہیں۔
حیدرآباد آ کر دادا جان کو جہلم شہر ہی کیا بیوی سے جدائی کا غم بھی بھول گیا۔ گھر میں بہت چہل پہل تھی۔ ہر وقت کوئی آ رہا تھا کوئی جا رہا تھا، آنے کے بعد اور جانے سے پہلے دادا ابّا کو سلام کیا جاتا۔ دن میں کئی بار خیریت پوچھی جاتی، ان کی خوراک کا خاص انتظام کیا جاتا۔ اور دادا ابّا کا محبوب حقّہ، دن میں تین بار چلم کو صاف کیا جاتا، پانی بدلا جاتا، تمباکو کی ڈھیری بنا کر کوئلے سے جلا کر حقے کو تازہ کیا جاتا۔ دادا ابّا کو تو یہاں آ کر مزے آنا شروع ہو گئے تھے۔
کچھ ہفتے ایسے ہی گزر گئے۔ اب دادا ابّا کا دل چاہتا کہ کسی سے بیٹھ کر باتیں کریں لیکن یہ سب عجیب لوگ تھے، ان کے پاس دادا ابّا کے پاس بیٹھنے کے لئے وقت ہی نہیں تھا اور اگر کچھ وقت تھا بھی تو وہ ٹیلیویژن کی نذر ہو جاتا۔ بیٹا اپنے نئے کاروبار کو مستحکم کرنے کے لئے دن رات مصروف رہتا، جب گھر میں ہوتا تو اس کا ٹیلیفون پیچھا نہیں چھوڑتا۔ بہو پہ پورا گھر چلانے کی ذمہ داری آن پڑی تھی جسے وہ خوش اسلوبی سے دن رات ایک کر کے نبھا رہی تھی اور دادا ابّا کی ضروریات کا بھی تو وہی خیال رکھتی تھی۔ اور یہ پوتے پوتیاں، خود کو ہمہ وقت مصروف رکھتے تھے، انہوں نے نجانے کون کون سے مشغلے اپنائے ہوئے تھے۔
دادا ابّا باہر گلی میں نکلتے تو وہاں انہیں کوئی اپنا ہم عمر نظر نہ آتا۔ کہتے ہیں کہ تنہائی بری شئے نہیں لیکن تنہائی کا احساس ایک بھوت کی طرح ہے ۔ یہ بھوت دادا ابّا پہ وبال بن کر چھا گیا۔ دادا ابّا نے سوچا کہ یہ لوگ ہر وقت باہر آتے جاتے رہتے ہیں، میں بھی ان کے ساتھ کبھی گھوم پھر آؤں، طبیعت کچھ بہل جائے گی۔ لیکن باہر لے جانے کے لئے کوئی پوچھتا ہی نہیں تھا۔ پتّوں کا زرد ہونا، راتوں کو ٹھٹھرنا، کونپلوں کا پھوٹنا، دوپہر میں دیواروں اور چھت کا تپنا، چاروں موسم ایسے ہی پھیکے پھیکے بیت گئے۔ ایک صبح اٹھے تو خیال آیا کہ آج تو بیوی کی برسی ہے، یہ سوچ کر دل بہت گھبرایا۔ ارادہ کیاکہ ان بچوں میں سے کسی کے ساتھ باہر چلا جاتا ہوں۔ یہ منجھلا پوتا ان سب میں نرم مزاج کا حامل ہے، اس سے باہر جانے کے لئے کہوں گا۔ دادا ابّا کا سارا دن اُس کی واپسی کے انتظار میں کٹ گیا۔ جب شام کو گھر آ کر اس نے دادا ابّا کو سلام کیا تو انہوں نے اپنی خواہش کا دبے لفظوں میں اظہار کیا۔ اس نے کچھ سیکنڈ سوچ کر جواب دیا۔
’دادا ابّا مجھے تو ایک دو کام ہیں، آپ میرے ساتھ کہاں کہاں پھریں گے تھک جائیں گے۔ میرا خیال ہے کہ آپ آرام کریں۔ کچھ چاہیے تو بتا دیں میں واپسی میں لیتا آؤں گا۔‘
دادا ابّا چاروں طرف دیکھنے لگ گئے جیسے دودھ کی دکان پر اکٹھے ہوئے ان کے دوست قہقہے لگا رہے ہوں ۔
Facebook Comments