اینٹروپی اور ٹائم کا جنم۔۔ادریس آزاد

آئن سٹائن نے نیوٹن کے مکانِ مطلق اور زمانِ مطلق کو ختم کرکے اضافی زمان و مکاں کا جو تصور پیش کیا، اس کی وجہ سے اب زمانے کے لیے بھی مکان کی اکائیاں استعمال ہوتی ہیں۔ زمانے کو آپ چاہیں تو مکان کی چوتھی بُعد(ڈائمینشن) کہہ لیں اور چاہیں تو دوسری یا تیسری۔ اگر آپ کی بُعدِ مکانی ایک لائن ہے تو زمانہ دوسری ڈائمینشن بن کرظاہر ہوگا اور اگر آپ کے پاس دو ابعادِ مکانی ہیں تو زمانہ تیسری ڈائمینشن بن کر ظاہرہوگا۔ اسی طرح اگر آپ مکمل طور پر تھری ڈی میں ہیں تو زمانہ چوتھی ڈائمینشن بن کر ظاہر ہوگا اور ہر بار زمانہ جب ظاہر ہوگا تو وہ خود بھی بُعدِ مکانی کی صورت ہی ظاہر ہوگا۔
فورولاسٹی ویکٹر میں ہم ٹائم کو ایکس ناٹ لیتے ہیں اور ایس آر کے عام اسباق یا تفہیم میں ہم اسی ایکس ناٹ کو سی ٹی کی شکل میں لیتے ہیں۔ یہ دونوں مکان کی اکائیاں ہیں۔
ویسے بھی اگر کوئی یہ کہے کہ اسلام آباد سے لاہور تین گھنٹے دور ہے، یا کوئی یہ کہے کہ وقت کے ایک یونٹ اور دوسرے یونٹ میں اتنے اتنے سی ٹی کا فاصلہ ہے تو وہ عین درست یونٹ ہوتاہے۔
علامہ اقبال نے اپنے خطبات میں آئن سٹائن کے اسی تصور پر بہت بحث کی ہے کہ زمانہ مکان کی چوتھی بُعد نہیں ہوسکتا۔ اقبالؒ کو ایسا لگا کہ زمانہ اگر مکان کی بُعد بن کر ظاہر ہوگا تو تقدیر پہلے سے طے ہونی چاہیے۔ چونکہ اقبال کو تقدیر کاپہلے سے طے ہونا پسند نہیں تھا اس لیے انہوں نے اس ردعمل کا اظہار کیا۔
اقبال کا اعتراض ریاضیاتی اعتبار سے بھی درست تھا لیکن اس کے درست ہونے کا علم جب دنیا کو چلا تو اقبال دنیا سے جاچکے تھے۔ 1940 میں جب ہیوایورٹ کا پی ایچ ڈی کا تھیسز سامنے آیا تو سب کو سوچنا پڑا۔ سب کو سوچنا پڑا کہ ٹائم بُعدِ مکانی ہوکر بھی لامتناہی ٹائم لائنوں میں منقسم ہے اور اس لیے تقدیر، مطلق نہیں ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اور ٹائم کی ڈائمینشن کا امتیاز خود جنرل ریلیٹوٹی کے فورولاسٹی ویکٹر کی ڈائریکشن سے بھی واضح ہوجاتاہے۔ کتنی عجب بات ہے کہ ماس کے نزدیک ٹائم ڈائیلیٹ ہوکر سست ہوجاتاہے اور جوں جوں ماس سے دُور ہوتے جائیں تیز ہوتا جاتاہے، جس سےٹائم ایک بہتے ہوئے دریا کے بالکل مشابہ گریڈی اینٹس کا حامل دریا بن جاتاہے۔ اب کسی چھوٹے سے چھوٹے آبجیکٹ کے بارے میں بھی سوچیں تو اس آبجیکٹ کے اپنے گریڈی اینٹس کے اعتبار سے اس آبجیکٹ کی اپنی نچلی گھڑی کا وقت اوپر والی سے سست ہے۔ یہ عمل فورویکٹر کا رخ بدل کر ماس کی طرف موڑتادیتاہے۔ جسے ہم گرنا کہتے ہیں یا گریوٹی کہتے ہیں وہ فقط ایک مڑا ہوا ٹائم کا ویکٹر ہے۔ یوں کہنا بالکل درست ہوگا کہ گریوٹی اِز ٹائم اینڈ ٹائم اِز گریوٹی۔
آئن سٹائن کی سپیشل ریلیٹوٹی والی فورتھ ڈائمینشن میں تقدیر کے مسئلے کا حل موجود نہیں تھا۔ لیکن جنرل ریلیٹوٹی کے فورویکٹر میں اس کا حل موجود ہے۔ جب جنرل ریلیٹوٹی کو کوانٹم میں اپلائی کیا جاتاہے جس کی لُوپ کوانٹم گریوٹی سمیت کئی مثالیں ہیں تو الٹیمیٹ چھوٹے پارٹیکل کو سٹرنگ کہہ کر اُسے دس ڈائمینشنوں میں وائبریٹ کروایا جاتاہے۔ ٹائم ان میں سے ہرایک ڈائمیشن میں پوری آب و تاب کے ساتھ موجود رہتاہے، اسی لیے ایڈورڈ وِٹن نے ایم تھیوری میں ٹائم کو گیارھویں ڈائمینشن قرار دیاہے۔ جبکہ محض پانچویں ڈائمینشن سے ہی وقت کے ہر لمحے پر لامتناہی ٹائم لائنیں وجود میں آنا شروع ہوجاتی ہیں۔ ہر ٹائم لائن کا مستقبل متعین ہے لیکن چونکہ ہر لمحے میں وہ لامتناہی تعداد میں پھوٹ رہی ہیں اس لیے آپ کا کوئی ایک عمل ہی آپ کو کسی ایک ٹائم لائن سےکسی دوسری میں منتقل کردیتاہے۔ اور یوں ہیو ایورٹ کے مطابق دس کی طاقت مائنس ٹونٹی کے اندر ہی ایک جہان سے آپ دوسرے جہان میں منتقل ہوجاتے ہیں۔
پھر یہ بات نہایت حیران کرتی ہے مجھے کہ اینٹروپی کا ویکٹر اور ٹائم کا ویکٹر اپنی شبیہہ میں ہوبہوایک ہی چیز کے دونام ہیں۔عثمان بھائی کہتے ہیں کہ کتنی عجب مِسٹری ہے یہ، کہ ٹائم اینٹروپی کو جنم دے رہا ہے یا اینٹروپی ٹائم کو؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply