مسئلہ کشمیر اور تلخ حقائق۔۔نذر حافی

مجلسِ مذاکرہ جاری تھی۔ موضوع تھا “خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سَحَر پیدا۔” اس مصرعے کی روشنی میں محقق محمد بشیر دولتی نے مسئلہ کشمیر پر روشنی ڈالی۔ اُن کی گفتگو کا مرکزی خیال یہ تھا کہ آج کی دنیا میں مسئلہ کشمیر ایک مسلمہ مسئلہ ہے۔ دنیا کی دو ایٹمی طاقتوں کے بیچ میں یہ ایک خاموش آتش فشاں کی مانند زندہ ہے۔ اسے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل بھی بطورِ مسئلہ تسلیم کرتی ہے۔ تاہم گذشتہ چوہتر سالوں سے عالمی برادری نہ ہی تو اس مسئلے کو حل کرتی ہے اور نہ ہی اس خطّے میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور اموات کو روکنے کیلئے عالمی سطح پر کوئی دن منایا جاتا ہے۔ انہوں نے عالمی سطح پر دن منانے کی اہمیت اور خصوصاً مسئلہ کشمیر کو بین الاقوامی سطح پر منانے کیلئے فعالیت کرنے پر زور دیا۔

انہوں نے یہ مقالہ قیامِ پاکستان کے تقریباً پچہتر سال کے بعد پڑھا ہے۔ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور مسئلہ کشمیر قیامِ پاکستان سے بھی پُرانا ہے۔ اُن کے مقالے کی اہمیت اس لئے بھی بڑھ جاتی ہے، چونکہ یہ مجلسِ مذاکرہ اسلامی جمہوریہ ایران کے شہرِ انقلاب، قم المقدس میں منعقد ہوئی۔ اُن کا یہ زاویہ فِکر قابل توجہ ہے کہ ہم چوہتر سالوں میں اس مسئلے کو نہ ہی تو حل کروا سکے ہیں اور نہ ہی اسے بین الاقوامی سطح پر منانے کیلئے کوئی جدوجہد کر رہے ہیں۔ راقم الحروف ایک طالب علم ہے۔ ایک طالب علم ہونے کے ناتے مجھے اس مسئلے کے بارے میں مختلف شخصیات کو سننے کا موقع ملا ہے۔ گذشتہ اڑھائی سال سے تو میری کافی زیادہ توجہ اسی مسئلے پر مرکوز ہے۔ ان اڑھائی سالوں میں مجھے مسئلہ کشمیر کو لاحق خدشات اور امکانات کے عنوان سے انتیس آن لائن سیشن منعقد کرانے کی توفیق نصیب ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ اس مسئلے پر کئی تجزیات پڑھنے اور لکھنے کا موقع ملا۔ اسی طرح اس مسئلے کے حوالے سے کئی دانشوروں، صحافیوں، سیاستدانوں اور مصنفین سے سیکھنے اور اُن سے رابطہ کرنے کی سعادت بھی نصیب ہوئی ہے۔

ان اڑھائی سالوں نے مجھے مسئلہ کشمیر پر بہت کچھ سکھایا ہے۔ ظاہر ہے کہ خیالی پلاو، کمرے میں بیٹھ کر لکھی ہوئی تحریریں، جوشیلی تقریریں اور جذباتی لیکچرز تو عملی تجربئے سے بہت زیادہ مختلف ہوتے ہیں۔ جب میں نے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے عام عوام، مختلف دانشوروں، سیاستدانوں، تنظیموں، شخصیات، اخبارات اور چینلز کو عملی طور پر جانچنے اور پرکھنے کی کوشش کی تو دھک سے رہ گیا۔ بلاشبہ ہمارے ہاں ایک ایسی اقلیّت ہر شعبے میں موجود ہے، جو مسئلہ کشمیر سے آج بھی نظریاتی وابستگی رکھتی ہے۔ بہت کم ایسے سیاستدان، صحافی، دانشور اور تنظیمیں بھی موجود ہیں، جو مسئلہ کشمیر کی غیر مشروط حمایت پر ایمان رکھتے ہیں۔ اسی طرح ہماری صفوں میں ایسے سر پھرے ابھی زندہ ہیں، جو رائے عامہ کی طاقت، عوامی امنگوں کے طوفان، قلم کی کاٹ، جذبہ جہاد اور میڈیا کے زور پر مسئلہ کشمیر کو حل کرنے پر ایمان رکھتے ہیں۔

ایسے لوگوں کے ہونے سے انکار نہیں۔ ایسے لوگ ہمارے درمیان موجود ہیں، لیکن ان میں بھی اکثریت اُن لوگوں کی ہے، جن کے پاس اپنا کوئی نقشہ نہیں اور وہ لاشعوری طور پر اُنہی لوگوں کے نقشے پر کام کر رہے ہیں، جو یہ نہیں چاہتے کہ اس مسئلے کا کوئی حل نکلے۔ جی ہاں! ہمارے سروے کے مطابق ہمارے درمیان ایسے لوگوں کی اکثریت ہے کہ جن کیلئے مسئلہ کشمیر ایک تیل کے کنویں کی حیثیت رکھتا ہے۔ آیئے اُس اکثریت کو اپنے ارد گرد دیکھئے اور پہچانئے کہ جس کیلئے یہ مسئلہ تیل کے کنویں کی مانند ذریعہ آمدن بنا ہوا ہے۔ آپ کو اپنے ارد گرد کشمیر سے منسوب ایسی تنظیمیں، ادارے اور فورمز بھی مل جائیں گے کہ جنہیں مسئلہ کشمیر کی ابجد کا بھی علم نہیں ہے۔ وہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے نہ ہی تو کسی قسم کی تحقیقات انجام دیتے ہیں، نہ ہی کتابیں تالیف کرتے ہیں، نہ ہی رائے عامہ کو ہموار کرنے کیلئے کوئی میگزین یا مجلہ شائع کرتے ہیں اور نہ ہی قلم اور سوفٹ پاور کا استعمال کرتے ہیں۔

تاہم وہ موجود ہیں، چونکہ انہیں کشمیر کے نام پر فنڈنگ مل رہی ہے۔ اسی طرح ایسے سیاستدان، پالیسی میکرز اور سیاسی پارٹیاں بھی موجود ہیں، جن کے لئے یہ مسئلہ ایک منافع بخش سیاسی کارڈ کی اہمیت رکھتا ہے۔ انہوں نے کشمیر کے نام پر عوام کو مصروف رکھنا ہوتا ہے، لوگوں کی توجہ حاصل کرنی ہوتی ہے، ان سے ووٹ مانگنے ہوتے ہیں، اُن کے دلوں کو جہادی نعروں سے گرما کر، جہادی کیمپوں میں سادہ لوح لوگوں کے بچوں کو دہشت گردی کی تربیت دے کر تجوریاں بھرنی ہوتی ہیں اور کشمیر کشمیر کرکے کشمیر کے نام پر کمیٹیاں بنانی، فورمز بنانے اور چندے اکٹھے کرنے ہوتے ہیں۔ اسی طرح ہمارے عوام میں ایک بڑی تعداد اب اُن لوگوں کی ہے، جو کشمیر ڈے کے دن گھر میں سو کر یا ٹی وی دیکھ کر چھٹی مناتے ہیں اور یا پھر دوستوں سے ملنے ملانے کیلئے ریلیوں میں چلے جاتے ہیں۔

جہاں تک درسی کتب کی بات ہے تو وہاں پر تحریکِ آزادی کشمیر تقریباً دم توڑ چکی ہے۔ شاید آپ کو پاکستانی میڈیا سے یہ امید ہو کہ ہمارا میڈیا کشمیر کی جنگ لڑے گا تو آپ خود بھی تجربہ کرکے دیکھ لیجئے۔ ہمارے میڈیا کیلئے بھی کشمیر ایک تیل کے کنویں کی مانند ہے۔ اُن کے لئے کشمیر کی خبریں بہترین سورس آف انکم ہیں۔ اُنہیں کشمیر سے کوئی غرض نہیں بلکہ یہ فکر ہوتی ہے کہ کشمیر کی خبریں چلانے یا چھاپنے پر آپ ہمیں یومیہ، ہفتہ وار، ماہانہ یا سالانہ کتنی رقم دیں گے اور کتنے اخبارات خریدیں گے۔ حتی کہ سرکاری اداروں میں یومِ کشمیر کی منعقدہ تقریبات کی حیثیت چند فوٹو سیشنز اور ایک دفتری رپورٹ سے زیادہ کی نہیں رہ گئی۔

Advertisements
julia rana solicitors

محترم اور فاضل محقق بشیر دولتی صاحب کا دردِ دل سر آنکھوں پر، لیکن یہاں اب اکثریت کا فیصلہ یہی ہے کہ مسئلہ کشمیر سے کماو جتنا کما سکتے ہو۔ بے شک میں بھی بشیر دولتی صاحب کی طرح اُس اقلیت کے ساتھ ہوں، جس کے نزدیک دنیا کے سارے ظالم ایک ہی قبیلے کے لوگ ہیں اور سارے مظلوم بھی ایک ہی قبیلے کے ہیں۔ ظالم چاہے کشمیر، فلسطین، یمن یا پھر جہاں بھی ظلم کریں، وہ ظالم ہیں اور مظلوم جہاں بھی ہوں، وہ ایک ہی قبیلہ ہیں۔ اس بیچ میں وہ لوگ بھی ظالموں کے قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں، جو مظلوموں کے خون سے نوالے تر کر رہے ہیں۔ اُن کی مثال اُس گدھ جیسی ہے، جو اس انتظار میں رہتا ہے کہ کب شیر کسی کا شکار کرے اور پھر وہ لاش کو بھنبھوڑ کر اپنا پیٹ بھرے۔ قارئین ایسے میں کسی سے مظوم کشمیریوں کے ساتھ ہمدردی کی امید رکھنا بالکل ایسے ہی ہے، جیسے کہ مرزا غالب نے کہا تھا:
ہم کو ان سے وفا کی ہے امید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply