اعظم معراج کا آتشیں گیت ۔۔محمد عثمان جامی

میں ان لوگوں میں سے ہوں جو نثری نظم کی ترکیب کے خلاف ہیں، لیکن اس عنوان کے سائے تلے ہونے والی بعض تخلیقات کو دیکھ کر لگتا ہے جیسے شعریت شدت ِاحساس کی تپش سے پگھلی اور اپنے سانچے توڑ کر بہہ رہی ہے، اور یہ بے ساختہ بہاؤ ہی جواز بنتا ہے کہ تخلیق کار کو اپنا مدعا بیان کرنے کے لیے نظم ونثر کے پیرایہ اظہار کے بجائے ”نثری نظم“ کے نام سے پہچانی جانے والی صنف کو اختیار کرنے کی ضرورت کیوں پڑی۔

اعظم معراج کی تخلیق ”سنہری قُقنس“ یہی بہاؤ لیے ہمیں اپنے ساتھ بہاکر لے جاتی ہے۔ تصوراتی پرندے قُقنس (Phoenix) کو عنوان بنا کر اور بطور تشبیہ لاکر تخلیق کار نے اپنے مخاطب لوگوں کو بڑا بلیغ پیغام دیا ہے۔ قُقنس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ صدیوں تک زندگی کرتا یہ خوب صورت پرندہ ہر قسم کا راگ گاتا ہے۔ آخرکار یہ لکڑیاں جمع کرکے اپنے آتشیں گیت سے ان میں آگ لگادیتا ہے، یوں اپنی چتا میں جل مرتا ہے اور اس کی راکھ سے ایک اور قُقنس جنم لیتا ہے۔ اس تشبیہ کے ذریعے اعظم معراج نے کہنا چاہا ہے کہ انھوں نے آگاہی کا جو سفر شروع کیا ہے وہ جاری رہے گا اور چراغ سے چراغ جلتا رہے گا اور پیار اور خوداعتمادی سمیت سنہرے روپ لئےجذبوں کے سارے راگ دلوں کو اُمنگ سے بھرتے رہیں گے۔

اعظم معراج شاعر نہیں، ان کی اردو میں پنجاب کی سوندھی مٹی مہکتی ہے، سادہ سپاٹ گفتگو کہیں سے خبر نہیں ہونے دیتی کہ ان میں کیسے کیسے مہکتے لفظ اظہار کو بے تاب ہیں، یہ بے تابی اور اپنے لوگوں کا درد ہی تھا جسے زبان ملی اور اس تخلیق کا ظہور ہوا۔

نقاد ہونا تو کجا میں خود کو کسی ادب پارے پر رائے دینے کا بھی اہل نہیں سمجھتا۔ بس شاعری، مزاح نگاری، مضامین اور کبھی کبھی کہانیوں کے ذریعے خود کو اپنے ہونے کا جواز دیتا رہتا ہوں۔ جانے معراج صاحب کو کیا سوجھی کہ مجھ سے اپنی تحریک شناخت کے  اغراض و مقاصد کے  لئے لکھی گئی پندرہ کتب میں سے پہلی کتاب “دھرتی جائے کیوں پرائے” کے دوسرے ایڈیشن پر لکھنے کی فرمائش کر بیٹھے،اس کتاب کے پہلے ایڈیشن کے چھپنے کے بعد سے اس پر اخبارات ٹی وی اور سوشل میڈیا پر بہت تبصرے ہوچکے۔اور اس کتاب کا انگریزی ترجمہ ہونے کے سبب بین الاقوامی شہرت کی حامل شخصیات بھی اس پر لکھ چکی ہیں۔ مجھے اس کتاب کے پہلے صفحات پر موجود انکی نثری نظم “سنہری ققنس” نے متاثر کیا جو بقول انکے اپنے ،انکی اس فکری تحریک کے لئے لکھی گئی پندرہ کتب کا مرکزی خیال ہے۔ اسی لئے یہ نظم انکی ہر کتاب کے پہلے صفحات پر اور آخری صفحات پر نغمہء شناخت ہوتا ہے۔ جو کہ ادبی اعتبار سے ایک عجیب حرکت ہے۔ کہ مختلف کتب محرومیوں   کے بوجھ تلے دبے بےشناخت لوگوں کو امید سحر اور حیات نو کی نویدِ سناتی  نظم سے شروع ہو اور ایک ہی نغمے “نغمہء شناخت” پر ختم ہو۔ اور یہ عمل پندرہ بار دہرایا جائے۔ لیکن کیا کریں ایسے شخص کا جو پندرہ کتب ایک فکر کے لئے لکھ کر اور پانچ کتب اپنے پیشے کا قرض اتارنے کے لئے لکھ کر کہے “میرے کام کو علم و ادب کے معیار پر نہیں میرے دونوں مقاصد سے جوڑ کر پرکھیں ۔اس لئے کتاب کی بجائے میں اس نظم پر ہی کچھ  اظہار کرتا ہوں کیونکہ یہ نظم اپنے اندر نہ صرف انکے مقاصد کو عدم تشدد سے حاصل کرنے کا پورا فلسفہ سموئے ہوئے ہے۔ بلکہ دنیا کے ہر رنگ نسل مذہب مسلک جغرافیائی یا کسی بھی تعصب کی بنیاد پر محروم وبےشناخت کر دیے گئے ہر انسانی گروہ کو پیار محبت سے اپنی شناخت اور محرومیاں دور کرنے کی راہ دکھاتی ہے۔ اس نظم کی بابت میں رائے دینے سے قاصر ہوں کہ یہ نثری نظم کی تعریف پر بھی پوری اترتی ہے یا نہیں؟ البتہ دل میں ضرور اتر جاتی ہے، اور تاثیر روح تک آجاتی ہے۔

اعظم معراج کی یہ تخلیق ان کا پیغام بھی ہے اور ان کی ذات کا عکس بھی۔ اعظم صاحب ایک ایسے سماج میں سانس لے رہے ہیں جہاں دُکھ، کرب، جذبات، احساسات کا استعمال ہوتا ہے، استحصال ہوتا ہے۔ اور ان میں جو ”جنس“ سب سے زیادہ استعمال اور استحصال کے قابل گردانی جاتی ہے وہ ہے ”احساسِ محرومی۔“ سیاست کی منڈی میں ”احساس محرومی“ کی دکان کُھولتے ہی دکان دار کے وارے نیارے ہوجاتے ہیں، زبان، علاقہ، قومیت، فرقہ، مذہب، صنف کسی بھی نام پر محرومی اور مظلومیت کا پرچار سیاست کے بازار میں سب سے نفع بخش کاروبار ہے۔ میڈیا نگری سے شعروادب کے کوچوں تک، احساس محرومی ہاتھوں ہاتھ بِکنے والا مال ہے۔ اعظم معراج صاحب کے پاس بھی پورا موقع تھا کہ وہ مسیحی پاکستانیوں کی غربت، ان کے ایک خاص طبقے سے معاشرے کے حقارت پر مبنی سلوک، اور وقتاً فوقتاً مسیحی برادری اور افراد کے ساتھ پیش آنے والے افسوس ناک واقعات کو بنیاد بناکر مظلومیت کا پھریرا اٹھاتے اور لیڈر بنے منتخب ایوانوں کی مراعات بٹور رہے ہوتے،وزارت کے مزے لوٹ رہے ہوتے، ساتھ لوٹ کے مال میں حصہ دار بن کر عیش کرتے۔ لیکن کیا آدمی ہیں صاحب، فائدے اٹھانے کے بجائے مشکلات کی صلیب اٹھالی اور مسیحی برادری کے نوجوانوں کو وطن کے لیے ان کے پُرکھوں کی خدمات سے روشناس کراتے ہوئے ان میں اعتماد اور عزم وہمت کی دولت بانٹنے لگے، انھیں سماج سے کاٹ کر اپنی راہ نمائی کا ڈنکا بجانے کی کوشش نہ کی، انھیں ان کے مسلم ہم وطنوں سے جوڑنے کی جدوجہد میں مگن ہوگئے۔ یہ جدوجہد اپنے پہلو میں ان عناصر کے عزائم کے لیے خودکشی کا سامان رکھتی ہے جو پاکستان کو مذہبی اقلیتوں کے لیے غیرمحفوظ قرار دینے اور دلوانے کی خاطر رائی کو پہاڑ بنانے اور پیالی میں طوفان اٹھانے کے جتن کرتے رہتے ہیں۔ کاش اعظم معراج جیسے لوگ ہمارے ملک کے ہر طبقے میں پیدا ہوں۔

اعظم صاحب کی زیربحث تخلیقی کاوش ان کی اسی سماجی تگ ودو کا اظہاریہ ہے، جس کے خیالات داغستان کے عوامی شاعر حمزہ توف کی نظم عورت اور پنجاب دھرتی کے دکھوں کو زبان دینے والی امریتا پریتم کی نظم قُقنس سے اخذ کیے گئے ہیں، اس کا مخاطب پاکستان کے مسیحی ہیں، لیکن پوری ”نثری نظم“ پڑھ جائیے آپ کو کہیں کوئی تشبیہ، تلمیح اور اشارہ تک نہیں ملے گا کہ یہ اُجلے الفاظ کسی خاص طبقے یا برادری سے خطاب ہیں۔ سو یہ اظہاریہ ہر اس شخص اور گروہ کے لیے پُکار ٹھہرا ہے جو دنیا کے کسی بھی خطے میں رہتے ہوئے اجنبیت اور عدم شناخت کے کرب ناک احساسات کا شکار ہو۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس جہت نے اسے آفاقیت عطا کردی ہے، اس میں افلاس کی بنا پر دھتکارے ہوئے لوگ اپنا چہرہ دیکھ سکتے ہیں اور زبان، قومیت اور مذہب کے نام پر معاشروں میں غیر کردیے جانے والے اپنے سینوں میں اٹھتا درد ان لفظوں کی نغمگی میں محسوس کرسکتے ہیں۔ چناں چہ ”سنہری ققنس“ کا اب تک انگریزی، سندھی، پنجابی، سرائیکی، پشتو اور ہسپانوی میں ترجمہ ہوچکا ہے۔اور دیگر کئی زبانوں میں ڈھالنے میں لوگ کوشاں ہیں اعظم معراج کی تخلیق پر تحریر کا اختتام کہ اس کے بعد کچھ کہنا جچے گا نہیں۔
سنہری ققنس
اعظم معراج
(حمزہ توف اور امرتا پریتم کی نظموں سے ماخوذ)
اے وطنِ عزیز کے محروم و بے شناخت لوگوں!
اپنے سماج سے بیگانو!
دھرتی سے اپنی نسبت سے لاعلم دھرتی واسیو!
اس ارضِ پاک کو بنانے
سنوارنے سجانے
اور بچانے میں اپنے اجداد کے کردار سے بے بہرہ معصومو!
اپنے آباءکی سرزمین پر اجنبیوں کی طرح رہتے اور
نفرت انگیز سماجی رویوں کے وار سہتے
اپنے روشنی کے میناروں کو
اپنی محرومیوں کے اندھیروں میں گُم کرتے خاک نشینو!
خود رحمی، احساس کمتری و برتری کی
چکی کے پاٹوں میں پسے ہوئے راندہ درگاہ
ہم وطنو!
ہزاروں لوگ
تمہاری ان محرومیوں کا نوحہ کہتے اور سینہ کوبی کرتے ہیں
تمہاری ان کمزوریوں اور پستیوں کو بیچتے ہیں
بے شک اس ظلمتِ شب میں
امید کے دیے جلانے والے
تمہیں دھرتی سے نسبت بتانے والے
اور یہ منترہ
تمہیں رٹانے والے
کہ تم بھی وارث ہو اس سرزمیں کے
اور اس ارضِ پاک کو
اپنے خون پسینے سے سینچنے والے وطن کے معماروں
اور روشنی کے میناروں سے
تمہارا ناتا جوڑنے والے
شہدائے وطن کے پاک لہو کے رنگ سے
تمہاری بے رنگ روحوں میں
رنگ بھرتے مرد قلندر
بہت سے صبحِ نو کی نوید سنانے والے ہوں گے
یاد رکھنا
ان بہت سوں میں سے ایک میں بھی ہوں
لیکن اگر
کبھی لمبی اندھیری رات کے سیاہ گُھپ
اندھیروں سے گھبرا کر یہ دیوانے
صرف چند بھی رہ گئے تو
ان چند میں ایک میں بھی ضرور ہوں گا
پھر اگر
اُمید سحر میں ان میں سے صرف ایک بچا
تو وہ
یقیناً میں ہی ہوں گا
لیکن اگر
گھنے پیڑوں کے جُھنڈ میں سے
سورج کو چُھوتے درختوں پر
اُمیدِ حیاتِ نو میں نغمہ  مرگ گاتے ہوئے
قُقنسوں کے مہک دار شاخوں سے بنے گھونسلوں میں سے
سنہری ٹھنڈی ہوتی ہوئی آگ میں سے
کئی نوجوان
سورج کی طرح چمکتے
قرمزی سنہرے قُقنس
اپنی ہزاروں سال کی پستیوں، ذلتوں اور
محرومیوں کے بھاری بوجھ
اپنے توانا سنہری پروں سے جھٹکتے ہوئے
چونچوں میں
اپنی قابلِ فخر شناخت کے علم دبائے
اُمیدوں کی روشن شمعیں دلوں میں جلائے
عزم و حوصلے اور امنگیں
جن کے سینوں میں موجزن ہوں
جن کی نظر
روشنی کے میناروں سے اٹھتی ہوئی
دور آسمانوں پر ہو
اور
وہ دن کے اجالوں میں
سورج کی طرف
لمبی اڑانیں بھریں
تو سمجھ لینا
جن مہک دار گھونسلوں سے
جواں قُقنس اڑتے ہیں
ان گھونسلوں میں
میرے بدن کی راکھ تھی!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply