ستمگر ستمبر۔۔شاہین کمال

اس سال سردی جلدی آ گئی ہے مگر ابھی ٹھنڈی ہوا جسم کو اتنی ناگوار نہیں ہے بس ایک جیکٹ سے کام چل جاتا ہے۔ میں نے ایک گہری سانس لیتے ہوئے پسنجر سیٹ کے پائیدان سے کافی کا تھرماس اٹھایا ساتھ ہی پلاسٹک کے مربع ڈبے میں سلیقے سے رکھی گئی سینوچ نے بھی اپنی جانب متوجہ کیا اور خواہش نہ ہوتے ہوئے بھی میں نے سینوچ کا ڈبہ اٹھا لیا کہ دروازے سے نکلتے نکلتے سعدیہ کی تاکید یاد آ گئی تھی۔ دل سے اس کے لیے ڈھیروں دعائیں نکلیں۔ بیٹیاں بھی اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہیں یہ نہ ہوں تو زندگی کیسی پر ہول اور ویران ہو جائے۔

میں انتہائی شکر گزار ہوں اس رب جلیل کا کہ اس نے مجھے ان نعمتوں سے سرفراز کیا۔

میں گیٹ کے قریب پڑی بنچ پر بیٹھ گیا۔ چاروں طرف سناٹے کا راج تھا اور زرد اور سرخ پتے ہوا میں اڑتے پھر رہے تھے۔ خزاں ہمیشہ سے میرا پسندیدہ موسم رہا ہے مگر آج مجھے یہ جدائی کا نوحہ لگا۔ میں کافی کا سپ لیتے ہوئے عاتکہ کی قبر کو تکے جا رہا تھا۔ چار دن سے عاتکہ یہاں ہے اور مجھے کسی پہلو قرار نہیں۔ دل کی جگہ معنوں انگارہ سلگ رہا ہے۔ گھر پر ضبط کے پہرے ہیں کہ بچیوں کے سامنے رونا نہیں چاہتا اور پھر تنہائی بھی میسر نہیں سو سعدیہ کے اصرار پر بمشکل اشراق تک گھر پہ رک پاتا ہوں، پھر میں اپنی عاتکہ کے پاس آ جاتا ہوں۔ میرا بس چلے تو میں یہیں کا مکین ہو جاؤں۔ انسان کس قدر بےبس ہے نہ جانے والوں کو روک سکتا ہے اور نہ ان کے پیچھے اپنی مرضی سے جا سکتا ہے۔ بےبسی سی بےبسی ہے۔

میرا اور عاتکہ کا اڑتیس برس کا ساتھ تھا۔ مجھے آج پہلی بار اندازہ ہوا کہ لفظ “تھا” کتنا سفاک اور دل خراش بھی ہو سکتا ہے۔ اپنے محبوب کے لیے تھا کا لفظ استعمال کرنا گویا تیزاب پینا ہے۔ میں شکوہ نہیں کر رہا مگر میرے کریم یہ امتحان میری برداشت سے بہت زیادہ ہے۔

میں نے ابا میاں اور امی کی موت کا سانحہ بھی برداشت کیا تھا۔ وہ میں مشکل ہی سے سہی پر جھیل گیا تھا مگر عاتکہ کی جدائی! اف میرے خدا! اس میں تو سانس سانس آزار ہے، گویا دو دھاری تلوار ہے۔

میں صبح ہی عاتکہ پاس آ جاتا ہوں اور تلاوت اور ذکر کرتا رہتا ہوں۔ ابھی عصر کی نماز میں پینتالیس منٹ باقی ہیں۔ سرد ہوا تند ہو چلی ہے گرم کافی نے جسم کو گرمائش دی۔ یادوں کا ایک ریلا ہے جو مجھے بہائے لیے جا رہا ہے۔ ابا میاں اور امی بھی یاد آ رہے ہیں۔

امی تین سال کی تھیں تب نانا بحرین سے وآپس پاکستان آ گئے تھے۔ بحرین میں فیکٹری میں ہونے والے حادثے میں ان کا بازو کٹ گیا تھا۔ وہاں ابتدائی علاج کے بعد ان کو فارغ کر دیا گیا اور وہ وطن لوٹ آئے۔ فیکٹری نے ان کو ہرجانے کے طور پر بھاری معاوضہ بھی دیا تھا۔ پاکستان میں جانے کس کی کوتاہی سے ان کا زخم بگڑ گیا اور نانا کنگرین (gangrene) کے مرض میں مبتلا ہو کر چل بسے۔ یہ نانی کے لیے ایک جانکاہ صدمہ تھا۔ نانی معاشی طور پر خودکفیل تھیں مگر چونکہ کم عمر تھیں اس لیے ان کے بھائی ان کی دوسری شادی کے لیے کوشاں تھے۔ نانی کا بیوگی میں ایک آدھ رشتہ آیا پر کوئی جی کو نہیں لگا۔ کوئی رنڈوا تھا تو کوئی طلاق شدہ اور کوئی دوسری شادی کا خواہاں کا مگر بچی کو قبولنے کو کوئی بھی تیار نہیں تھا اور نانی کسی بھی قیمت پر اپنی بچی کو چھوڑنے پر راضی نہیں تھیں۔ امی کی بدقسمتی کہ نانی کی زندگی نے وفا نہیں کی اور نانا کے انتقال کے ٹھیک پانچ سال بعد وہ میری امی کو اپنے بھائی کے حوالے کر کے خلد سدھاریں۔

بڑے نانا (امی کے ماموں) خود کثیر العیال تھے اور بیگم بھی مزاج کی تیکھی۔ اٹھ سال کی مختصر سی عمر میں امی نے زندگی کی ساری تلخیاں چکھ لی۔ ان کے پیٹ کو نہ کبھی تازہ کھانا نصیب ہوا اور نہ ہی تن کو نیا کپڑا۔ بڑے نانا کو اللہ جنت نصیب کرے بیوی سے جھگڑا مول کر کسی نہ کسی طرح امی کو میٹرک کروا ہی دیا تھا۔ امی بتاتی تھیں کہ وہ صبح منہ اندھیرے اٹھتی اور پورے گھر کا ناشتا (نانا، نانی، تین بیٹیاں اور دو بیٹے) بنا کر اسکول جاتی اور وآپسی پر ناشتے کے برتن دھونے کے بعد دن کا کھانا بناتی۔

بڑی نانی ان کے ساتھ بالکل زرخرید غلاموں والا برتاؤ رکھتی۔ بڑے نانا بیچارے جس قدر کر سکتے تھے کرتے مگر بیگم کے آگے وہ بھی بے بس تھے۔ امی کے حالات بہت سخت تھے اور زندگی دشوار ترین۔ امی کی خوش شکلی کے سبب اچھے کھاتے پیتے گھرانوں سے امی کے کئی رشتے آئے مگر بری نانی نے اپنے حسد کے باعث امی کو منگنی شدہ کہہ کر ان لوگوں کو انکار کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب میری بیٹیاں عیش نہیں کر رہی ہیں تو یہ منحوس کیوں ٹھاٹ سے رہے۔ بلکہ وہ تو مفت کی نوکرانی کھونے کے ڈر سے سرے سے امی کی شادی کے حق ہی میں نہیں تھیں اور رشتے کے لیے آنے والوں کو آنے بہانے انکار کر دیتی تھیں۔

امی جب بیس سال کی تھیں تو بڑے نانا کے کولیگ نے اپنے سالے یعنی ابا کا رشتہ دیا اور ساتھ ہی اپنے سالے کی بہت تعریف کی اور بلاشبہ ابا میاں تعریف کے لائق تھے سادہ، صابر اور خاموش طبع جنہوں نے اپنی پانچ بہنوں کو بیاہنے میں اپنی جوانی گلا دی۔ بڑے نانا عمروں میں اتنے واضح فرق(بائیس سال) کی بنا پر اس رشتے کے لیے اقرار کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کر رہے تھے مگر بڑی نانی نے آگے بڑھ کر رشتے کے لیے ہاں کہہ دی۔ تین جوڑے اور شربت کے گلاس پہ امی کا نکاح ہوا۔

اس طرح امی اس جہنم سے آزاد ہوئیں مگر ابھی مقدر کی سختیاں باقی تھیں پانچوں نندوں کو جوان بھابھی سے خوف تھا کہ وہ بھائی کو ان سے چھین لے گی اور سیاہ و سفید کی مالک بن جائے گی اس چلتے ان پانچوں نے امی کے خلاف محاذ بنا لیا اور امی کو ٹھیک ٹھاک سخت وقت دیا۔ رفتہ رفتہ امی کی بےزبانی، صبر اور سلیقہ ابا میاں کے دل میں گھر کرتا گیا اور جب پہلی بار ابا نے بیوی کی حمایت میں آواز بلند کی تو بہنوں میں پٹس پڑ گئی اور تین بہنیں جو ابا کے گھر کے نزدیک رہتی تھیں انہوں نے ابا کا بائیکاٹ کر دیا اور مزے کی بات کہ ہمیشہ کے صلح جو ابا نے جواب میں مرحبا کہا۔ پھوپھیوں کی مداخلت ختم ہونے کے بعد پھر امی کی زندگی میں اطمنان ہی اطمنان تھا۔

امی بہت دبو اور گم سم رہتی تھیں مگر ابا کی محبت اور اعتماد نے امی کو نیا جنم دیا اور میری پیدائش کے تین سال بعد امی نے پراؤیٹ انٹر اور پھر بی اے کیا۔ امی بتاتی ہیں کہ شادی کے شروع کے دنوں میں اتنے عمر رسیدہ شوہر کو پا کر امی بہت رنجور تھیں مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ابا میاں کی محبت اور خیال نے امی کو ان کا گرویدہ کر دیا۔ ان دونوں کا پچیس سال ساتھ رہا۔ اپنی عمر کے آخری سال ابا میاں فالج کی وجہ سے بستر کے ہو کر رہ گئے اور امی نے ان کی تیمارداری اور خدمت گزاری میں دن رات کا فرق مٹا دیا۔ میں ان دنوں انجینئرنگ کے چوتھے سال میں تھا اور گھر کی گاڑی کے اضافی ایندھن کے لیے کوچنگ سینٹر کے علاوہ تین چار جگہ ٹیوشن بھی پڑھاتا تھا۔

فورتھ اور فائنل یر میری زندگی کے مشکل ترین سال تھے۔ ابا میاں کے انتقال کے دن سے زیادہ میں اپنی کونوکیشن (convocation) کے دن رویا تھا کہ ابا میاں کو بہت ارمان تھا میری انجینیرنگ کی ڈگری دیکھنے کا۔ کونوکیشن کے جلسے میں ڈگری وصول کرنے کے بعد یونیورسٹی سے میں سیدھے پاپوش کے قبرستان چلا گیا اور وہاں ابا میاں کی قبر پر دل کھول کر رویا۔ مجھے ابا میاں کو آرام پہچانے کا موقع قدرت نے نہیں دیا اور وہ بہت سے ارمان اور تشنہ خواہشات کے ساتھ قبر میں اتر گئے۔ ابا کو قیمتی گھڑیاں اچھی لگتی تھیں اور عمر بھر انہیں ایک اچھی ری کنڈیشن گاڑی کی شدید تمنا رہی۔

ابا میاں بہت ذہین طالب علم تھے اور ان کا داخلہ میڈیکل کالج میں ہو گیا تھا مگر دادا میاں کے انتقال کی وجہ سے انہیں میڈیکل کی تعلیم کو خیر باد کہہ کر بی کام کرنا پڑا شام میں ٹیوشن اور رات کی شفٹ کی نوکری۔ انہوں نے اپنی پانچوں بہنوں کی شادیاں کی۔ ابا میاں کو بڑا دکھ تھا کہ ان کی بیماری میں ان کی بہنوں نے ان کو نہیں پوچھا۔ ابا میاں کی میت پر میری تمام پھوپھیاں جمع تھیں اور اونچا اونچا بین ڈال رہی تھیں۔ میرے سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم لوگ مردہ پرست کیوں ہیں؟

ہم اعتراف محبت کے لیے موت کا انتظار کیوں کرتے ہیں؟

آخر جیتے جی کسی کو خوشی پہنچا نے میں کیا امر مانع ہے؟

ہم زندگی میں رشتوں کی قدر کیوں نہیں کرتے؟

خسارے اور پچھتاوے ہی کیوں اکٹھے کرتے ہیں؟

جانے کیوں ہم لوگ جیتے جی اعتراض اور بعد از موت اعتراف کرتے ہیں۔

میری پارکو میں بحثیت پروسیس انجینئر کے نوکری لگی اور میری نوکری کے بعد امی نے مالی آسودگی تو دیکھی مگر اب ان کا دل مر چکا تھا۔ مجھے بڑا قلق ہے کہ ابا میاں اپنی ناتمام آرزوؤں کے ساتھ اس جہان سے نا آسودہ گئے۔ میرا یہ دکھ ہمیشہ ہرا رہا۔

امی نے مجھے سے میری پسند دریافت کی کہ اگر مجھے کوئی پسند ہے تو امی وہاں میرا رشتہ لے جائیں مگر غم روزگار نے مجھے کبھی اتنی فرصت ہی نہ دی تھی کہ کسی کے رخ زیبا کو نظر بھر دیکھتا یا کسی کی زلف مشکبار کا اسیر ہوتا۔ غریبوں کی جوانی بھی تو سہمی اور کچلی ہوئی ہوتی ہی ہے اور انا بھی اپنا علم بلند کیے رہتی ہے۔ سو میں مبتلائے یار ہوئے بغیر عمر عزیز کی ستائیس بہاریں گزار چکا تھا۔

مجھے راضی پا کر امی نے جھٹ پٹ کلیم چچا جو ابا کے گہرے دوست تھے اور ہر مشکل گھڑی میں ہم لوگوں کے شانہ بشانہ کھڑے رہتے تھے ان کی بیٹی عاتکہ سے میرا رشتہ پکا کر دیا۔ عاتکہ کو میں نے دسیوں بار دیکھا تھا مگر سوچا ایک بار بھی نہیں تھا کہ رنگین خواب دیکھنے کی استطاعت ہی نہیں تھی۔ عاتکہ بہت خوب صورت تھی اور اس نے ہوم اکنامکس میں گریجویشن کی تھی۔ کلیم چچا کے تین بچے تھے۔ محمود، خالدہ اور عاتکہ۔

عاتکہ سے میری شادی سادگی سے ہو گئی اور یقین کیجیے شادی کے بعد مجھے زندگی کے اصل معنی سمجھ میں آئے۔ میں نے جانا کہ جینا کس کو کہتے ہیں اور یہ بھی کہ واقعی وجود زن سے ہے کائنات میں رنگ۔ عاتکہ کے وجود سے میری بےرنگ زندگی دھنک رنگ ہو گئی تھی۔ بہت کم میاں بیوی کو ایک دوسرے سے عشق ہوتا ہے مگر ہم ایک دوسرے کے لیے اور ایک دوسرے کو دیکھ دیکھ کر جیتے تھے۔ ہم دونوں ایک دوسرے کی تکمیل تھے، صحیح معنوں میں ایک دوسرے کا لباس۔ میں وہ خوش نصیب ہوں جس نے جیتے جی اس دنیا میں اپنی جنت بسائی۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply