بُھولا بسرا دیس انگلستان۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

بُھولا بِسرا دیس انگلستان جیسے اک کباڑی کی دکاں ہو
بوڑھے، دیرینہ، دریدہ
چیتھڑوں سے مرد و زن بکھرے ہوئے
کٹھ پتلیوں سے
بانس کی ٹانگوں پہ چلتے
مسخرے سرکس کے جیسے منہ بسورے
ہنس رہے ہوں
بلڈنگیں وکٹوریہ کے عہد کی
کمزور گھٹنوں پر کھڑی
وہ سِن رسیدہ عورتیں ہیں
لڑکھڑا کر جن کا گرنا
ایک جھٹکے کا بہانہ مانگتاہے
پیڑ، جیسے ہیجڑے، جن کے لیے انگلش کے لیبل
“گے” میں مضمر ان کی جنسی کج روی ہے
پارک میں، سڑکوں پہ پھرتے
جرم کے احساس سے بوجھل نگاہوں سے کوئی
لا جنس یا ہم جنس ساتھی ڈھونڈھتے ہیں
اور سڑکیں
بوڑھی قحبائیں ہیں ، اونی فرغلوں میں
ڈھیلے ڈھالے، کرم خوردہ جسم کے ٹکڑے لپیٹے
شہر میں یوں چل رہی ہیں
جیسے سودا ا پنا گاہک ڈھونڈتا
بازار میں بھاؤ  بتاتا پھر رہا ہو
بھولا بسرا دیس انگلستان
اس کا شہر لندن
جس میں بیتے وقت کا “گھڑیال” بِگ بین”
ماتمی دھن میں کوئی گھنٹہ بجاتا ہے تو جیسے
چار صدیاں چرمرا کر چیختی ہیں۔
اس دریدہ شہر کا پُل بِک چکا ہے
جس کے بارے میں کبھی ایلیٹ نے کچھ ایسا کہا تھا
London LBridge is falling down, falling down
یہ ولایت وہ نہیں ہے
جس پہ سورج آج تک ڈوبا نہیں تھا
اب تو اک تاریک تہہ خانہ ہے، جس میں
ٹوٹی پھوٹی کرسیاں، صوفے پڑے ہیں
ہینگروں پر
کچھ پرانے کوٹ، ہیٹ اور ٹائیاں ہیں
اور کچھ پارینہ فوجی وردیاں
فنگس لگے میڈل ٹنگے ہیں
کرم خوردہ کمپنی سرکار کے چرمی رجسٹر
دھول کی چادر میں لپٹے سو رہے ہیں
مکڑیاں بھی
خود کشیدہ، گرد میں ملبوس
جالوں میں پھنسی
پچھلی صدی کے خواب بُنتی مر چکی ہیں
بھولا بسرا دیس انگلستان جیسے
اک کباڑی کی دکاں ہے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

(انگلینڈ کے اپنے دوستوں سے معذرت کے ساتھ۔۔ یہ نظم ۱۹۹۲ ءمیں لکھی گئی اور میرے پانچویں شعری مجموعے “مجھے نہ کر وداع” میں شامل ہے)

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply