رت آگئی رے ،رت چھا گئی رے ،پیلی پیلی سرسوں پھولے

یونیورسٹی کے دنوں میں جب عملی زراعت سے پہلے علمی زراعت سے واسطہ پڑا تو شہری لمڈوں کو درانتی بھی پکڑنی نہیں آتی تھی الحمدللہ۔مئی کے ابتدائی دنوں میں داخلہ ہوئے چند د ن ہی ہوئے تھے کہ ایگرانومی فارم جہاں پریکٹیکل کلاس ہوتی تھی ،تمام نوواردان کو فال ان کروا کر ہتھیاریعنی قلم رکھوا کر ایک ایک عدد درانتی پکڑا دی گئی ، کہ وہ رہا سامنے میدان ۔جاؤ اور آدم و حواکو جنت سے نکلوانے کا سبب بننے والے خوشہ گندم کو دشمن سمجھتے ہوئے تہہ تیغ کی بجائے تہہ درانتی کردو۔
باغ بہشت سے نکلنے کا حکم تو آدمؑ کو ملا تھا سزا ابنِ آدم درانتیاں، ہل اٹھائے آج تک بھگت رہی ہے۔ پینٹ شرٹ میں ملبوس بابو اور وہ نصف درجن ہم جلیس لڑکیاں جن کے سان وگمان میں بھی یہ کڑا امتحان کبھی نہ آیا ہوگا سب کو گھٹنے ٹیکنے پر کسی اور چیز نے نہیں اس واڈی* نے مجبور کردیا ۔ اس دن پتہ چلا کہ گھٹنوں کے بل بیٹھ کر کس طرح آگے بڑھتے ہوئے گندم کاٹی جاتی ہے ۔ درانتی چلاتے ہوئے کس طرح ہاتھ بچا کر زمین کے پاس سے کٹائی کی جاتی ہے اور سائیڈ میں بھریاں بنائی جاتی ہیں۔ جب سر پر چمکتا روشن سورج ہو اور پسینہ ہر مسام سے پھوٹا پڑ رہا ہو تو گندم کی کنڈ،پسینہ اور سورج مل کر کس طرح قیامت ڈھاتے ہیں ۔بھبھوت ملے بھوت جیسے بن کر جب واپسی ہوئی تو اپنا آپ پہچاننا مشکل لگ رہا تھا۔کتنے جفاکش اورمحنتی ہوتے ہوں گے وہ لوگ جو مقابلے میں ایک ایک ایکڑ گندم دن میں کاٹ دیا کرتے تھے ۔

ملتان سے آئے ایک سید زادے نے جو مزارعین کے ساتھ یہ سلوک کرتا تھاجو آج اس کے ساتھ روا رکھا جا رہا تھا پر احتجاجاََ گندم کاٹنے سےانکار کردیا ، بس اتنا ہوا پھر کہ ہم توپریکٹیکل انچارج رجوکہ صاحب کی نگاہ ناز سے کوئی آدھ گھنٹے بعد نجات پاگئے ، موصوف نصف النہار تک "انہی لوگوں نے لوٹا دوپٹہ میرا"کی جگہ" پٹکا میرا" کا ٹپہ گاتے پائے گئے اور اس کو چھٹی نہ ملی جس نے انکار کیا ۔اختتام پراس کی چال اس کے ماضی و حال سے زیادہ خراب تھی چلن بھی تھوڑے عرصے بعد خراب ہوگیا۔"سیدھے چل" کی آواز پر ایک قدم یاں پڑتا اور اور دوسرا واں اور شرابی کیا ڈولتا ہوگاجیسا موصوف اس کسب کمال کن کے بعد ڈول ڈول کر اپنی شانِ نزول پر اپنے آپ کو لعن طعن کرکے پیش کررہے تھے کہ جنما ہی کیوں؟ یقین سے کہا جاسکتا ہے اسلام تلوار کے زور پر پھیلا یا نہیں مگر زراعت ضرور درانتی کے زور پر پھیلی اور پھولی۔
پہلے سمسٹر کے فائنل میں جب وقتِ پریکٹیکل آیا توممتحن نے مرلہ ،سرساہی ،گھماں،بھیگہ اور کِلے کی پیمائش پوچھی تو آنکھیں بھیگ گئیں ان سوالوں کو سن کرکہ الہٰی اتنا ظلم معصومین پر ۔دل ہی دل میں فرید خان المعروف شیر شاہ سوری کے وضع کردہ زمین کی پیمائش کے نظام کے اتنے دقیق ہونے پر ان کے درجات بلند کرتے رہے۔مجھ سے گندم کے بیج کی فی ایکڑ مقدار پوچھی تو رٹو طوطے کی طرح جھٹ سے سو کلو کہہ دی، ممتحن کے دیدے پھٹتے دیکھ کر فوراََ غلطی کا احساس ہوا تو یاد آیا یہ مقدار تو فی ہیکٹر کی ہے تو اسے جلدی سے ایکڑ پرتقسیم کرکے اپنی تعلیمی قابلیت پر ممکنہ پڑنے والی منفی ضرب سے خود کو بچایا۔ایک اور دوست نے جو کرکٹ کا شیدائی تھا مونگ اور ماش کے بیج کی پہچان ان کے گہرے سبز اور کالےرنگ کے چھلکے ہونے کی وجہ سے ان کو یاد کرنے کے لئےجملہ نشانیوں میں سےایک یہ بھی کر رکھی تھی آسٹریلیا کے کرکٹر جیف مارش کو ماش کررکھا تھا اور اس کی گوری رنگت کے اوپراسے کالا چولا پہنا دیا تھا ساڈی فرمایش تے۔
فی ایکڑ سرسوں کی کاشت کے لئے بیج کی مطلوبہ مقدار اور حاصل شدہ پیداوار کی بابت دریافت کیا گیا تو سب کے جوابات میں بعد المشرقین تھا۔بیج کی مقدار میں اور اوسط پیداوار کے جوابات میں اتنا تفاوت تھا کہ پنجابی و فارسی کہاوتیں "کھیتی سائیاں سیتی" اور "اتم کھیتی، مدہم بیوپار، نکھد چاکری بھیک ندار"پر اگلے کئی سالوں تک پورا اترنے کی کوئی امید بر آتی نظر نہیں آرہی تھی بہت سارے سوال عملی زراعت سے متعلق تھے جو کتابیں پڑھنے والے شاگرد پیشہ لوگوں سےکورس کی کتابوں سے باہر سے پوچھے گئے تھے۔
اس اوپر لکھی گئی ساری تمہید کا مقصد تھوڑا سا بیک گراؤنڈ سے آگہی فراہم کرنا تھا کہ دیہی زندگی سے کبھی بالواسطہ بنرد آزما ہونے کاہمارا کوئی تجربہ نہیں تھا ۔یونیورسٹی میں گذرے مہ و سال کا قصہ رنگین و سنگین پھر کسی وقت کے لئے اٹھا رکھتے ہیں کہ یہ چند دنوں کا نہیں پورے سات سال کا عرصہ تھا جو وہاں گذارا اور اپنے تئیں ماہر زراعت کی ڈگری ہاتھ میں لئے نکلے اور کیا کیا قصے ہوئے اس کا ذکر اتنے اختصار سےبیان کرنے میں لطف نہیں آئے گایادوں کا ایک انبوہ ہے جو حافظے کی فصیلوں پر یورش کررہا ہے۔ اپنے سارے سازو سامان اور غنیم کے ساتھ۔ ہاں اس دور سے جڑے ایک دن کی یادیں آپ سے شئیر کیے دیتے ہیں جب ہم گُوڑھے* دوست اپنے یار رانا عامر کے گاؤں سرسوں کا ساگ کھانےاور اس کے گھوڑوں کی سواری کرنے تحصیل سمندری میں اس کے آبائی گاؤں گئے تھے ۔
شہر میں رہنے کی وجہ سے گاؤں کی سادہ زندگی،خالص خوراک،ورزشی اور کسرتی اجسام والے کسان اور دودھ ملائی کی طرح دِکھتی مٹیاروں کی کہانیاں سن سن کر ہمیں بھی اس زندگی کو قریب سے دیکھنے اور اپنانےکی چاہ ہمیشہ دل میں موجزن رہتی تھی۔ مگرگاؤں تب ہی جانا ہوتا تھا جب کسی عزیز رشتے دار کی یا تو شادی ہوتی یاخاندان میں فوتگی،اور ان دونوں مواقع پردیہاتی رہتل پرطائرانہ نظر ہی ڈالی جا سکتی تھی ،کھل کھلا کے گھوم پھرکرعمیق جائزہ لینے سے محروم رہ جاتے تھے ۔
خیر بعد میں جب عملی زندگی میں آئے تو یہ ناآسودہ خواب بھی پورے ہوگئے بلکہ کچھ زیادہ ہی ہوگئے۔ گاؤں میں رہنے والوں کو موٹا ہونے کے لئے غیر معمولی محنت کرنا پڑتی ہے ۔روزمرہ کےکام کاج اور کھیتی باڑی آپ کے جسم پر چربہائے خورانی کی اضافی تعداد چڑھنے ہی نہیں دیتی ۔اب جبکہ اہل دیہہ بھی شہری ماکولات کا استعمال کرنا شروع ہوگئے ہیں تو کچھ بعید نہیں وہ تمام اسباب و علل جو بوجوہ عنقا تھے اب مروج ہوکر دیہاتیوں کی زندگی میں بھی زہر گھول چکے ہوں۔
یہی فروری کے آخری دن تھے یا مارچ کا پہلا ہفتہ جب راناعامر نے سب کو اپنے ڈیرے پر سارا دن گذارنے کی دعوت دی اور لالچ میں سرسوں کے ساگ اور دیسی ککڑ کھلانے کے ساتھ ساتھ گھڑ سواری کی بھی آفر کی ۔ خود تو نیزہ بازی کاکھیل کھیلتا ہی تھا،ساتھ میں اس کے رموز کا آموختہ دوہرا دوہرا کر ہمارےاشتیاق کوبھی مہمیزی کی آخری حدوں تک لے گیا تھا ۔ صلاح بنی ایک دن جب کلاسز ذرا کم ہوں گی اس دن علی الصبح چلیں گے اور سارا دن گاؤں میں بتا کر آئیں گے۔
سب دوست دو گاڑیوں میں لد لدا کر روانہ ہوئے تو دن کھسکتے کھسکتے دس بجے کے قریب پہنچ چکا تھا ۔یونیورسٹی سے کوئی ایک گھنٹہ کی ڈرائیو پر اس علاقے میں پہنچ گئے جو شاملات سمندری کہلاتا ہے، ساندل بار کا یہ ایریا جہاں کبھی مرزے جٹ کی بکی گھوڑی اس زمین کواپنے سموں سے روندتی تھی ،بعد میں اس بار کوانگریز نے نہری نظام استوار کرکے مربع بندی کرکے چکوک کی شکل میں بسایا تھا ۔سمندری کا نام تیجا سنگھ سمندری کے نام پر رکھا گیا تھا، یہ وہی تیجا سنگھ تھے جنھوں نے خالصہ کالج لائلپور کی بنیاد رکھی تھی ۔
جاری۔۔۔۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

٭واڈی (گندم کی کٹائی)
٭گوڑھے (گہرے)

Facebook Comments

احمد رضوان
تیشے بغیر مر نہ سکا کوہکن اسد سرگشتہ خمار رسوم قیود تھا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply