رزقِ حلال/ قرةالعین

وہ ایک اندھیری رات تھی شاید چاند کی آخری راتیں تھیں۔ کمپنی کا فنکشن ختم ہوتے ہوتے رات کے اڑھائی بج چکے تھے، جس وقت میں رائل پام کلب سے نکلا۔ نہر والی سڑک پر گورا قبرستان کراس کرتے ہی میری نظر اپنے بائیں جانب پڑی تو برقعے میں ملبوس ایک عورت کھڑی تھی۔ اس نے گاڑی کو ہاتھ دیا اور میں نے بنا سوچے سمجھے گاڑی یہ سوچ کر روک دی شاید کوئی مجبور ہو جس نے کوئی ہسپتال وغیرہ جانا ہو یا اس رات کے اس پہر اسے کوئی کنوینس نہ مل رہا ہو۔ اس سے پہلے کہ میں کھڑکی کا شیشہ پورا نیچے کرتے ہوئے اس سے بات کرتا، وہ عورت گاڑی کا دروازہ کھول کے فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئی۔ میں نے اس سے سوال کیا “جی بی بی آپ کہاں جائیں گی؟” اس اپنے چہرے کا نقاب نیچے کرتے ہوئے کہا “جہاں آپ لے چلیں۔” میں اس جواب سے چونک گیا اور مجھے شک ہوا کہ میں نے کسی اور طرح کی عورت کو گاڑی میں بٹھا لیا ہے۔ یہ سن کے میں کچھ پریشان ہوگیا لیکن حواس پر قابو پاتے ہوئے میں نے کہا کہ “بی بی آپ مجھے بتا دیں میں آپ کو وہاں اتار دوں گا، پھر مجھے اپنے گھر بھی جانا ہے۔” عورت پر میری بات کا کوئی اثر نہیں ہوا اس نے مجھے پوچھا “کیا تم گاڑی میں کرو گے؟ کہیں لے کر جاؤ گے یا پھر میرے ساتھ چلو گے؟” یہ سن کر میں ہکا بکا رہ گیا۔ دل میں خود سے کہا کہ “لے بھئی خالد احمد ۔۔۔۔۔ آج برے پھنسے۔۔۔۔ تم نے دھندے والی جسم فروش عورت کو بٹھا لیا ہے۔”میں نے اپنی گھبراہٹ پر قابو پاتے ہوئے کہا “دیکھیں بی بی میرا اس قسم کا کوئی ارادہ نہیں ہے آپ مجھے بتا دیں میں آپ کو آپ کے گھر یا جہاں آپ رہتی ہیں وہاں پہنچا دیتا ہوں۔” عورت نے میری بات سنی کی ان سنی کر دی اور کہنے لگی “میرے پاس کنڈوم ختم ہوگئے ہیں کسی بھی میڈیکل سٹور سے خرید لینا۔ دیکھو میں ایک گھنٹے کے تین ہزار لیتی ہوں، کمرے میں پہنچ کر ٹائم شروع ہوگا۔”

خجالت کے باعث سردی میں مجھے پسینہ آگیا۔ کیسی عورت ہے کتنی کھلی کھلی باتیں کر رہی ہیں میں نے تو کبھی اتنی کھلی بات اپنی بیوی سے بھی نہ کی تھی۔ دھڑکتے ہوئے دل سے میں نے اس سے پوچھا “چلو تمہاری طرف ہی چلتے ہیں۔ مجھے بتاؤ کہ تمہارا گھر کس طرف ہے؟” اس نے مختصر سا جواب دیا “میرا گھر سوڈیوال کے پیچھے بند روڈ کے مضافات میں ایک کچی آبادی میں ہے۔” تب تک ہم پنجاب یونیورسٹی سے آگے آچکے تھے تو میں نے سوچا کہ گاڑی ٹھوکر نیاز بیگ سے ملتان روڈ پر ڈال دوں گا۔ اپنی شرمندگی مٹانے کے لیے میں نے اس سے ہلکے پھلکے سوال کرنے شروع کر دیے۔ میں نے اس سے پوچھا وہ کب سے یہ کام کر رہی ہے اور اس کے گھر میں کون کون ہے اور دل میں یہ بھی خوف تھا کہ کہیں اس کے گھر کے لوگ کہیں مجھے لوٹ نہ لیں؟ اس بات کے جواب میں لڑکی نے جو کہا اس میں تکلیف بخوبی محسوس کی جاسکتی تھی “کبھی میں بھی شادی شدہ عورت تھی۔” یہ سن کرمیرا پاوْں یکدم بریک پر پڑ گیا گاڑی زرا سا چرچرائی، شکر ہے رات کے اس پہر نہر پر ٹریفک نہ ہونے کے برابر تھی۔ نہ جانے کیوں مجھے اس سے ہمدردی محسوس ہونے لگی اور اسکے مزید حالات جاننے کیلئے میں نے گاڑی کی رفتار زرا دھیمی کردی۔ اس نے بتایا کہ وہ پسرور کی رہنے والی ہے اس کی شادی دور کے رشتہ داروں میں ہوئی تھی اور وہ بیاہ کر لاہور آگئی۔ گھر میں غربت تھی اس کے بڑے بہن بھائی شادی شدہ تھے۔ ماں بسترِ مرگ پر تھی جب انیس سال کی عمر میں اس کی دوگنی عمر کے آدمی سے ساتھ شادی کردی کردی گئی۔ میاں منڈی میں کسی دکان کا منشی تھا۔ شروع کے دو تین سال آسودگی سے گزرے لیکن گود ہری نہ ہو سکی تو شوہر نے طلاق دے دی۔ تب تک والدین مر چکے تھے میکے لوٹنے پر بھابی نے اس گھر میں رہنے نہ دیا۔ بڑی بہن سسرال والی تھی اس نے بھی قبول نہ کیا اور میں بھری دنیا میں اکیلی رہ گئی۔
بھائی بیوی کے ہاتھوں مجبور تھا اس نے مجھ سے التجا کی کہ جہاں سے آئی ہو وہیں چلی جاؤ یہاں سارا خاندان ہے، برادری ہے، ہماری ناک کٹ جائے گی کہ بہن اجڑ کر میکے کی دہلیز پر آ بیٹھی ہے۔ میرا وہاں کوئی نہیں تھا تو میں کہاں جاتی ۔۔۔۔۔ کچھ سمجھ نہیں آیا اور پھر واپس لاہور اگئی۔ لاہور میں بھی میرا کوئی نہیں تھا میں ادھر ادھر بھٹکتی پھر رہی تھی۔ پھر ایک رہائشی علاقے میں لوگوں کے گھر میں کام ڈھونڈتی پھر رہی تھی لیکن کون تھا جو میری ضمانت دیتا؟ میرا تو شناختی کارڈ بھی نہیں تھا۔ وہ دن بہت لمبا گرم اور تھکا دینے والا تھا اور میں در بدر بھٹک رہی تھی۔ میرے پاس تھا ہی کیا ایک شاپر جس میں دو جوڑے تھے۔ شام تک بھوک سے نڈھال ہو گئی اور یوں لگنے لگا جیسے میں ابھی بھوک سے مر جاؤں گی۔ میں نے بھکارن بن کر مانگنا شروع کر دیا ایک روٹی کے لیے کہ کم از کم میرے پیٹ کی آگ تو ٹھنڈی ہو۔ لوگوں نے مجھے دھتکار دیا کئی عورتوں اور مردوں نے مجھے دھتکارتے ہوئے کہا کہ جوان ہو ہٹی کٹی ہو کام کرو بھیک کیوں مانگ رہی ہو؟ اتنے میں شام کے سائے ڈھلنے لگے، چلتے چلتے میں بڑی سڑک پر آگئی اور بس سٹاپ تک پہنچ گئی۔ مجھے بھوک سے چکر آیا اور لڑکھڑا کر زمین پر گر گئی۔ چند لمحوں کے لیے مجھے اپنی ہوش نہ رہی۔ پھر کسی نے میرے چہرے پر پانی کے چھٹے مارے، آنکھیں کھول کر دیکھا تو برقعے میں ملبوس عورت میرے چہرے پر پانی ڈال رہی تھی۔ اس نے مجھے پانی پلایا میں نے اسے اشارے سے سمجھایا کہ میں بھوک سے گر گئی تھی۔ عورت نے میری بات سن کر میرا ہاتھ تھاما اور وہاں سے کچھ دور ایک چھوٹے سے ڈھابے پر لے گئی۔ مجھے کھانا کھلایا اور پوچھنے لگی کہ معاملہ کیا ہے؟ تمہارا گھر کہاں ہے؟ اور تم یہاں پر ایسے کیوں بھیک مانگتی پھر رہی ہو؟ میں نے اسے اپنی زندگی کے وہی حالات بتائے جو میں آج آپ کو سنا رہی ہوں۔ اس نے بتایا کہ اس کے دو بچے ہیں شوہر کے مرنے کے بعد سسرال والوں نے گھر سے نکال دیا میکہ تھا ہی نہیں۔ ایک وقت تھا جب وہ بھی بھیک مانگنے کیلئے ایسے ہی مجبور تھی اور پھر اس نے اس کا ایک حل نکال لیا کیونکہ وہ اپنے بچوں کو بھوک سے مرتا ہوا نہیں دیکھ سکتی تھی۔ وہ سڑک پر دھندے والیوں کی طرح کھڑی ہونے لگی۔ اس نے ہی مجھے بھی اس کام میں لگایا شروع میں مٙیں اسکے ساتھ اس کے گھر میں ہی رہتی تھی پھر کچھ مہینوں بعد میں نے اپنے لئے کرائے پر علیحدہ گھر لے لیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

رات کے سناٹے میں ملتان روڈ پر ٹریفک نہ ہونے کے برابر تھی۔ چلتے چلتے ہم داتا دربار سے بھی آگے آگئے تھے۔ میں نے یادگار سے گاڑی یو ٹرن کی اس نے مجھے کنڈوم کیلئے پھر یاد کروایا۔ میں نے یونہی سوال کیا “تم کتنی محتاط ہو کہ کنڈوم رکھتی ہو کہ کوئی بیماری نہ ہوجائے۔” اس نے پہلے سے بھی تلخ جواب دیا۔ “کمرے میں میرا شوہر مجھے ٹھنڈی عورت کہتا تھا۔۔۔۔ پھر جب ایک سال تک بچہ نہ ہوا تو بانجھ کہنے لگا۔۔۔۔ شروع میں مٙیں نے کنڈوم کا استعمال نہیں رکھا لیکن اس دھندے کے تیسرے مہینے مجھے حمل ہوگیا ۔۔۔۔۔ اس سے چھٹکارا کیسے ہوا وہ ایک اور کہانی ہے تب مجھے پتا چلا کہ میں بانجھ نہیں ہوں۔ اس خوشی سے میں سرشار ہوگئی۔ میں اس بچے کو پیدا کرنا چاہتی تھی لیکن وہ کس کا تخم تھا میں نہیں جانتی تھی ۔۔۔۔۔ اور پھر بچہ پیدا کرکے میں اسے کس کے حوالے کرتی۔ وہ تو بھلا ہو باجی رخسانہ کا کہ اس نے میری مدد کی ہسپتال لے گئی اور خیال رکھا۔ پھر اس کے بعد سے میں کنڈوم کے بغیر کام پر نہیں آتی تھی۔ میں نے اس سے پھر سوال کیا کہ ایک رات میں کتنے گاہک لیتی ہو؟ وہ کہنے لگی ایک آدھ تو مل ہی جاتا ہے کبھی کبھی دو یا شازونادر تین مل جاتے ہیں۔” اس نے ایک چوک آنے پر کہا کہ “گاڑی سیدھے ہاتھ لو وہاں سے دوسری گلی میں گاڑی ڈال لو میرا گھر وہاں ہے۔” اب ہم ایک تنگ گلی کے باہر تھے جب اس نے مجھے گاڑی روکنے کا کہا۔ ” بات سنو ۔۔۔۔ اس گلی میں میرا گھر ہے چلو آوْ۔۔۔۔۔” جیسے ہی گاڑی رکی میں نے بٹوے سے پانچ ہزار کا نوٹ اس کے ہاتھ میں رکھ دیا۔ اور کہا “میں نے تمہیں پہلے ہی کہا تھا کہ میں اس طرح کا بندہ نہیں ہوں۔ لیکن میں نے تمہارے ساتھ وقت گزارا ہے یہ اس کی قیمت ہے۔” اس نے حیرت سے میری طرف دیکھا اور غصیلی آواز میں بولی ” باوْ جی میں بھیک نہیں مانگتی حق حلال کماتی ہوں اپنے پیسے اپنے پاس رکھ”۔ یہ کہہ کر اس نے وہ نوٹ میری جانب اچھال دیا، گاڑی سے اتری اور سامنے والی گلی میں داخل ہوگئی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply