فلسطینی خانہ بدوش قبائل/منصور ندیم

سنہء 1910 کی یہ تصویر یروشلم کے قریب ایک فلسطینی خانہ بدوش جوڑے کی ہے، یہ ڈومری کہلائی جانے والی برادری ہے، ڈومری خانہ بدوش ہیں، یروشلم کی ڈومری خانہ بدوش کمیونٹی تقریباً 111 خاندانوں پر مشتمل ہے۔ جبکہ غزہ اور مغربی کنارے میں ان کی تعداد زیادہ ہے، جہاں ان کے تعداد لگ بھگ 15,000 کے قریب ہے، بہت سے فلسطینی اور اسرائیلی اس بات سے واقف نہیں ہیں کہ یہ کمیونٹی شہر کے مرکز میں رہتی ہے۔ عرب دنیا میں اور مشرقی یروشلم میں شامل، ڈومری کے لوگوں کو ‘نور’ کہا جاتا ہے، یہ اصطلاح جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ “آگ” سے ماخوذ ہے۔ یروشلم میں ڈومری کے متعلق کہا جاتا ہے کہ لفظ ‘نور’ (عربی میں نور یا ‘روشنی’ سے متعلق) انہیں اس لیے دیا گیا کیونکہ وہ یروشلم میں مسلمان جنگجو نورالدین زنگی کے ساتھ آئے تھے، جو صلاح الدین کے ساتھ مل کر لڑے تھے، سنہء 1187 میں اس نام کی ایک اور وجہ یہ بھی معروف ہے کہ ڈومری کے بہت سے لوگ لوہار کا کام کرتے تھے جو آگ کا استعمال کرتے تھے۔ چونکہ یہ ایک کمزور برادری ہے اس لئے ان کی حیثیت کے تعین میں امتیازی سلوک موجود رہا، جس نے ان کے پہچان کے طور پر ‘نور’ نام کو منفی مفہوم سے زیادہ معروف رکھا ہے۔ یہ لفظ بے ہنگم رویے کو یا ایک توہین کے طور پر بیان کرنے کے لیے وہاں کی مقامی گفتگو میں استعمال ہوتا ہے، اس لئے بھی کہ ان میں سے اکثریت کھیل تماشا  دکھا کر پیسے کماتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مقبوضہ مشرقی یروشلم میں مقیم فلسطینی جن میں ڈومری برادری بھی شامل ہیں, مسلسل خوف اور شک میں رہتے ہیں کیونکہ ان کے پاس اسرائیل میں شہری حیثیت نہیں ہے اور ان کے پاس صرف رہائشی اجازت نامے ہیں۔ مشرقی یروشلم پر قبضے کے بعد اسرائیل نے فلسطینی کمیونٹی اور وہاں رہنے والے ڈومری کمیونٹی کو رہائشی حیثیت دے دی تھی, کسی دوسرے ملک میں شہریت کی کوئی حیثیت نہ ہونے کے باعث، ان کی عمومی قانونی حیثیت انہیں خوف میں ہی رکھتی ہے کہ انہیں ہمیشہ اپنے رہائشی حقوق سے محروم ہونے کا خطرہ ہے۔ ان کا فلسطینی اور اسرائیلی دونوں برادریوں سے الگ تھلگ ہونے کے احساس ان کے حالات کی عکاسی کرتا ہے، یہ کمیونٹی شہر کے سب سے پسماندہ محلوں میں مقیم تھیں۔ اسرائیلی حکمرانی میں رہتے ہوئے، ان کی زبان، نسل اور مذہب کی سماجی طور پر تعمیر شدہ قدر یہودی اسرائیلی شہریوں سے کم ہے، ان کی رہائش گاہوں کی ملکیت کی حیثیت اور شہری نہ ہونے کی کمی انہیں مزید کمزور کرتی ہے، ان کی زندگی میں بہت سارے آگے بڑھنے کے مواقع کو کم کرتی ہے۔ نسلی اقلیت سے تعلق رکھنے والی خواتین کے طور پر ان کی بدنامی کا شکار ہونے کے نتیجے میں جبر کے کئی نظام زیادہ موجود رہتے ہیں، انہیں وسائل تک رسائی، مساوی سماجی حقوق، کام کے مواقع، دولت اور طاقت سے محروم بھی رکھتے ہیں۔
نوٹ: شائد آپ میں سے بہت کم لوگ اس کمیونٹی کو جانتے ہوں گے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply