گگن کنارے اُجڑی شام

آپ کے ہاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نرس نے فقرہ ادھورا چھوڑا،اور چہر ے پر عجیب و غریب سے تاثرات لیے زچہ بچہ سنٹر کے چھوٹے سے گھٹن زدہ کمرے سے باہر چلی گئی۔۔۔۔۔
رفعت کی آنکھوں سے بہتا سیال مزید گاڑھا ہو گیا۔۔۔۔۔باہر کھڑا ارشد مٹھیاں بھینچے بے بسی سے درو دیوا رپر مُکے برسا رہا تھا۔۔پھر اچانک کمرے میں داخل ہوا اور بچے کو گود میں اٹھا کر باہر نکل گیا۔۔۔۔۔۔رفعت ہڑبڑا کر اٹھی او رپیچھے لپکی۔۔۔پندرہ منٹ بعد وہ اپنے محلے کی گلی میں تھا،اپنے گھر کے سامنے رک کر اس نے ایک نظر رفعت کے لٹھے جیسے سفید چہرے پر ڈالی اور دوسری نظر اپنی آغوش میں سکون سے سوئے چند گھنٹے کے بچے پر۔۔۔اور اگلے ہی لمحے گھر کے سامنے موجود خستہ سے لکڑی کے دروازے پر لٹکی کنڈی ہلا کر ڈیوڑھی پھلانگ گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔کچے صحن میں ایک دم ہلچل مچ گئی۔۔۔ارشد نے بیچ صحن میں بیٹھے میک اپ سے لت پت وجود کی گود میں بچہ ڈالا اور ایک لفظ بھی کہے بنا آستین سے آنکھوں کا لہو پونچھتا واپس مڑ گیا۔۔۔۔اور اس تیزی سے اپنے گھر میں داخل ہوا کہ باہر دروازے کے پاس مٹی کا ڈھیر بنی رفعت کو بھی نہ دیکھ سکا۔۔
ڈھولکی پر زبردست تھاپ پڑی،سامنے والے گھر میں شہنائی بج اٹھی۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کا دوسرا پہر تھا۔۔۔۔دونوں میاں بیوی صحن میں چارپائیوں پر لیٹے جانے آسمان پر کیا تلاش کر رہے تھے۔۔۔
ریشماں کے گھر سے ابھی بھی ڈھول تاشے کی آوازیں آرہیں تھیں۔۔اور شاید نئے مہمان کی آمد پر جشن منانے آنے والے اس کے چیلوں میں بھی اضافہ ہو چکا تھا۔۔موذن نے صدا بلند کی تو شور تھما۔۔۔۔۔۔۔رفعت نے شکوہ کناں نگاہوں سے کروٹ لیئے بے خبر سوئے ارشد کو دیکھا اور آسمان کی سمت دیکھتی وضو کرنے اٹھ کھری ہوئی۔۔۔
جائے نماز بچھایا تو ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ کر اس کے چہرے کو بھگوتے جائے نماز میں جذب ہونے لگے۔۔۔۔شکوؤں کی لمبی فہرست تھی،پندرہ سال بعد اولاد کی نعمت ملی تو وہ بھی ادھوری۔۔۔۔۔ جسے اس کا شوہر ریشماں کی جھولی میں ڈال آیا تھا،تڑپتی ترستی مامتا کو وصال کا ایک لمحہ بھی نصیب نہ ہوا،امرت دھارے خشک ہی رہ گئے تھے،اتنے سالو ں میں ایک شکوہ اس کی زبان پر نہ آیا تھا اور آج یہ سلسلہ رُک ہی نہ رہا تھا۔۔۔سجدے میں گِرے جانے کب آنکھ لگی،اُٹھی تو سورج سر پر کھڑا تھا،کچھ دیر تو ماجرا سمجھ ہی نہ آیا،اور جب آیا تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ قیامت کادوسرا دن تھا!!!
پھر اسی قیامت کے آنے جانے میں سالوں کی گنتی کچھ آگے بڑھی،لیکن وہ گھڑیاں وہیں ٹھہری تھیں سامنے والے گھر میں خستہ حال دروازے کے دوسری طرف۔۔۔وہ گھڑیاں جس نے دونوں میاں بیوی کے چہرو ں سے سار ارنگ و روغن اتار کر افسردگی کی دبیز تہہ چڑھا دی تھی۔ایک چیختی چلاتی،دھاڑے مارتی چُپ تھی۔۔۔جس نے دونو ں کی ذات کو اپنے شکنجے میں جکڑ رکھا تھا،ارشد کو دیکھ کر پتا نہ چلتا کہ کس کرب کا شکار ہے لیکن ماں کی پیاسی نظریں بے چین ندی کی مانندسامنے والے گھر کے بوسیدہ دروازے سے ٹکریں مارتی رہتیں۔۔۔۔۔ایک دھوپ کہ جس کی تپش ڈھلنے کے باوجود مدھم نہ پڑی تھی،ایک انتظار تھا جو وجو د کو دیمک زدہ کیے جا رہا تھا ۔۔۔۔گھر کی کھڑکیوں دروازوں سے انتظار چپک کر رہ گیا تھا اور مامتا تھی کہ پیاسی کی پیاسی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کئی روز سے بے تابی سوا تھی،وہ ارشدسے بات بات پر الجھ پڑتی،تھک کر رونے لگتی اور پھر کام میں لگ جاتی۔۔۔ تب ارشد کو اس کی خاموشی سے خوف آنے لگتا،گھنٹوں آسمان کی جانب دیکھتی رہتی،ارشد بار بار بلاتا تاکہ اس کا ارتکاز توڑ سکے لیکن کوئی جواب نہ ملنے پر کمرے میں جاکر چارپائی پر لیٹا چھت کو گھورتا رہتا۔۔۔
یوں محسوس ہوتا تھا رفعت کسی کشمکش کا شکار ہے، کسی نتیجے کی تلاش میں ہے،بار بار دروازے پر جاتی اور گلی میں دیکھتی، پھر مایوس ہو کر خاموشی سے واپس آکر دوسری چارپائی پر بیٹھ جاتی۔۔۔شاید یہ طوفان آنے سے پہلے کی خاموشی تھی۔۔۔۔۔ارشد نے اپنا دل ڈوبتا سا محسوس کیا۔۔۔اسے خیال آیا کہ ایسا تو اس نے آج سے سترہ سال پہلے اس وقت بھی محسوس نہ کیا تھا جب اپنی جان کا ٹکرا بوسیدہ دروازے کے اس پار چھوڑ آیا تھا۔۔۔
اس کا دھیان پھر سے رفعت کی جانب چلا گیا۔۔۔۔۔۔ابھی بیٹھا انہی سوچو ں میں الجھا تھا کہ کمرے سے رفعت کی زوردار چیخ بلند ہوئی،وہ دوڑ کر کمرے میں گیا تو دیکھا۔۔۔ وحشت زدہ رفعت پھٹی آنکھوں سے کبھی شیشے میں نظرآرہے زرق برق لباس پہنے اپنے میک اپ سے لتھڑے وجود کو دیکھ رہی تھی اور کبھی ارشد کو۔۔۔۔جو دیوار کا سہارا لیئے بس زمین بوس ہونے ہی والا تھا۔۔۔ابھی کچھ بول بھی نہ پایا تھا کہ رفعت دوڑتی ہوئی اس کے پاس سے گزرتی سامنے والے خستہ سے دروازے کی کنڈی ہلائے بغیر ڈیوڑھی پھلانگ گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کچے صحن میں ایک دم ہلچل مچ گئی۔۔۔۔یہ قیامت کا آخری لیکن سب سے طویل دن تھا!!!

Facebook Comments

اسما مغل
خیالوں کے سمندر سے چُن کر نکالے گئے یہ کچھ الفاظ ہی میرا تعارف ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply