میں دنیا کو دیکھ رہا تھا (افسانچہ) – ڈاکٹر حفیظ الحسن

تم لِزبن کیوں لائے ہو مجھے”۔”
اُس نے پوچھا۔

ہم پُرتگال کے شہر لِزبن میں تھے۔

یہ شہر بہت تاریخی ہے۔
میں نے بتایا۔
یہاں ایک قلعہ ہے۔ اُس پر توپیں نصب ہیں۔

“مجھے توپوں سے ڈر لگتا ہے؟”
وہ بچوں کی طرح بولی۔

“مجھے ہر اس شے سے ڈر لگتا ہے جو انسان کو قتل کرنے کے لیے لئے بنی ہو۔ انسان قتل کیوں کرتے ہیں؟

اس نے چونک کر کہا

“نفرت کے باعث”۔ میں نے سوچ کر جواب دیا۔

“مگر نفرت کیوں پیدا ہوتی ہے؟ ” وہ بولی

اس لیے کہ انسان فانی ہے۔ اسے ہر لمحے بقا کی جنگ میں نفرت اور محبت دونوں کی ضرورت ہے۔

میں نے اختصار سے کام لیتے ہوئے بتایا۔

“میں سمجھی نہیں”۔ وہ بولی۔

چھوڑو!! نفرت اور محبت کی کہانی بہت پرانی ہے۔ تب سے جب سے کائنات بنی۔ یہ جنگ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ ہم نہیں بھی ہونگے، تب بھی کہ یہ کائنات کے تنوع کی ضامن ہے۔

میں نے آہ بھرتے ہوئے کہا۔

چلو سی فوڈ کھائیں۔ میں نے بات بدلنے کی کوشش کی۔

“مچھلی؟” وہ بولی

نہیں جھینگے اور مسلز۔ یہاں لِسبن کی خاص سوغات سی فوڈ ہے۔

میں نے ہنس کر کہا۔

تم نے کبھی بحر دیکھا ہے۔ میں نے پوچھا۔

نہیں مگر میں نے سمندر دیکھا ہے۔ باسفورس کا سمندر۔ وہ بولی

بحر سمندر سے بڑا ہوتا ہے۔
اس میں لہریں کئی میٹر اونچی ہوتی ہیں۔ یہاں لِسبن سے آگے پرانے وقتوں میں لوگ برازیل اور لاطینی امریکہ جاتے تھے۔ ان کشتوں میں جو ہوا کے زور پر چلتی تھیں۔

اس نے حیران ہو کر میری جانب دیکھا۔

“کیا یہاں سے آگے سمندر پار برازیل ہے؟”

ہاں۔۔ اور برازیل پرتگال کی کالونی تھا۔۔ اب بھی وہاں لوگ پرتگالی زبان بولتے ہیں۔

تم برازیل گئے ہو۔؟ وہ حیران ہوکر بولی

ہاں بلکل۔۔۔ برازیل بھی ایک الگ دنیا ہے۔ طرح طرح کے لوگوں اور طرح طرح کے خوابوں کی دنیا۔ ایک ایسے بر اعظم پر جہاں ایمازون بھی ہے اور اٹاکمہ صحرا بھی جہاں بڑی بڑی دوربینیں ہیں جو رات کے آسمانوں میں کائنات کے راز کھوجتی ہیں۔ جہاں پہاڑوں کے ایسے سلسلے بھی ہیں جن سے آگے فطرت بھی سرنگوں ہے اور ایسے دریا بھی جو زمین کا سینہ چیرتے کسی محبوب کی زلفِ پیچاں کے خم ہیں ۔ یہ بر اعظم باقی دنیا سے الگ ہی رنگ رکھتا یے۔ دور سمندر پار ایک الگ دنیا۔

“ہمم”۔ وہ میرے لہجے کے اتار چڑھاؤ محسوس کرتے ہوئے بولی۔

تم جانتی ہو رات میں سمندر کو چاند کھینچتا ہے۔ جس سے لہریں کئی کئی فٹ اوپر کو اُٹھتی ہیں۔ ویسے ہی جیسے تم اپنے حصارِ جاں میں مجھے کھینچتی ہواور میرے دل کے سمندر میں موج در موج زندگی انگڑائی لیتی ہے۔ کیا تم چاند ہو اور میں سمندر؟

وہ ہنسی۔۔ “کاش ایسا ہوتا۔ تم بہت عجیب ہو”-

کیوں؟

“تمہیں فطرت کے سب راز معلوم ہیں۔ تم میرے حصارِ جاں میں نہیں اُلجھتے”۔

نہیں میں تو کب سے تمہارا ہوں۔۔ اس روز سے جب چرچ کی سیڑھیوں پر تم نے مجھے خدا کی حقیقت بتائی تھی۔۔ تم نے کہا تھا خدا ہے مگر وہ ہم سے بے پرواہ ہے۔ اسے ہماری زندگی سے کوئی سروکار نہیں۔

سنو؟

کہو؟

کیا تم لِسبن کے ساحل پر میرے ساتھ ننگے پاؤں چلو گی؟

ابھی؟

ہاں ابھی؟

ہم دور تک ننگے پاؤں ساحل پر چلتے رہے۔ ریت ہمارے پیروں میں دھنستی رہی۔۔ ہم سیپوں کے خول چُنتے رہے، وہ بچوں کی طرح ان رنگ برنگے خولوں سے کھیلتی ۔ یونہی چلتے چلتے ہم ایک ایسے جہاں میں پہنچے جو سیاحوں سے دور سمندر کے پانی میں ڈوبا ہوا تھا۔ یہاں پانی ساحل سے ٹکرا کر واپس مڑ جاتا۔ایک نغمہ تھا جو کانوں میں گونجتا جسکی لَے ہم دونوں کے لئے اجنبی مگر مانوس تھی۔
اسکے پاؤں گیلے ہوتے گئے۔ میرا ماضی پانی میں دُھلتا رہا۔

واپس چلیں؟ اس نے پوچھا؟

کہاں؟

جہاں سے آئے تھے۔۔

رُکو مجھے یہ منظر آنکھوں کے پنجروں میں قید کرنے دو۔۔کیا پتہ۔ کل مجھے یہ موقع نہ ملے۔

میں نے اُداس ہو کر کہا۔

تم بھی حد کرتے ہو۔ وہ مسکرائی۔

میں پانی کو اپنے پاؤں میں محسوس کرتا رہا۔۔ وہ میرا ہاتھ تھامے منظر میں گم رہی۔۔

ہوٹل واپس آئے تو اُسکے پاؤں گیلے تھے۔۔ اور میری آنکھیں نم۔۔۔
شاید سمندر مجھے سیراب کر چکا تھا۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

وہ سو گئی ۔۔صبح میری آنکھیں خشک تھیں۔۔ سورج نے رات کی اُداسی کو دھو ڈالا تھا۔ میں دنیا کو دیکھ رہا تھا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply