گمانِ محبت(2)-جمیل آصف

مڈل کلاس طبقے سے تعلق رکھتی سوسائٹی میں ابھی تک اعلیٰ  اخلاقی اقدار باقی تھیں۔ یہی وجہ ہے عرصے سے قیام پذیر خاندان ایک دوسرے کے دکھ سکھ کے ساتھی، ہر اونچ نیچ میں دست بازو بنے رہتے تھے رشتوں کا پاس بزرگوں کا احترام اس بدلتے دور میں اب بھی برقرار تھا، اکثر گھروں میں تربیت اولاد کی گہری چھاپ ان کے اخلاق پر واضح نظر آتی ۔
“اریج ! ارے میری پیاری بیٹی اریج کدھر ہو؟”

کمرے میں صاحبِ فراش شخص کھانستے ہوئے تقریباً نڈھال ہو چکا تھا اور کچھ ہی دیر پہلے کمرے سے گئی اپنی بیٹی کو پکارنے لگا جس نے اپنے والد کی تیمارداری میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی تھی ۔
فرمانبردار ،خوبصورت نین نقش کی مالک اپنے جہاں دیدہ والد کی صحبت میں رہ کر زمانہ شناس لڑکی جس کا شوق بس تعلیم، تدبر اور ادب سے ہی وابستہ تھا جو وقت بچتا وہ والد کی غم گساری میں بِتا دیتی، گھنٹوں ان کے زندگی کے تجربات سنتی ۔
“آئی ابا”
اور فوراً کمرے میں موجود دوا کے ساتھ پانی کا گلاس دیتے ہوئے ان کا منہ صاف کرتی اور پھر انہیں بستر پر لیٹنے میں مدد دینے لگی ۔۔۔ قدرت جب آپ کو بہت کچھ دینا چاہتی ہے تو دنیا سے آپ کا تعلق ختم کرکے کسی ایسی آزمائش کی بھٹی سے گزارنے کا سلسلہ شروع کر دیتی ہے تاکہ جہاں سے آپ نکل کر صبر، تحمل، علم، وسعت قلب اور بلند پرواز کے لیے تیار ہو جائیں۔

کشادہ پیشانی، گہری شفاف آنکھیں، دراز قد، گھنی زلفوں، پُرکشش سراپے کی حامل باوقار اور بارعب شخصیت کی حامل لڑکی جب بھی کسی موضوع پر بولتی تو ماحول میں سکوت طاری کردیتی ، جس کی ہمت صبر اور حوصلہ سے ایک زمانہ معترف تھا۔۔یونیورسٹی میں کم گوء    مشہور تھی ۔بڑی سی چادر لیے ہمیشہ اپنے روشن چہرے کے ساتھ خطاب کو وہ ہمیشہ بھلی محسوس ہوتی ۔۔
لیکن اتنے سال کے ساتھ کے باوجود بالواسطہ کبھی ملاقات نہیں کر پائے، فطری شرم و حیا یا شاید اَنا تھی ،بہت سے موضوعات پر راہنمائی کی ضرورت کے باوجود وہ اس سے اب تک مخاطب نہیں ہوا
“ایکسکیوزمی”
خطاب نے بالآخر ایک دن اسے مخاطب کر ہی ڈالا
“جی مجھے کچھ کہا”؟

اریج کنفیوز سی خطاب کو دیکھنے لگی کہ اس شخص نے اسے آواز دی ہے جو عرصے سے ایک خول میں بند بند دکھائی دیتا، کبھی کبھی اس کی آنکھوں میں جلتے دیپ کے مفہوم کو جب وہ اسے دیکھتے پایا جاتا وہم سمجھتی اور کبھی کبھی اس کی دل کی دھڑکن تیز ہونے لگتی ،اس دن لائبریری میں چوری چوری دیکھنے کے احساس سے وہ شرم سے سرخ ہو چکی تھی جب ہی  وہ موقع ملتے ہی وہاں سے چلی گئی ۔
“بالکل میں آپ سے ہی مخاطب ہوں آپ کے علاوہ تو صنف نازک یہاں کوئی فی الحال اور نہیں ”
غیر متوقع انداز گفتگو سے اریج کی ہتھیلیوں تک میں پسینہ آنے لگا ۔
“جی فرمائیے”
جب انسان پہلی بار کسی ایسے شخص سے ہم کلام ہوتا ہے جو دھوپ چھاؤں کی طرح آپ کے گرد موجود ہو تو لفظ غائب ہو جاتے ہیں یہی کچھ اریج کے ساتھ ہونے لگا
” اصل میں موجودہ سیاسی صورت حال سے جو ملکی حالات میں تبدیلی آئی ہے اس پر ایک آرٹیکل لکھنا ہے آپ سے کچھ مشاورت چاہیے تھی”
مدعے پر آتے ہی خطاب نے مافی الضمیر بیان کیا
“مجھ سے”
حیرانگی کے ساتھ اریج صرف یہی بول پائی
“شایدپولیٹیکل ایشوز پر آپ کورس کی ذہین ترین لڑکی ہیں ”
خطاب نے یونیورسٹی سیمینارز اور کلاس روم میں ہونے والے سیاسی مباحثوں پر اس کی گرفت کے متعلق اسے یاد دہانی کروائی ۔
طویل سانس لے کر خود کو سنبھالتی اریج کے لب مسکراہٹ سے نیم واہ ہوئے اور اس کے موتیوں جیسے چمکتے دانتوں نے خطاب کو یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ سرخ لیپ سٹک سے مزین ہونٹوں کی مسکراہٹ اتنی حسین اور دلکش بھی ہو سکتی ہے ۔
یہ بات سچ ہے فطری انداز ہمیشہ پُرکشش ہوتا ہے ۔
“ابھی تو میں مصروف ہوں، مجھے کچھ وقت چاہیے؟”
اریج نے فوراً کسی بھی قسم کی حامی سے اجتناب کیا اور اپنی گھڑی دیکھنے لگی
“جی ضرور لیکن جلد ہی شاید کل تک کا وقت ہے”
گہری نگاہوں سے اریج نے خطاب کو دیکھا پھر خلاء میں گھورتے ہوئے کہا
، “ٹھیک ہے دو بجے کلاس آف ہے تو ڈسکس کر لیتے ہیں ۔ ابھی مجھے اجازت دیں”
اور خطاب اس مسکراہٹ کے سحر میں کھو گیا ۔۔۔ایک بار پھر اور سوچوں میں دور تلک اس کے ساتھ طویل مسافت پر چلتا محسوس کرنے لگا ۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

“چلیں کسی جگہ بیٹھ کر بات کرتے ہیں”
خطاب نے سر ہلا کر تائید کی
” جی کسی پُرسکون جگہ ڈی گراؤنڈ زیادہ مناسب ہے یونیورسٹی کا پرسکون حصہ”
قدم بڑھاتے ہی وہ اپنے سوالات کو ترتیب دینے لگا اور اپنی اندر کی تمام کیفیت سے وہ نکل آیا
“موجودہ سیاسی تبدیلی میں جب تمام پالیسیز جو پرو امریکن ہو، تو کیا یہ ممکن ہے کہ اس حکومت کی تبدیلی کے لئے سازش تیار کی گئی ہے؟ ”
جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply