بہت تکلیف ہوتی ہے
جب تم مجھے غدار کہتے
بہت دیر تلک سوچتا ہوں اور پھر خود سے
ہی سوال کرتا ہوں۔
کہ کیا میں واقعی غدار ہوں؟
جب میں ماضی کو کریدتا ہوں تو
اپنے آپ کو بچپن کی آغوش میں پاتا ہوں
جہاں کرکٹ میچ میں اپنے ملک کی کامیابی کے لیے
اللہ میاں سے کی گئی دعائیں مجھے یاد آتی ہیں
جشن آزادی کی تیاریاں یاد آتی ہیں
جہاں اپنے ننھے مُنے ہاتھوں سے آٹے کی لئی بناکر
رنگ برنگیاں جھنڈیوں سے اپنا گھر سجاتا تھا
کبھی پپا کا ہاتھ تھامے جب کسی سڑک سے گزر ہوتا
اور وہاں پاک فوج کے گزرتے ٹرک دیکھتا
تو خوشی سے ان جوانوں کو ہاتھ لہراتا تھا۔
بہت سوچا بہت کوشش کی کہ
میں اپنے اندر کے غدار کو تلاش کرلوں
مگر مجھے میرے اندر کا غدار نظر نہیں آیا
پھر سوچا کہیں اس جالب، برنا، اور معراج کو
اپنا روحانی استاد ماننا تو غداری نہیں؟
یا آزادی اظہارِ رائے یا شہری آزادی
کی جستجو رکھنا تو میرا جرم نہیں؟
پھر میرے اندر سے ایک آواز آئی
جب ترقی پسند خیالات اور شخصی آزادی کی لڑائی لڑنے والے میرے روحانی اساتذہ جالب، برنا، معراج کو شخصی آزادی کی جنگ لڑنے
کی پاداش میں غداری کی اسناد سے نوازا گیا
تو پھر میں ان کو بطور سبجیکٹ پڑھنے والا
ان کو استاد ماننے والا اس غداری کی اسناد سے
کیسے محروم رہ سکتا ہوں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں