پونم پریت/قسط نمبر 3۔۔نعیم اشرف

ملک الطاف حسین میرا انٹرمیڈیٹ کے وقت کا دوست تھا۔انگریزی ادب میں ڈاکٹریٹ کرنے کے بعد یونیورسٹی آف سرگودھا میں  انگریزی کا پروفیسر تھا۔ ہم لوگ دس سال بعد ملے تھے۔ دیر تک باتیں ہوتی رہیں۔ میں کہیں نصف رات کے بعدجو سویا تو اگلے دن دیر تک سوتا رہا۔

اگلے روز ملک کے گھر میں دو پہر کے کھانے اور چائے پینے کے بعد جب ہم لاہور کے لئے روانہ ہوئے تو سہ پہر کا وقت ہوگا۔میں نے دوبارہ ایم 2 موٹر وے سے جانے کی بجائے شیخوپورہ اور شاہدرہ سے لاہور جانے کا فیصلہ کیا۔ ملک الطاف حسین نے میری جیپ میں آئس باکس دیکھ کر اس میں مری کی کلاسک بیئر کے چھ عدد کین بھی رکھوا دئیے۔ اس دن پونم نے سفید اوپن شرٹ جینزکی پینٹ پہن رکھی تھی۔جس میں وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔ایک کالے شیشوں والے چشمے نے اس دلکش ناک کے آغاز پر بیٹھ اپنے عدسوں کی مدد سے پونم کی مست آ نکھوں سے نکلتی شراب کو باہر آنے سے روک رکھا تھا اور چشمے کے نازک باہوں نے اُس کی گھنی زُلفوں میں کانوں کے پیچھے تک جا کر دونوں اطراف سے اپنی گرفت مضبوط کر رکھی تھی۔ وہ ایک پُر اعتماد شخصیت کی حامل لگ رہی تھی۔ میں نے بے ساختہ بول دیا: ”آج تو بجلیاں گر رہی ہیں“ وہ ذرا بھی لجائی یا شرمائی نہیں بلکہ مجھے آنکھ مار کر بولی:

”شکریہ۔ مگر بجلیاں صاف آسمان سے نہیں گرتیں۔“

میں  نے فوری جواب دیا: تُمھاری زُلفوں سے گھٹا چھائی ہے وہ کوئی  بھی چمتکار  کر سکتی ہیں ۔وہ ہنس دی اور ہنستے ہنستے بولی: اگر کوئی معجزہ ہوا تو ہم دونوں بہت محظوظ ہونگے۔ ویسے تُم عشقیہ ڈائیلاگ بند کرو اور دھیان سےگاڑی چلاؤ مجھے دیکھنے کے لئے ابھی دو دن پڑے ہیں۔“

جب وہ گاڑی میں بیٹھی تو ماحول کُول واٹر کی خوشبو سے مہک اُٹھا۔ پونم کی کتھا اب ایک نازک موڑ پر پہنچ چکی تھی۔ ۔ ۔
ایک سال بعد میں اور یاسر شادی کے بندھن میں بندھ گئے ۔ پندرہ دن کے ہنی مون کے لئے جزیرہ بالی (انڈونیشیا) کا انتخاب ہوا۔ قدرتی حسن سے مالا مال بالی کا جزیرہ دنیا کی خوبصورت ترین جگہوں میں سے ایک ہے۔ ہم دونوں نے وہ پندرہ دن ایک دوسرے میں جذب ہو کر اور قدرتی نظاروں سے محظوظ ہوتے ہوئے گزارے۔ واپس آکر اسلام آباد میں ایک سال یاد گار عرصہ تھا۔ یاسر محمود ایک عزت و توقیر اور سب سے بڑھ کر ایک محبت کرنے والا شوہر ثابت ہوا۔۔

جب ہم خانقاہ ڈوگراں پہنچے تو پونم نے ٹھنڈا مانگا۔ اورمری بروری کی ٹھنڈی ٹھارآبِ جو کے دو گھونٹ لے کر وہ دوبارہ گویا ہوئی
”ایک سال بعد وزارتِ خارجہ کی طرف سے یاسر محمود کی تعیناتی برطانیہ ہو گئی۔ یاسر نے ایک ماہ بعد برطانیہ روانہ ہونا تھا۔ اگرچہ میری سفری دستاویزات تیار کر لی گئیں تھیں، مگر میں اس وقت ایم فِل کے فائنل سمسٹر اور تھیسز چھوڑ کر نہیں جا  سکتی تھی۔ لہـــذا میرا برطانیہ جانا چار ماہ بعد طے پایا۔ ۔
مگر زندگی خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ اتنی بے وفا کیوں ہے؟
اس میں کچھ بھی دائمی نہیں۔
محبت بھی نہیں۔۔

پونم نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر چوما اور رونے لگ گئی ۔ ۔ ۔میں خاموش بیٹھا یہ اندازہ لگاتا رہا کہ زندگی نے پونم کے ساتھ کیا کھیل کھیلا ہوگا۔ میں نے پونم کو کُھل کر رونے دیا ۔ ۔

کچھ دیر روتے رہنے کے بعد وہ خاموش ہو گئی۔ میں نے ٹشو پیپر کا ایک پرت اس کو دیا۔ چند منٹ بعد وہ آنسو پُونچھ کر ہلکا پھلکا  محسوس کر رہی تھی۔ اب کی  بارمجھ سے مانگنے کی بجائے پونم نے میری سیٹ کی پشت پر پڑے آئس باکس کے اندر سے ٹھنڈے کا ایک اورکین نکالا اور ڈبے کو ہاتھ میں لے کر اس کی ٹھنڈک محسوس کرتے ہوئے بولی کیا تم کو کرونا وائرس والی وباء یاد ہے؟“

پونم نے ایسے پوچھا جیسے وہ کوئی معمولی وباء ہو۔ میں نے وباء کی آمد اور مضمرات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا: ”جو عفریت دنیا میں عذاب بن کر نازل ہوئی تھی، جب تک دوا تیار ہوتی دو سال کے اندر اندر کروڑوں زندگیاں نگل گئی تھی؟“اس آفت کو کیسے بھلایا جا سکتا ہے؟“۔”مگر نقصان کے ساتھ ساتھ کرونا کی وباء انسانوں کو زندگی کرنے کے کچھ آداب بھی سکھا گئی۔ وہ انسانوں کو اپنی دھرتی ماں سے اچھا سلوک کرنا سکھا گئی۔ انسان کو سادہ اور ضروریات پر مبنی زندگی گزارنے کا سلیقہ آگیا ہے۔ ماحولیاتی آلودگی آدھی رہ گئی۔ زمین کے وہ قدرتی وسائل جو بے دریغ استعمال ہو رہے تھے، کسی حد تک محفوظ ہو گئے ہیں۔ دنیا کا نظام آن لائن ہو گیا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں کارپوریٹ سیکٹر کی بڑی بڑی مالز ختم ہو جائیں گی کیونکہ کنزیومر گڈز، ’سورس‘ یعنی (فیکٹری) سے چل کر کنزیومر تک پہنچ جائیں گی۔“ میں نے کرونا پر لیکچر دینے کی کوشش کی۔

پونم غمزدہ لہجے میں بولی: یاسر محمود خوش و خرم مانچسٹر پہنچ گیا۔جنوری سے مارچ تک کا عرصہ فون پر باتیں کرتے، ہنستے کھیلتے اور دن گنتے گزر گیا تھا۔اپریل کے مہینے میں میر ے فائنل امتحانات ہوگئے اور تھیسز بھی مکمل ہوگیا۔ جوں ہی میں نے لندن روانہ ہونے کی تیاری مکمل کی، یاسر محمود کو کرونا وائرس نے آلیا۔ مجھے اچھی طرح سے یاد ہے۔ جب فون پر بات کرتے کرتے اس نے لگا تار اتنی شدت سے کھانسی کی تھی کہ بات کرنا دشوار ہو رہا تھا۔میرے کریدنے پر یاسر نے بتایا کہ اس کو تین دن سے بخار بھی ہے۔ سونگھنے کی حس ختم اور کھانے پینے کا ذائقہ بھی نہیں رہا۔ یہ میری اور یاسر کی آخری گفتگو تھی۔

ہم موٹروے پر شیخوپورہ پہنچے تو پونم نے کسی ریسٹ ایریا میں رُک کر ہوا خوری کرنے کی خواہش کی۔ ہم گاڑی پارک کر کے تھوڑی دیر ٹہلتے رہے۔ پونم نے اگلے روز لاہور سے کچھ شاپنگ کرنی تھی اور اس سے اگلے روز اعلی الصبح برطانیہ کے لئے پرواز بھرنی تھی۔ اس لئے پونم کی خواہش پر ہم نے اگلی دو راتیں لاہور میں ہی گزارنی تھیں۔ اس کے کہنے پر میں نے ملک الطاف حسین کے توسط سے لاہور میں جی ۔ او۔ آر میں دو کمروں والا گیسٹ روم دو دن کے لئے بُک کروا دیاتھا۔ سہ پہر ڈھل رہی تھی جب ہم نے سفر دوبارہ شروع کیا۔پونم اب کافی سنبھل چُکی تھی۔ وہ ایک دفعہ پھر سے اپنی داستان سنانے لگی

جس دن تُم مجھے ملے اس دن یاسر محمود کو جدا ہوئے ایک سال ہوچکا تھا۔ یاسر کی وفات کے فوراً بعد سنبل حیات کے کہنے پر ہم دونوں اپنے اپنے دفتر وں سے ایک ایک ماہ کی رُخصت لے کر پہلے میرے گاؤں اور پھر کراچی اور حیدرآباد چلے گئے۔ بڑی ماں، انکل طارق رِند اور سعدیہ طارق نے کافی حد تک میرا غم بٹا دیا۔ مگر حیدرآباد میں ماہ رُخ کی قبر پر جا کر بابا مجھے بہت یاد آئے۔ بعض اوقات دل کھول کر رونا بھی بہت سکون دیتا ہے۔اُس دِن میں زندگی میں تیسری دفعہ دِل کھول کر روئی تھی۔۔۔

پھر تُم مجھے مِلے،تم نے میری غمگین ومُردہ زندگی میں ایک نئی رُوح  پھُونک دی۔ مجھے لگا کہ دوستی دنیا کا سب سے پر خلوص، عظیم اور معتبر رشتہ ہے۔ اس سے بڑا رشتہ اس دنیا میں کوئی نہیں ۔ ۔ ۔ یہ رشتہ محبت ، رومانس اور شادی سے بھی بڑھ کر ہے۔ ۔

زندگی پھر رواں دواں تھی کہ ایک دن اچانک عقیل احمد نے فیس بُک پر دوستی کی استدعا بھیج دی۔ جوں ہی میں فرینڈ ریکوئسٹ قبول کی عقیل احمد کی پرو فائل سامنے تھی۔ وہ اُسی طرح تر و تازہ اور ہشاش بشاش نظر آیا۔ میں بہت حیران ہوئی کہ جوں ہی عقیل کی آواز میرے کانوں میں پڑی، میری پہلی محبت تن کر میرے سامنے کھڑی ہوگئی۔ اس جذبے نے میرے اندر سے اس کی بےوفائی کا غم اور یاسر محمود کی ناگہانی موت کی یاسیت کُچھ دیر کے لئے پسِ پُشت ڈال دی۔ عقیل احمد نے بتایا کہ اس کی ایک پانچ سالہ بیٹی ہے جس کی ماں اسکی پیدائش کے دوران پیچیدگی پیدا ہونے سے فوت ہو گئی تھی۔ میں اور عقیل احمد مسلسل ایک ہفتہ باتیں کرتے رہے مگر باتیں تھیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتی تھیں۔ بالآخر عقیل احمد نے درخواست کی کہ اس کو زندگی بھر کی ساتھی اور اسکی بیٹی کو ایک ماں کی ضرورت ہے۔ ۔ میں ایک اور معرکہ محبت سر کرنے کی متحمل نہیں ہو پا رہی تھی، مگر پہلی محبت کی پکار کو رد کرنے کا حوصلہ بھی نہ تھا۔ اور حامی بھرنے کے لئے اپنے آپ کو تیار نہیں کر پا رہی تھی۔طرح طرح کے خدشات نے مجھے گھیر لیا ۔ ۔ ۔ جس انسان نے اپنی ماں کی خواہش پر میرے علاوہ کسی سے شادی کر لی ، وہ بیٹی کے مجھے قبول نہ کرنے کی صورت میں میرےساتھ کیا سلوک کرے گا؟ مگر میرا دِل کوئی بات سننے کو تیار نہیں تھا۔ آخر میری عقل ہار گئی اور دل جیت گیا۔ میں عقیل احمد کی بات مان کر برطانیہ جا رہی ہوں۔

جب ہم شاہدرہ موڑ پر پہنچے تو شام ڈھلنے میں ابھی کچھ دیر تھی۔ ۔ ۔ پونم کے مشورے پر دریائے راوی کا پُل عبور کر کے میں نے گاڑی دائیں ہاتھ کشتی اڈے کے نزدیک کھڑی کر دی اور ہم دونوں ڈوبتے سورج کا نظارہ کرنے لگے۔ پونم بولی ”پتہ نہیں کیوں مجھے ڈُوبتا سُورج بہت اچھا لگتا ہے۔ اس منظر میں، اس دُنیا، اس زندگی اور اس کی موجودات کی ناکاملیت اور فنائیت کا پیغام ہوتا ہے۔
مگر اندھیری رات کے بعد ایک روشن دِن اور شام کی اُداسی کے بعد صبحِ اُمید کا پیغام بھی تو ہوتا ہے۔“ میں نے پونم کو اداسی کی کیفیت سے نکالنے کے لئے کہا۔ ”اگر کل وقت ملا تو مجھے کل شام کو  دوبارہ یہاں لانا۔ ہم مقبرہ جہانگیر اور نور جہاں کے دالانوں میں ڈوبتے سُورج کا منظر ا کٹھے دیکھیں گے۔ ۔ ۔ کل پاکستان میں تمہارے ساتھ میری آخری شام ہوگی ۔“ یہ کہتے ہوئے وہ پھر اُداس ہونے لگی تھی۔ ہم نے دو دو کین آب جو لی اور اس دوران غم غلط کرنے کے لئے ایک دوسرے کو اپنے پسندیدہ اشعار سناتے رہے۔

جب ہم مینارِ پاکستان پہنچے تو دونوں ہی بھُوک سے نڈھال ہو چکے تھے۔ ۔ ۔ شاہی قلعے کی بغل میں نئی نئی بنی فوڈسٹریٹ روشنوں میں نہائی ہوئی بہت بھلی معلوم ہوئی۔ جب ہم روشن گیٹ سے اندر داخل ہوئے تو ایسا محسوس ہوا جیسے کسی جدید سے گاؤں میں آگئے ہوں۔ وہاں کی رونق دیدنی تھی اور آہستہ آہستہ اس میں اضافہ ہو رہا تھا۔ میں نے دال مکھنی اور پونم نے بون لیس ہانڈی آرڈر کی۔ تازہ نان اور پودینے کی چٹنی نے کھانے کا مزہ دوبالا کر دیا۔ہم نے کوئٹہ کا قہوہ پیتے ہوئے بانسری کی چند راجھستانی دُھنیں سنیں اور وہاں سے چلنے کی تیاری کرنے لگے۔ فوڈ سٹریٹ سے نکلتے ہوئے پونم نے ایک کونے سے پان لیا اور مجھے براستہ بھاٹی گیٹ مال روڈ پر جانے کی ہدایت کی۔

جی او آر میں ڈبل بیڈ روم اور درمیان میں لاؤ نج پر مشتمل ایک آراستہ و کشادہ گیسٹ روم ہمارا منتظر تھا۔ وہاں  پہنچتے ہی ہم نے جلدی سے اپنا اپنا شب بسری کا ضروری سامان اَن پیک کیا۔ پونم، باتوں کا ایک اور سیشن تھوڑا فریش اپ ہونے کے بعد چائے پر لگانا چاہتی تھی۔ جب وہ اپنے بیڈ روم میں تازہ دم ہونے گئی تو میں بھی کھانے کے بعد کی غنودگی دور کرنے اور تھوڑا سا سستانے کے لئے اپنے بستر پر لیٹ گیا۔ شاید دو تین گھنٹے گزرے ہونگے کہ اچانک میری آنکھ کھل گئی۔ میں نے محسوس کیا کہ میرے جوتے اترے ہوئے ہیں، روشنی مدھم ہے ، میرے اوپر کمبل دے دیا گیا ہے اور بیڈ سائڈ ٹیبل پر گلاس میں پانی بھی پڑا ہے۔ ۔ ۔ یہ کام پونم کے علاوہ کون کر سکتا تھا؟

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply