اداکار عورتیں/صائمہ ملک

وہ سمیعہ سے پوچھ رہی تھی ،”تم نے شادی کیوں نہ کر لی ۔ مجھے تکلیف ہو رہی ہے یوں تمہیں تنہا دیکھ کر۔ “یہ سن کر جواب میں سمیعہ نے طنز میں بجھا ہوا قہقہہ لگایا۔” سلمیٰ جس عمر میں بیوہ ہوئی تھی اس عمر میں ارینج میرج نہیں ہوتی۔ ڈھونڈنا پڑتا ہے دلہا ۔ کہیں سے دھوکہ کھانا پڑتا ہے اور کہیں دھوکہ دینا پڑتا ہے مہرووفا کا “۔ سلمیٰ بولی ،”تمہارے بچے اور بھائی بہن اور رشتہ دار وغیرہ تو چاہتے تھے کہ تم بیاہ کر لو۔ “سمیعہ نے خود کا مذاق اڑاتے ہوئے جواب دیا ،”ہاں میری جیسی الہڑ نوجوان اور کنواری دوشیزہ کے لئے رشتوں کی لائین لگی ہوئی تھی نا۔ ویسے ایک آدمی آیا تھا میری زندگی میں اور شاید بات نکاح تک بھی پہنچ جاتی مگر یارا تیری سہیلی کا یہ پہلا افیئر تھا سو چند ہی دنوں میں سب چوپٹ ہو گیا۔ “”کیسے ؟ کیوں؟ سلمیٰ کا تجسس بڑھ رہا تھا مگر سمیعہ شاید کہیں اس وقت برسوں پہلے لگی ایک کچہری میں کھو چکی تھی ۔ وہ دھیرے سے گویا ہوئی،”اس دن میری بہنیں اور امی میرے گھر آئے ہوئے تھے کہ موبائل کی گھنٹی نے چیخ کر سب کو اپنی طرف متوجہ کر لیا ۔ سکرین پر میسم کا نام جگمگا رہا تھا۔ اور میرا پاگل پن دیکھو کہ چڑھی چوبارے عشق دے، میں نے میسم کے آگے ڈارلنگ بھی لکھا ہوا تھا۔ ناچار بتانا پڑا کہ میں اس کو پسند کرتی ہوں اور چار چھ مرتبہ ملاقات بھی ہوئی ہے ۔ بس یہ کہنا تھا میری تو شامت ہی آگئی۔ اس پر مجھ پہ  دباؤ شروع ہو گیا کہ اسے کہو کہ ہم سے آ کے  بات کرے ورنہ یہ ملنا ملانا چھوڑ دو۔ اگر وہ  مخلص  ہے تو رشتہ مانگے ۔ یا اللہ ابھی تو وہ مرحلہ آیا ہی نہیں تھا، سلمیٰ میں اسے کیسے کہتی گھر والوں سے رشتہ مانگنے کا۔ کتنا عجیب سا تھا یہ جملہ کہ اسے کہو ہم سے رشتہ مانگے ۔ جیسے میں کوئی سولہ سالہ کنواری کلی تھی ۔دو چار دن میں ہی بس میرے کردار پر اپنے بیگانے سب ہی باتیں بنانے لگے۔کئی نیک بیبیوں کی مجھے مثالیں دی گئیں ۔ ان نیک بیبیوں کا سب کچا چٹھا کیاجانتی نہ تھی میں۔

“سلمیٰ کی آواز نے سمیعہ کو جھنجھوڑا۔ “بولی کیوں نہیں کچھ ۔””کچھ نہیں تھا اس بکواس کے جواب میں کہنے کو  ۔ کہنا تو چاہتی تھی کہ ساری چھپی رستم ہیں ۔ منافق کہیں کی۔ کیا بتاتی کہ جس کا میاں ملک سے باہر دوسری شادی کر کے بیٹھا ہے وہ کیسے من کو بہلاتی ہے کمینی۔ ہر کسی کو بھیا کے رشتے میں پرو کر بے تکلفی سے بات چیت کرنا ،ہنسی مذاق کرنا ،حال دل کہنا،ناز اٹھوانا اور اس سے نت نئی فرمائشیں کرنا یا وہ کوئی چیز لا کر دے تو بغیر چوں چرا کے لے لینا۔ جیسے وہی اس کا شوہر ہو۔ اس طرح کی عورت پر کیا حکم صادر ہوگا؟اور وہ جس کو بیوہ ہوئے پانچ سال ہوئے تھے کیا اس نیک پروین کا حال سناتی کہ کیسے وڈیو کال پہ  رومینس کرتی ہے کھلم کھلا میرے سامنے ۔ توبہ توبہ میرے گھر بیٹا چھوڑ کے جاتا ہے اور وہ بی بی ایک مرد کے ساتھ لانگ ڈرائیو پر  نکل جاتی ہے اور واپسی پر اپنے بوسوں کے تبادلے کا واہیات حال سناتی ہے۔ اور جس نے دوسری شادی کی تھی ، ارینج میرج وہ اس کا پرانا عاشق تھا جسے ایک زمانے  میں اس نے دھتکار دیا تھا کہ کالے ہو، آج بھی نوجوان پپو چھوکروں پر جان دیتی ہے ۔ مفت میں نہیں بلکہ قیمتی تحفے لے کر ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

“سلمیٰ نے شاکی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا ،” اور تم زمانے سے ڈر گئیں ۔” سمیعہ کے چہرے پر بدمزگی پھیل گئی ۔ سلمیٰ کی جانب دیکھ کر بولی،” یہ آسکر ایوارڈ کی اصل مستحق اداکار عورتیں ہی عورتوں کی سب سے بڑی دشمن ہیں ۔ سچ کو اپنے اندر چھپا کر پارسائی کا ڈھونگ کرتی ہیں ۔ یوں عورت کی فطری ضرورت کا دم دنیا والوں کے سامنے گھونٹ دیتی ہیں ۔ ایسی دو رخی عورتوں کی بے شمار کہانیاں ارد گرد بکھری پڑی ہیں ۔” سلمیٰ بولی،”تو کیا تم یونہی گھٹ کھٹ کر جیتی رہی ہو؟ “ سمیعہ کمینی سی مسکراہٹ کے ساتھ بولی،”تمہاری سہیلی کسی سے بھلا کم ہے ؟ ڈری ، گھٹی یا سہمی نہیں بس سیکھ گئی کہ اس دنیا میں رہنا ہے تو کھیل کھیلنا کیسے ہے۔” بہت دیر سے کسی نور ے دودھ والے کے موبائل پر انگریزی میں میسج پہ میسج آر ہے تھے جو سلمیٰ نے اب نوٹس کیا تھا۔ دونوں ادھیڑ عمر سہیلیوں کی ہنسی رک نہیں رہی تھی ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply