اقبال (رح) مجھے کیوں پسند ہے؟/ انجینئر امیر سجاد بیگ

مجھ سے اکثر یہ سوال کیا جاتا ہے کہ مجھے اقبال (رح)کیوں اتنا پسند ہے۔ اِس سوال کا جواب صرف ایک جملے میں دینا ممکن نہیں ہے، نہ ہی انصاف کا تقاضا ہے۔ ایک ایسی شخصیت جس کی خوبیوں کا ایک زمانہ معترف ہو، جس کے کلام سے دو صدیاں برابر متاثر ہو رہی ہوں، جس کے کلام، شاعری، خطبات ، خطوط، اور فکر و فن پر سینکڑوں کتابیں لکھی جا چکی ہوں، اور مسلسل لکھی جا رہی ہوں  اور جو نوجوان طلبہء، اساتذہ، دینی علما، سیاسی راہنما، قانون دان، ادیب، شاعر، فلسفی اور حکمرانوں میں یکساں  مقبول ہو، اُ س کے بارے میں چند الفاظ میں کچھ کہنا بے معنی سا لگتا ہے۔
پھر بھی ڈاکٹر، سر، علّامہ، شیخ محمّد اقبال (رح) کی شخصیت ایسی ہمہ گیر ہے کہ دل خود بخود اُن پر لکھنے کو مائل ہو جاتا ہے۔

اقبال (رح) پاک و ہند کے مسلمانوں کا ایسا راہنما ہے جس نے انتہائی مخدوش حالات میں مسلمان مرد و خواتین  کا حوصلہ بلندکیا، انہیں مسلمانوں کا شاندار ماضی یاد دلاتے ہوئے یقین کی دولت سے آشنا کیا۔ مسلمانوں میں خود اعتمادی پیدا کی۔ اپنی خوبصورت شاعری سے، خطبات سے، محفلوں میں گفتگو سے، اور کالجوں اور یونیورسٹی میں اپنے بے شمار لیکچروں سے۔ علامہ اقبال (رح)کی باتوں میں اتنا وزن اور اتنا اثر کیوں ہوا کرتا تھا، تو اس کی چند وجوہات بھی تھیں۔

اقبال  (رح)کی پیدائش اور ابتدائی تربیت ایک پاکیزہ گود کا نتیجہ ہے۔ اقبال  (رح)کے والدین بہت نیک، دیندار اور پرہیزگار تھے۔ اسکول اور کالج کی تعلیم کے دوران اقبال (رح) کو بہت اچھے اُستاد ملے، جنہوں نے اقبال (رح)کو عربی اور فار سی زبان سے روشناس کیا اور اُن میں اعلیٰ شعری اور علمی ذوق پیدا کیا۔ اِن میں شمس العلما  مولوی میر حسن اور پروفیسر آرنالڈ کے نام نمایاں ہیں۔ اقبال (رح) کے والد شیخ نور محمّد (جو خود بھی ایک دین دار صوفی تھے) نے اپنے اِس ہونہار بیٹے کی روحانی تربیت کی۔ اُن کو قرآن کو سمجھ کر پڑھنے کی ترغیب دی۔ حضور ﷺ   سے محبت اور عشق کا درس دیا۔ اِس بنیادی اور ابتدائی تعلیم نے اقبال  (رح) کے عقائد اور ایمان کو پختہ کرنے اور اُن کی کردار سازی میں نمایاں کام کیا۔

اقبال (رح) کا شعری ذوق طالبِ علمی میں پروان چڑھا۔ طبیعت موزوں تھی، لہٰذا اُس زمانے کے حالات و ماحول کے لحاظ سے غزلیات کہیں، اور علاقائی مشاعروں میں اپنا کلام پیش کیا۔ خاصی پذیرائی ہوئی۔ اپنے وقت کے معروف شاعر داغ دہلوی کی قلمی شاگردی میں آئے۔ بہت کم عرصے میں ہی حضرت داغ دہلوی نے لکھ بھیجا  کہ آپ کا کلام پختہ ہے، مزید اصلاح کی ضرورت نہیں ہے۔

تعلیم، تاریخِ اسلام اور فلسفے سے خاص شغف رہا۔ ایم۔اے کرنے کے بعد لاہور میں اوریئنٹل کالج، گورنمنٹ کالج اور اسلامیہ کالج میں استاد کے فرائض انجام دیتے رہے۔ اعلیٰ تعلیم کے لئے انگلستان (برطانیہ) روانہ ہو گئے۔ لندن سے قانون کی اعلیٰ ڈگری ’’بیرسٹر ایٹ لاء‘‘ حاصل کی۔ یورپ قیام کے دوران (1905 تا 1908 ) جرمنی کی یونیورسٹی سے اپنے ایک مقالے
“The Development of Metaphysics in Persia”
’’ایران میں فلسفہءِ الہیٰات کا ارتقاء ‘‘ پر ڈاکٹریٹ (پی۔ایچ۔ڈی) حاصل کی۔ جولائی 1908 میں واپس لاہور آگئے اور گورنمنٹ کالج لاہور میں فلسفہ کے پروفیسر ہوئے، اور ساتھ ساتھ بطور وکیل (ایڈووکیٹ) بھی کام کرتے رہے۔ اِس اثناء میں اُن کی شہرت ہندوستان بھر میں پھیل چکی تھی۔ اِن کی خاطر حکومت کی جانب سے ہائی کورٹ کے ججوں کو ہدایت کی گئی تھی کہ اِ ن سے متعلقہ مقدمے پچھلے پہر سنا کریں تاکہ وہ کالج میں اپنے فرائض ادا کر سکیں۔

1911 تک وہ گورنمنٹ کالج کی ملازمت کرتے رہے۔ اِس کے بعد انہوں نے سرکاری نوکری سے استعفیٰ دے دیا۔ آپ کے دیرینہ نوکر، علی بخش کا بیان ہے کہ جس دن وہ استعفیٰ دے کر آئے، میں نے پوچھا : شیخ صاحب آپ نے نوکری کیوں چھوڑ دی؟ ۔۔ تو کہنے لگے ’’ علی بخش، انگریز کی ملازمت میں بڑی مشکلیں ہیں، سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ میرے دل میں کچھ باتیں ہیں جنہیں میں لوگوں تک پہنچانا چاہتا ہوں مگر سرکاری ملازم رہ کر انہیں کھلم کھلّانہیں کہہ سکتا، اب میں بالکل آزاد ہوں، جو چاہوں کروں اور جو چاہوں کہوں۔۔ شاید یہ پھانس جو مدّت سے میرے دل میں کھٹکتی ہے، نکل جائے۔‘‘

چنانچہ، سرکاری ملازمت ترک کرنے کے بعد آپ وکالت (بیرسٹری) کرتے رہے۔ (اِس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ قانون کا کتنا احترام کرتے تھے) ۔ آپ نے اپنے کلام اور شاعری میں کُھل کر اپنا مافی الضمیر بیان کیا۔ مغربی تہذیب و تمدّن اور سیاست کے خلاف کُھل کر لکھا۔ مسلمانوں کو اپنی کھوئی ہوئی عظمت کی بازیابی کے لیے مسلسل اُکسایا اور اُن میں آزادی کا ولولہ پیدا کیا۔ اپنی شاعری میں فلسفہءِ خودی پیش کیا۔

’اسرارِ خودی‘ ، ’پیامِ مشرق‘ اور ’زبورِ عجم‘ جیسی معرکتہ الآراء کتابیں لکھ کر ہندوستان سے باہر، ایران و افغانستان کے لوگوں کو متاثر کیا۔ آپ کی فارسی شاعری کے مغربی زبانوں میں ترجمے ہوئے تو آپ دنیا کے اُفق پر ایک عظیم فلسفی کے طور پر اُبھرے۔

1926 کے بعد، آپ نے باقاعدہ ہندوستان کی عملی سیاست میں حصّہ لیا۔ علامہ  (رح) نے پنجاب کی قانون ساز اسمبلی کے ممبر کی حیثیت سے مسلمانوں اور غریبوں کے لیے بڑا کام کیا، اور کئی اُمور پر قانون سازی کروائی۔

اُردو شاعری میں ، بانگِ درا، بالِ جبریل اور ضربِ کلیم، جیسی کتابیں لکھ کر مسلمانوں میں جوش و جذبہ پیدا کیا۔ یقین اور ایمان کے ساتھ ساتھ عشقِ رسولﷺ   میں گندھے ہوئے تھے۔ اقبال  (رح)کے نزدیک عشقِ رسول ﷺ   سِرِ دین بھی ہے اور وسیلہءِ دنیا بھی۔ اِس کے بغیر انسان نہ دین کا ہے نہ دنیا کا۔ ایسا سچّا، کھرا، با کردار اور مخلص شخص جو قانون دان بھی ہو، شاعر بھی، فلسفی بھی، اُستاد بھی اور سیاسی راہنما بھی، تو ایسے عظیم شخص کو کون پسند نہیں کرے گا۔

اقبال (رح) مجھے اِس لیے پسند ہے کہ وہ بچوں اور نوجوانوں سے پیار کرتا ہے، اُن کے مستقبل کی فکر رکھتا ہے۔ اُن میں ولولہ اور جوش پیدا کرتا ہے۔ وہ اُن کے لیے دُعا کرتا ہے:
؎ جوانوں کو میری آہِ سحر دے
پھر اِن شاہیں بچوں کو بال و پر دے
خدایا، آرزو میری یہی ہے
میرا نورِ بصیرت عام کر دے۔
اور
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے اُس کو اپنی منزل آسمانوں میں۔
…………………
اقبال  (رح) مجھے اِس لئے پسند ہے کہ وہ امید کا شاعر ہے، اور اپنی قوم کو نا اُمید نہیں ہونے دیتا، نہ اُس کا حوصلہ پست ہونے دیتا ہے:-
؎ نہیں ہے نا اُمید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مِٹّی بہت زرخیز ہے ساقی
اور
؎ تو نہ مٹ جائے گا ایران کے مِٹ جانے سے
نشہءِ مئے کو تعلق نہیں پیمانے سے
ہے عیاں یورش تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کوصنم خانے سے۔

؎ نہ ہو نومید، نو میدی زوالِ علم و عرفاں ہے
اُمیدِ مردِ مومن ہے، خُدا کے راز دانوں میں

اقبال  (رح)مجھے اِس لئے پسند ہے کہ وہ مردِ مسلماں کو اللّٰہ کا سچا خلیفہ بننے پر تیار کرتا ہے اور اُس میں یقین پیدا کرنے کی تاکید کرتا ہے، اور کہتا ہے:
؎ خدائے لم یزل کا دستِ قدرت تو زُباں تو ہے
یقین پیدا کر اے غافل کہ مغلوبِ گماں تو ہے۔

اور:
یقیں افراد کا سرمایہءِ تعمیرِ مِلّت ہے
یہی قوت ہے جو صورت گرِ تقدیرِ ملت ہے۔

اور مردِ مسلماں کو کہتے ہیں:
؎ یقینِ محکم، عملِ پیہم، محبت فاتحِ عالم
جہادِ زندگانی میں ہیں یہ ، مَردوں کو شمشیریں۔

اقبال مجھے اِس لئے پسند ہے کہ ،
؎ بے داغ ہے مانندِ سحَر اِس کی جوانی۔

اقبال (رح) مجھے اِس لئے پسند ہے کہ وہ مردِ کردار ہے، بلند نگاہ و دُور بیں اُس کا سخنِ دلنواز ہے اور وہ ایک سچے لیڈر میں ایسے ہی جوہر تلاش کرتا ہے اور کہتا ہے:
؎ نگاہِ بلند، سخن دلنواز، جاں پرسوز
یہی ہے رختِ سفر، میرِ کارواں کے لئے۔

اقبال (رح) مجھے اِس لئے پسند ہے کہ وہ خود دار اور غیرت مند ہے۔ وہ خود کہتا ہے:
؎ غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دَو میں
پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِ دارا۔
…………………

اقبال  (رح)مجھے اِس لیئے پسند ہے کہ وہ مردِ درویش ہے۔ اُس میں بےنیازی کی خُو ہے:
؎ کہاں سے تو نے اے اقبال سیکھی ہے یہ درویشی
کہ چرچا پادشاہوں میں ہے تیری بے نیازی کا۔

اقبال  (رح)مجھے اِس لیے پسند ہے کہ وہ مسلمانوں کو راست بازی اور زندگی کی صحیح ڈگر پر چلتا دیکھنا چاہتا ہے:
؎ بتاؤں تجھ کو مسلماں کی زندگی کیا ہے؟
یہ ہے نہایت اندیشہ و کمالِ جنوں
عناصر اِس کے ہیں روحُ القدس کا ذوقِ جمال
عجم کا حُسنِ طبیعت، عرب کا سوزِ دروں۔
اقبال، اپنے اِردگرد نظر دوڑاتے ہوئے کہتا ہے:-
؎ وہ مردِ مجاہد نظر آتا نہیں مجھ کو
ہو جس کے رگ و پے میں فقط مستیءِ کردار۔

اقبال (رح) مجھے اِس لیے پسند ہے کہ اُس میں سرکشی اور بیباکی بہت ہے:
؎ عطا ہوا خس و خاشاکِ ایشیاء مجھ کو
کہ میرے شعلے میں ہے سرکشی و بے باکی۔
اور
فارغ تو نہ بیٹحے گا محشر میں جنوں میرا
یا اپنا گریباں چاق یا دامنِ جزداں چاق
اور
آئینِ جواں مردی، حق گوئی و بے باکی
اللّٰہ کے شیروں کو آتی نہیں رُوباہی

اقبال (رح)  مجھے اِس لیئے پسند ہے کہ وہ سچا عاشقِ رسول ص ہے :
؎ عشق دمِ جبرئیل رح، عشق دلِ مصطفیٰ ص
عشق خُدا کا رسول، عشق خُدا کا کلام
اور
؎ وہ دانائے سُبل، ختم الرّسل، مولائے کُل، جس نے
غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادیءِ سینا۔
نگاہِ عشق و مستی میں، وہی اوّل، وہی آخر
وہی قرآں، وہی فرقاں، وہی یٰسنؔ، وہی طٰہٰ۔

پھر جذب و شوق میں ڈُوب کر کہتا ہے:
؎لوح بھی تُو، قلم بھی تُو، تیرا وجود الکتاب
گنبدِ آب گینہ رنگ تیرے محیط میں حباب

اقبال  (رح)مجھے اِس لیئے پسند ہے کہ برِّ صغیر میں میر، ذوق اور غالب کے بعد سب سے زیادہ معروف، مشہور، مستند اور بار بار پڑھا جانے والا شاعر ہے۔ وہ اُردو ادب کی تمام اصناف سے بخوبی واقف اور روائت پسند شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ، جدّت پسند اور چونکا دینے والا شاعر ہے۔ اقبال  (رح)کے کلام کو پڑھنے کے بعد آدمی کی کایا پلٹ جاتی ہے۔ زندگی اور طبیعت میں انقلاب برپا ہو جاتا ہے۔
اقبال  (رح)کو پڑھنے والا قاری نارمل نہیں رہتا۔ اُس کے تخیل کی سطح بہت بلند ہو جاتی ہے۔
وہ خود کہتا ہے، کہ:
؎ مجھے رازِ دو عالم، دِل کا آئینہ دکھاتا ہے
وہی کہتا ہوں جو کچھ سامنے آنکھوں کے آتا ہے۔

اور :
؎ حادثہ وہ جو ابھی پردہءِ افلاک میں ہے
عکس اُس کا میرے آئینہءِ ادراک میں ہے۔
پھر کہتا ہے:
؎ کھول کر آنکھیں میرے آئینہءِ ادرا ک میں
آنے والے دَور کی دھندلی سی اِک تصویر دیکھ۔

اقبال (رح) قوم کو اتحاد کی دعوت دیتا ہے، اور ملت کے ساتھ جُڑے رہنے کی تاکید کرتا ہے:
؎ فرد قائم ربطِ ملّت سے، تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں۔

؎ افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملّت کے مقدر کا ستارہ۔

؎ملّت کے ساتھ رابطہءِ استوار رکھ
پیوستہ رہ شجر سے، امید ِ بہار رکھ۔

اقبال (رح) مجھے اِس لیئے پسند ہے کہ وہ ایک سچا اور دردمند شاعر ہے۔ اُردو ادب اور اُردو شاعری کا محسن ہے۔ اُردو شاعری کو نئی لَے، نئے نئے رنگ اور آہنگ سے آشنا کرنے والا ، عظیم سپوت اور مسلم اُمّت کا بطلِ جلیل۔

اقبال (رح) ہم سب کو پسند ہے، کیونکہ:
؎ اقبال کا ترانہ بانگِ درا ہے گویا
ہوتا ہے جادہ پیما، پھر کارواں ہمارا۔

Advertisements
julia rana solicitors

——————————
تعارف:  انجینئر امیر سجاد   ایک ہمہ جہت شخصیت، ادب شناس، دوستوں کے دوست، علامہ اقبال کے شیدائی، اور اُس پر انکی فارسی دانی، اور اِنکا فارسی میں بیان، سننے سے تعلق رکھتا ہے۔ نہائیت نرم دل، نرم لہجے اور بڑے پُر اثر زبان و بیان کے حامل ۔
علامہ اقبال  (رح)پر ان کی ایک تقریر کو تحریر کا جامہ تو انہوں نے بنایا، مگر جب کئی نامی گرامی لوگوں، اور ایک پروفیسر صاحبہ نے اس کی تعریف و توصیف کے (محاورے کے بمطابق) پُل باندھ دیئے تو ہم نے اس کو سوشل میڈیا پر پیش کرنے کی اجازت چاہی، اور سجاد بھائی کی عنائیت ہوئی۔
چنانچہ، جو کچھ اب یہاں اِس مضمون میں ہے، یہ نہائت مختصر، مگر میرے لیئے اُن کی پہلی تحریر ہے، جو اِس احقر کو ٹیکسٹ (الفاظ برائے کمپیوٹر، یا موبائل) پر منتقل کرنے کا موقع ملا۔ سو، جو زبان و بیان ہے وہ سجاد بھائی کا، اور اِس میں جو غلطیاں گرامر اور ٹائپنگ کی، وہ زیادہ تر میری۔
اُمید ہے کہ آئندہ بھی با تحریر، حاضر ہوتے رہیں گے۔
امیر سجاد بیگ، سول ایوی ایشن کے ایک نہائت قابلِ رشک انجینئر ہیں، اور حال ہی میں بطور *پراجیکٹ ڈائریکٹر سیالکوٹ انٹرنیشنل ایئرپورٹ* ریٹائر ہوئے۔ از طرف: رفعت علی خان

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply