طوافِ آرزو۔۔نعیم اشرف

حال ہی میں اُردو ادب کے اُفق پر نمو دار ہونے والے افسانوں کا مجموعہ ”طوافِ آرزُو“ پڑھنے کو ملا۔کتاب کا عنوان اور سرورق دیکھ کر یہ شاعری کی کتاب لگی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ میں مصنف کی شاعری کی کتاب ”امتزاج“ پڑھ کر ان کہ شاعری کا مداح تھا۔ مگر عنوان کے نیچے چھوٹی لکھائی میں کہانیاں اور افسانے لکھا دیکھ کر یقین ہوا کہ یہ نثر کی کتاب تھی۔ میں نے کتاب پڑھنی شروع کی تو اس میں موجود کہانیوں نے مجھے اپنے ساتھ مشغول و مصروف رہنے پرمجبور کر دیا۔ تا وقتیکہ میں نے پوری کتاب ختم نہ کر لی۔

کہانی اور افسانے میں کیا فرق ہے؟ یہ بحث محققین اور ناقدین میں تا حال جاری ہے۔ اکابرینِ اردو ادب کسی حتمی رائے پر متفق نہیں ہوسکے۔ البتہ میری رائے میں ہر فکشن جو قاری کی سوچ پر ایک لطیف دلچسپی سے اثر انداز ہو ا اور اپنے زاویہ ِ نگاہ بدلنے کے صلاحیت رکھتا ہو، خواہ ناول ہو، کہانی یا افسانہ ایک قابلِ قدر فن پارہ ہے۔اس کتاب میں لکھا گیا فکشن بلا شُبہ نہ صرف لائقِ ستائش ہے بلکہ اردو ادب میں ایک گراں قدر اضافہ بھی ہے۔کتاب میں ستائیس افسانے اور دو خاکے شامل ہیں۔ ہر افسانہ تخلیقیت اور اسلوب کے اعتبار منفرد ہے۔ سب کہانیوں کا احاطہ اس مختصر مضمون میں ممکن نہیں ہے۔البتہ چند منتخب افسانوں پر مختصر تبصرہ سپردِ قلم کرتا ہوں:

محبت وہ جذبہ ہے جس کو حسب نسب، مذہب یا رنگ و نسل کی رسوم و قیود کا پابند نہیں کیا جا سکتا۔اور نہ ہی وفا شعاری محض مشرقی عورت پر مو قوف ہے۔ کتاب میں شامل افسانہ ’’ کُتّوں والی میم“ ایک مغربی عورت اور مشرقی مرد کی غیر متزلزل وفا اور بے لوث محبت کی ایک ایسی لازوال داستان ہے۔ جو مصنف کے قلم سے افسانہ بن کر نمو دار ہوئی ہے۔کہانی کا خلاصہ کچھ یوں ہے:
یہ 1943 ء کا زمانہ ہے۔رائل آرٹلری کے کرنل گولڈ ولیم راولپنڈی میں تعینات ہیں۔ چکوال، تلہ گنگ روڈ پر واقع دیہات سے تعلق رکھنے والا، لمبے چوڑے قد کاٹھ، مردانہ وجاہت اور پُر کشش شخصیت کا حامل کیپٹن خان ایک نہایت محنتی، ذہین اور وفادار مقامی آفیسر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کرنل ولیم اس کو پسند کرتے ہیں اور اعتماد کرتے ہوئے اپنی نجی نوعیت کی دعوتوں کا انتظام و انصرام اسی نو جوان آفیسر کو سونپتے رہتے ہیں۔کیمبرج کی گریجوئیٹ ان کی جوں سال خوبرُو بیٹی جولیانا ولیم جو اپنے والدین کے ساتھ راولپنڈی میں مقیم ہے، والد کی یونٹ کے کیپٹن محمد خان کو دِل دے بیٹھتی ہے۔ کیپٹن خان بھی جولیانا ولیم کو پسند تو کرنے لگتا ہے ، مگر جنم جنم کا احساسِ کمتری، شرقی غربی ثقافت کی تفاوت اور اپنی معاشرتی دُشواریوں کے امیق سائے اس کو جولیاناسے شادی کے بندھن میں بندھنے سے روکے رکھتے ہیں۔ جب کرنل ولیم کو کیپٹن خان اور جولیانا کے مابین پروان چڑھتی محبت کی خبر ہوتی ہے تو وہ کوئی بے چینی یا غم و غصہ ظاہر کئے بغیر، تیل اور آگ کو ہمیشہ کے لئے دور کر دینے کا ایک منصوبہ بناتا ہے۔۔۔ کیپٹن خان کا تبادلہ رنگون ہو جاتا ہے جہاں جاپان اور اتحادیوں کی جنگ زوروں پر ہے۔خط و کتابت کا سلسلہ چند ماہ چلنے کے بعد اچانک منقطع ہو جاتا ہے۔بلآخر دوسری جنگِ عظیم بھی اختتام پذیر ہو جاتی ہے اور ہندوستان کی آزادی کے دن قریب آجاتے ہیں۔ مگر کیپٹن خان کا کوئی اتہ پتہ نہیں ملتا۔ ولیم فیملی بھی انگریز سرکار کے ہمراہ اپنا بوریا بستر سمیٹ کر انگلستان چلی جاتی ہے۔ مگر جولیا نا، چند ماہ برطانیہ میں گزارنے کے بعد اکیلی اپنی محبت کے مرقد پر واپس لوٹ آتی ہے۔اقتباس ملاحظہ ہو:

Advertisements
julia rana solicitors london

”وہ اس مٹّی سے جدا نہیں رہ سکتی تھی جس کے ذرّے ذرّے میں اس کے مقدس جذبوں کی خوشبو رچی بسی ہوئی تھی۔ جہاں اس کی روح نے دھڑکنوں کے ساز پر رقص کرنا سیکھا تھا۔ جہاں اس کے پوتر جذبوں کی کیاری میں پیار کی پیلی کونپل کھلی تھی۔ وائے مقدر کہ یہاں پہنچ کر ہر نئے دن کے ساتھ جولی کے لئے چاروں اطراف سے زہر بجھے تیروں کی طرح برستی ہوس زدہ نگاہوں سے خود کو بچانا محال ہوتاگیا۔ وہ بھوکے بھیڑیوں کے غول میں پھنسی ہوئی ایک معصوم بھیڑ کی طرح تھی۔ اسے اپنے پیٹ کے لئے لقمہ بھی چاہئیے تھا اور ہر بھوکے بھیڑئے سے اپنے آپ کو بچانا بھی تھا۔ اور سب سے بڑھ کر آخری سانس تک اپنے خان کی واپسی کا انتظار بھی کرنا تھا۔ ڈھونڈتے ڈھانڈتے ایک روز وہ خان کے گاؤں جا پہنچی۔ مگر گھر والوں کے سرد اور بے مہر روئیے سے مایوس ہو کر واپس لوٹ آئی۔ در در کی ٹھو کریں کھا نے کے لئے، ہوس ناک کتوں کی بھوک کا نشانہ بننے کے لئے اور ناز و نعم میں پلے ہوئے کانچ جیسے نازک بدن کو مانگے کے چھیتھڑوں سے ڈھانپنے کے لئے۔ چار پانچ دہائیوں بعد ایک متجسس شخص جولیا کی غیر موجودگی میں اس کی کُٹیا میں جا کر ایک بوسیدہ ڈائری پڑھ لیتا ہے اور ایک دوست کے ہمراہ پینسٹھ سالہ ریٹائرڈکرنل محمدخان (کیپٹن خان) کا پتہ چلا لیتا ہے۔ کرنل صاحب ان مہر بانوں کے ہمراہ جب جولیا کی کُٹیا پر پہنچتے ہیں تو بہت دیر ہو چُکی ہوتی ہے۔ اس افسانے کی آخری چند سطور بہت دلگیراور اداس کن ہیں:
”پہاڑی کے قریب ٹیکسی سے اُترے تو تو سورج کسی تھکے ہوئے مُسافر کی طرح اُفق کی گود میں سر چھُپانے کے لئے جھکتا چلا جا رہا تھا۔ سات آٹھ منٹ کا پیدل راستہ برسوں کی مسافت لگ رہا تھا۔ لگا تار بھونکتے ہوئے کتُّوں کی آواز قریب آتی جا رہی تھی۔ آج کوئی کُتا اونگھ نہیں رہا تھا۔ اور نہ ہی کوئی حسبِ معمول اٹھکیلیاں کرنے کے موڈ میں دکھائی دیا۔ سب کے سب نہایت مستعدی سے پپھیپھڑوں کی پوری طاقت لگا کر آسمان کی جانب مُنہ کیے مسلسل یوں بھونکے جا رہے تھے جیسے انسانیت سے شکوہ سنج ہوں کہ انسان محبت کرنا ہم سے کیوں نہیں سیکھتا؟آج پُرانی شناسائی کو بھول کر ہم پر یوں جھپٹ رہے تھے جیسے کہنا چاہ رہے ہوں کہ محبت کی اس پاک درگاہ میں داخل ہونے سے پہلے جاؤ اور اپنی ناپاک روحوں کو غُسل دے کر آؤ۔“
”طواف ِ آرزو“ میں موجود افسانے نہایت مہارت اور عرق ریزی سے لکھے گئے ہیں۔دل کو چھو لینے والے متنوع موضوعات اپنے اندرسمائی دلچسپی بر قرار رکھتے ہوئے ایک لحظہ بھی پڑھنے والے کو یکسانیت کا شکار نہیں ہونے دیتے۔کہانیوں کے اندر تصویر کشی، بنت اور طرزِ بیان نہایت خوب صورت ہے۔ مثال کے طور پر پہلا افسانہ : ”بتیس نفی بارہ ضرب بارہ“ میں جنسی تعلیم کی عدم فراہمی اور توہمّات کے عذاب میں گرفتارہماری کثیر دیہاتی آبادی کو کس کس عذاب کا سامنا ہر وقت رہتا ہے، افسانہ نگار نے اس کیفیت کو ڈرامائی انداز مگر لازمی ایمأیت، ادبی خوبصورتی اور دھیمے طنز و مزاح کی پُر کیف فضا میں تخلیق کیا ہے۔ پہلے افسانے کا ایک مختصر سا اقتباس ملاحظہ ہو:
””تو، تُو کیا سمجھتی ہے کہ میں جھوٹ بول رہی ہوں؟“ اُس نے دائیں ہاتھ سے نجّو کا جھکا چہرہ اُوپر کرتے ہوئے سیدھا اُس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا :” دیکھ نّجو! اللہ کی قسم میں بالکل مذاق نہیں کر رہی۔ وہ جو بڑی ڈاکٹر صاحبہ ہر سوموار اور جمعرات کو شہر سے آتی ہیں نا، ا نھوں نے ایک بار لیکچر میں بتایا تھا کہ ہر بالغ لڑکی مہینے میں ایک بار انڈہ دیتی ہے۔“نجو اچھنبے اور اعتبار و بے یقینی کی حالت میں ٹُکر ٹُکر اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے کسی انجانی سوچ میں کھو چُکی تھی۔ اس انکشاف کے بعد نجّو کے ذہن میں سُلگنے والی ننھی سی چنگاری اُس وقت جوالا مکھی میں بدل گئی جب آسیہ نے اُس کے لرزتے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے اپنے تئیں مذاق کے طور پر یہ کہا کہ آؤ نجّو ! گنتے ہیں تُم اب تک کتنے انڈے دے چُکی ہو۔کلُیہ بہت آسان سا ہے۔اپنی زندگی کے پہلے بارہ سال نکال کر باقی سالوں کو بارہ سے ضرب دینے سے پتہ چل جائیگا کہ اب تک تُم نے کتنے انڈے دیئے ہیں۔ مثلاً بتیس نفی بارہ ضرب بارہ۔اب بتا کتنے ہوئے؟“ گُم سُم اور حواس باختہ بیٹھی نجوّ تو جیسے کسی اور ہی دُنیا میں پہنچی ہوئی تھی۔ تو میری للّو ! اسی لئے میں کہتی ہوں کہ اب مزید انڈے ضائع مت کراور کوئی اچھا سا مُرغا ڈھونڈ لے۔ یہ خیال کرنا کہ کہیں فارمی نہ ہو۔ کہیں سے اصیل کُکڑ ہاتھ آجائیں تو ایک میرے لئے بھی دیکھ لینا۔“ اس واقعے کے بعد ہر آنے والے نئے دِن کے ساتھ سراسیمگی اور شوریدگی بڑھتے بڑھتے دیوانگی کی شکل اختیار کرنے لگی۔ آسیہ نے نا دانستگی میں ہر عورت کی طرح اس کے لا شعور میں بھی چھُپی ماں بننے کی فطری خواہش کو بُری طرح جھنجوڑ کر بلکہ برہنہ کر کے اس کے سامنے لا کھڑا کیا تھا۔ بے چاری نجو کی عمر بھر کی صبر و رضا، خدا کی منشا اور ہمت و برداشت کے غُبارے سے یک لخت ساری ہوا نکال کر رکھ دی تھی۔ وہ گھنٹوں اور پہروں دُنیا و ما فیہا سے بے خبر تنہا کسی گوشے میں بیٹھی انگلیوں پر بتیس منفی بارہ ضرب بارہ کا حساب کرنے میں لگی رہتی۔““
اپنے افسانوں میں مصنف ہلکے پھُلکے انداز میں بہت گہری اور فکر انگیز بات بھی کر جاتا ہے۔ اسی افسانے کی چنداور سطور ملاحظہ ہوں:
”ماسٹر چراغ دین، چہرے مہرے سے مولانا حسرت موہانی کا دوسرا روپ لگتا تھا۔ وہی گول شیشوں والی عینک، سر پر تُرکی ٹوپی، مُٹھی بھر چھدری داڑھی، جو شاید مولانا جیسی گھنی نہ تھی۔ہر وقت تہمند اور سفید کُرتے میں ملبوس، حلال کھانے کا قائل، صوم و صلوٰۃ کا پابند اور اعلیٰ اخلاقی قدروں کا پاسدار۔اگر کوئی بُرائی تھی تو صرف یہ کہ حقہ نوشی اس کی کمزوری تھی۔آزادی کے وقت پانی پت کے علاقے سے اس کا سارا خاندان نہ صرف صحیح سلامت بلکہ ہندو بلوائیوں کو ڈنکے کی چوٹ پر للکارتاہوا بمعہ مال و اسباب پاکستان پہنچا تھا۔ منزلِ مقصود پر پہنچ کر سمندری کے علاقے میں کچھ زرعی رقبہ الاٹ ہوا۔ اور یوں یہ خاندان وہیں آباد ہو گیا۔ماسٹر صاحب ایف اے کرنے کے بعد ایک پرائمری سکول میں بطورِ اُستاد بھرتی ہو گئے۔ علم کی دولت بانٹتے بانٹتے وہ خود مفلسی کی دلدل میں دھنستے چلے گئے۔ حُسنِ ظن کی بدولت روپے پیسے سے تو محروم رہے۔مگر حُسنِ اخلاق کے بدلے نیک نامی خوب کمائی۔دُنیا والوں کا دستور ہے کہ وہ ماسٹر چراغ دینوں کو نیک نامی اور عزت تو بہت دیتے ہیں لیکن ان کی مفلسی اور بھرم کے جنازے کو کندھا کبھی نہیں دیتے۔ ایسے نیک لوگ خوش بخت ہوں تو اخلاقیات کی تسبیح پھیرتے پھیرتے قیدِ زندگانی سے با عزت بری ہو جاتے ہیں۔ بد قسمتی سے اگر اخلاقیات کی یہی تسبیح ٹوٹ جائے تو ان کی عزت کے دانے یوں بکھرتے ہیں کہ سو کہکشائیں بھی زمین پر اتر آئیں مگر ٹوٹی تسبیح کا ایک دانہ بھی نہ مل پائے۔“
ارشد مرشد زبان و بیان پر مکمل عبور رکھنے کے ساتھ ساتھ منظر نگاری کی مدد سے قاری کو اپنے ساتھ اس لیبر روم میں لے جاتا ہے جہاں اس کی کہانی جنم لیتی ہے۔ذخیرہ الفاظ کی فروانی کے باوجود کہیں بے جا لفاظی کا گمان نہیں ہوتا۔
”آتما ہتیا“ ایک اور منفرد افسانہ ہے۔ یہ کہانی ایک ایسی ہندو پریوار کے گرد گھوُمتی ہے، جو ایک بار پاکستان آ کر اپنے پُرکھوں کی سرزمین، اپنی آبائی بستی اور اپنی جنم بھومی کو دیکھنا اور محسوس کرنا چاہتا ہے۔۔جہلم سے تعلق رکھنے والا کیپٹن طاہراپنے ایک ہم پیشہ دوست کی طرف سے دی گئی ذمہ داری کو مذہب اور معاشرتی رسوم و قیود کو بالائے طاق رکھ کر، اپنے پیشے سے مخلص رہتے ہوئے محض انسانی جذبے کے تحت پوری کر تا ہے۔ دلی میں رہائش پذیر سہنا خاندان سے قلمی رابطہ ا س کا ایک ہم پیشہ دوست کرواتا ہے جو حال ہی میں ہندوستان سے سارک کھیلوں میں شمولیت کے بعد لوٹا ہے۔وہ یہ کام کیپٹن طاہر کو اس لئے دیتا ہے کیونکہ اس کا تعلق جہلم شہر سے ہے جو اس خاندان کی جنم بھومی ہے۔ سرکاری اجازت نامے کے حصول میں درپیش پیشہ ورارانہ مشکلات کے با وجود کیپٹن طاہر سہنا خاندان کی پاکستان آمد کے بعد نہ صرف جہلم بلکہ اسلام آباد اور لاہور کی سیر کا بندو بست بھی کرتا ہے۔ ہندوستانی پریوار میں سٹھسٹھ سالہ کلدیپ سہنا، ساٹھ سالہ سرسوتی دیوی اور ان کی بائیس تئیس سالہ نوجوان خوبرو بیٹی شیتل سہنا شامل ہیں۔ دیرینہ خط و کتابت سے لے کر بالمشافہ ملنے تک طاہر اور شیتل میں اچھی خاصی سمجھ کاری ہو جاتی ہے۔ جو ملاقات پر دوستی اور کسی حد تک پسندیدگی میں تبدیل بھی ہو تی ہے۔ مگر کیپٹن طاہر بات کو آگے نہیں بڑھانا چاہتا۔وہ ہمیشہ مہمان نوازی کے آداب، مشرقی روایات اور پیشہ وارنہ وقار کومد نظر ر کھتا ہے۔ سہنا خاندان اپنے پُرکھوں کی یادیں اور میزبانوں کی بے پناہ محبت کو اپنے دامن میں سمیٹ کر ہندوستان لوٹ جاتا ہے افسانے کی چند آخری جُملے ہمارے اپنے اردگرد کا ماحول کو صاف رکھنے کے حوالے سے ہماری مجرمانہ کوتاہی پر دلیل ہیں:
”دیوی جی کو لے کر جب وہ واپس دریا کنارے پہنچے توسہنا جی اپنی پراتھنا پوری کر چُکنے کے بعدپیتل کی ایک گڑوی ہاتھ میں تھامے گہری سوچ میں گُم سُم کھڑے تھے۔طاہر کے پوچھنے پر انہوں نے بتایاکہ شیتل کے دادا کی وصیت تھی کہ اُن کی چتا کی راکھ کو جہلم کے پانی میں بہایا جائے۔ لیکن دریا کے کناروں سے لپٹی غلاظت اور گندگی کے ڈھیر دیکھ کر اُن کا من نہیں چاہ رہا کہ باپ کے مُقدس پھول اس دریا کے حوالے کریں۔سرد آہ بھر کر خود کلامی کے انداز میں بڑبڑاتے ہوئے بولے: ”سوچ رہا تھا کہ حساب کے دن اگر باپ نے پوچھا تو کہہ دونگاکہ پتا جی میں آپ کی وصیت پوری کرنے گیا تھا لیکن وہاں کوئی دریا نہیں تھا۔ شاید اس نے آتما ہتیا کر لی تھی۔“
ہم جیسے پس ماندہ مشرقی معاشرے ابھی تک قدیم روایات اورفرسودہ رسم و رواج سے آزاد نہیں ہوسکے۔ اس ثقافتی غلامی کی وجہ جغرافیائی، تاریخی اور ثقافتی وجوہات بھی ہیں اور ذہنی تربیت کا فقدان بھی ہے۔ ہمارا تعلیمی نظام رٹّہ لگا کر نمبر حاصل کرنے پرزور دیتا ہے تاکہ قوم کے معمار اچھی سے اچھی نوکری،بڑے سے بڑا عہدہ اور زیادہ سے زیادہ پیسہ بنانے کے قابل ہو جائیں۔ مگر ایسا نظام عقل و شعور، دلیل و بُرہان ، فرسودہ روایات سے انحراف کرنے والے، سوال اٹھانے والے اور وقت کے دھارے کے ساتھ قدم ملا کر چلنے والے اذہان پیدا نہیں کر سکتا۔ مغرب میں بھی کوئی آئیڈل طرزِ زندگی موجود نہیں ہے۔ مگر حقیقت پسندی اور شخصی آزادی کا پر تو ان کی روز مرّہ زندگی میں نظر آتا ہے۔
”مغرب سے نکلتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ“ میں مغربی زندگی میں موجود ہمارے لئے معیوب اسی حقیقت پسندی کی طرف اشارہ ہے:
”نہایت تحمل سے ساری بات سُن کر انجیلا نے پُر سکون اور ٹھہرے ہوئے لہجے میں جواب دیا: ”رات گئے بھائی کے انتقال کی صورت میں اسے نیند سے ہر گز بیدار نہ کیا جائے۔ اس نے واضح ہدایات دیتے ہوئے کہا کہ کل صبُح نو بجے اس کی ہئیر ڈریسر کے ساتھ اپوائنٹمنٹ ہے۔اگر وقت پر نہ پہنچ سکوں تو مرحوم کے جسدِ خاکی کو آخری رسومات ادا کرنے والے فلاں ادارے کے سپرد کر دیا جائے۔“ ڈاکٹر آمنہ نے قدرے جھجھک کے ساتھ پوچھا کہ وہ محترم بھائی کا آخری دیدار نہیں کرنا چاہیں گی؟آواز سے جھلکتی ہوئی ناگواری کے ساتھ انجیلا نے جواب دیا: ”بھائی کے مردہ اور بے جان چہرے کو یاد رکھنے سے کیا یہ بہتر نہیں کہ میں اس کے ہنستے مسکراتے اور زندگی کی توانائی سے بھر پور چہرے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اپنے دماغ کی گیلری میں سجا لوں؟“ انجیلا کا جواب سُن کر ڈاکٹر آمنہ کے دل و دماغ میں گزشتہ برس اس کے تایا کے انتقال پر برپا ہونے والی نوحہ خوانی اور گریہ زاری کی صدائیں پھر سے گونجنے لگیں۔“
ٹائٹل افسانہ ’’طوافِ آرزو“ پڑھ کر احمد مشتاق کا ایک شعر یاد آ جاتا ہے:
ّؔ؎؎ؔؔ ”زندگی معرکہ ِ ئ روح و بدن ہے مشتاق
ؔؔ عشق کے ساتھ ضروری ہے ہوس کا ہونا“
ٹائٹل افسانہ: ”طوافِ آرزو“ یونیورسٹی میں فلسفے کے ہم جماعت لڑکے، لڑکا، فلسفہئ پڑھنے کے اغراض، انسانی زندگی اور محبت کا مفہوم ایسے گھمبیر موضوعات پر سیر حاصل گفتگو کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ محبت دوسرے انسان سے نہیں ہوتی بلکہ یہ ایک ایسے جذباتی سفر کا نام ہے جس کے دوران انسان اپنا کوئی نہ کوئی خلا، اپنی کوئی نہ کوئی کمی اور اپنی ہی کوئی نہ کوئی ضرورت پوری کر رہا ہوتا ہے۔ اس حقیقت کے اقرار کے بعد بالآخر دو جوان جسم اپنی اپنی فطری ”ضرورت“ کے سامنے سر نگوں ہو جاتے ہیں:۔
”کیا جسم اور جذبوں کے درمیان کوئی حدِ فاصل ہوتی ہے؟“ لڑکے نے آخری سوال کیا؟
”محبت، چاہت، پریت، اُنس، جیسی سبھی باد بانی کشتیوں کا آخری پڑاؤ جسم کا جزیرہ ہوتا ہے۔رُوح کے سمندر میں نئے جہانوں کی تلاش میں سر گرداں سارے کولمبس بالآخراس جزیرے پر انگر انداز ہوتے ہیں۔ اور یہ حقیقت بلا تفریق تقریباً دونوں اصناف یعنی مرد و زن پر یکساں لا گو ہوتی ہے۔“ لڑکی کا مختصر مگر جامع جواب تھا۔
آسمان پر اُڑنے والاچیلوں کا جوڑالڑکی کے سامنے کی جانب شیشم کے ایک اونچے درخت پر وکٹری کا نشان بناتے ہوئے دو خشک ڈددددالوں میں سے ایک کے بالائی حصے پر بیٹھ چکا تھا۔ مادہ چیل کی چیخ و پکار نے لڑکی کا زاویہئ نگاہ اُس جانب موڑ دیا۔کچھ دیر کے لیے مبہوت ہو کر اس منظر کو دیکھنے کے بعد اُس نے اپنے مو بائل فون پر ڈرائیور کا نمبر ڈائل کیا۔ چند لمحوں کے بعد رابطہ ہونے پر خوبناک لہجے میں بولی: ” نصیر، آج مجھے لینے مت آنا، میں اپنے طور پر آ جأونگی۔“
مندرجہ بالا افسانوں اور کہانیوں کے علاوہ، داغِ دلکش جس(کا انگریزی میں ترجمہ ہو چکا ہے۔)، گنگنی کی رانی، جو ہم پہ گزری سو گزری، فارم ہاؤس، کافر سکھنی، سرور سنگھ اور رحم کر بر حالِ ما یاد گار افسانے ہیں۔ رقص، موسیقی، مصّوری، شاعری، فکشن اور دیگر فنونِ لطیفہ دراصل انسان کی تخلیقی صلاحیتوں کے اظہار کے ذرائع ہیں۔ اصل شے انسان کی تخلیقی صلاحیت ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ صلاحیت اس تخلیق کارمیں بدرجہئ اُتم موجود ہے اور طوافِ آرزو اس کا بہترین ثبوت ہے۔ اتنے دلچسپ اور دلکش افسانے تخلیق کرنے پر میں مصنف کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
(ختم شُد)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply