اٹلی ہے دیکھنے کی چیز(قسط4)۔۔سلمیٰ اعوان

میرے خوابوں کا وینس اور میری بونگیاں

o پانیوں میں تیرتا یہ بے حد شاندار اور خوش نما شہر جس کی شہرت دنیا بھر میں حیرت انگیز اور تاریخی ورثے کے طور پر ہے۔
o اٹلی ٹھگوں کے لئے بڑا مشہور ہے۔بار بار یہ سبق پڑھنے کے بھی اُن کے ہتھے چڑھی۔
o ویپوریٹو پر چڑھنے کی جلدی،جانا کہاں ہے؟کچھ پتہ نہیں۔خوب خوب تماشے ہوئے۔

ہونٹوں پر دعائیہ جملے تو وہی روزمرہ والے تھے۔ہاں البتہ بے حد مانوس مگر اجنبی زمین پر تنے نیلے سائبان پر جمی نگاہوں سے ٹپکتے شبنم کے قطرے دھیرے دھیرے خوبصورت چہار منزلہ گھروں میں سے ایک کے ٹیرس کے فرش پر گرے۔ہونٹوں پر تکرار ہوئی۔
”میرے ساتھ رہنا ہے۔میرا ہاتھ تھامے رکھنا ہے۔اکیلی ہوں۔آج وہاں جارہی ہوں جہاں جانے کے سدا خواب دیکھتی رہی ہوں۔“
پانیوں میں تیرتا یہ خوبصورت،بے حد شاندار،خوش نما، ایک سو جزیروں،سینکڑوں پلُوں اور ہزاروں گلی کوچوں والا وینس ادیبوں،شاعروں اور تخیلاتی لوگوں کو ہانٹ کرنے والا۔
بچپن کی کہانیاں کہیں بغداد اور کہیں وینس کے سوداگروں کے گرد ہی تو گھومتی تھیں۔بڑے ہوکر شیکسپئر سے شناسائی ہوئی۔مجھے یاد ہے The Merchant of Venice اور The Two Gentlemen of Veronaہاتھوں میں آئیں تو کِس شوق و رغبت سے انہیں پڑھا تھا۔کتنے خواب دیکھے تھے اس وینس کے۔ بڑے ہوکر The wings of the Dove،Italian hours اورThe Aspern Papers نے بے حد متاثر کیا۔وینس اِن کہانیوں میں ایک بیک ڈراپ کے طور پر استعمال ہواہے۔
ہاں میں تھا مس مینThomas Mann کی کلاسیک کہانی تو بھول ہی گئی۔ Death in venice کیا کمال کی چیز ہے۔
کیسا شہر ہے جس کی شہرت یورپ کے ایک محفوظ کیے گئے حیرت انگیز اور بڑے تاریخی شہر کے طور پر ہے اور جو اب تنزّلی کی طرف گامزن ہے۔ جسکی گلیوں میں دوڑتے ندی نالے دیکھ کر ہمیشہ بسمل صابری کا شعر یاد آتا تھا
اشک بن کروہ میری چشم تر میں رہتا ہے
عجیب شخص ہے پانی کے گھر میں رہتا ہے
ساتھ میں تھوڑی سی ترمیم بھی ہوجاتی تھی۔عجیب شہر ہے پانی کے گھر میں رہتا ہے۔
مختصر سا ناشتہ،چائے کا مگ اور جام لگاخستہ سا بند نما سموسہ۔بیگ کی چیکنگ، ہیلمٹ پہن کر اقبال کے سکوٹر پر بیٹھنا،چیزاتے اسٹیشن پر آنا۔مشین سے ٹکٹ نکالنے کا مشکل مرحلہ اقبال سر کرتا۔اگلے مرحلوں میں طاق ہوگئی تھی۔
آج مجھے میلان شہر کے میٹرو اسٹیشن ریپبلکہRepublica اُتر کرنصف فرلانگ پر چنترال اسٹیشن تک جانا تھا۔مجھے اسمیں آسانی محسوس ہوتی تھی۔میں میٹرو کی زیر زمین بھول بھلّیوں سے قدرے خوف زدہ سی رہتی تھی۔آسان اور سیدھے راستوں پر گو وہ چلنے کی مشقت سے زیادہ بھرے ہوئے تھے ترجیح دیتی تھی۔
دو رویہ بلندوبالاعمارات کے کشادہ برآمدے اِس صبح کے سمے خالی خالی تھے کہ ریسٹورنٹ ابھی جاگنے کی لکن میٹی کھیل رہے تھے۔
میلان کے مرکزی ریلوے اسٹیشن چنترال کا چہرہ مہرہ بڑا بے رونق سا ہے۔اندر جدید سفری سہولتوں سے مزین چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے ذرائع کے ڈھیر لگے پڑے ہیں۔اور باہربڑا اجڑا پجڑا سا ہے۔سنا بھی اور پڑھا بھی کہ فاشٹ مسولینی کی یاد میں یہ سوغات رکھی ہوئی ہے کہ دوسری جنگ عظیم میں بیچارہ پور پور زخمی ہوا تھا۔اِس کے چہرے مہرے کی پلاسٹک سرجری قصداً نہیں کی گئی۔
وینس کیلے ٹکٹ لینے کی پوچھ گچھ کے مرحلے سے ابھی دوچار بھی نہ ہوپائی تھی کہ ٹھگ کے ہتھے چڑھ گئی۔ایسا ہونا ضروری تھا۔ایک تو لباس اعلان کرتا تھا دوسرے چہرے پر اُڑتی ہوائیاں راز کھولتی تھیں۔نوجوان خوش شکل سے لڑکے نے قریب آکر پوچھا۔
”کہاں جانا ہے؟“وینس کو اطالوی زبان میں وینیزیا کہتے ہیں۔اسے رٹ کر چلی تھی۔ اسی لئیے بڑے اعتماد سے کہاگیا۔
مگر اٹلی ٹھگوں کیلئے بھی تو بڑا مشہور ہے۔
بہرحال مدّعا جان کر اُسنے آنکھیں اور دل میری راہوں میں بچھاتے ہوئے مجھے ٹکٹ آفس تک جانے ہی نہ دیا۔خود کار مشینوں کے پاس لے آیا۔فسٹ کلاس،سیکنڈ کلاس سوال ہوا۔کنجوس اور کفایت شعار عورت نے فوراً پوچھا تھا۔
”تھرڈ کلاس نہیں ہے کیا؟“زور دار قسم کا NOتھا۔خود کو لعن طعن کی کہ اوقات دکھانی کیا ضروری تھی؟37یورو دیجئیے۔پچاس یورو کا نوٹ بیگ سے نکالا۔
لڑکے نے حکم دیا ”مشین میں ڈالو۔“
تعمیل کی۔ دوسری طرف سے دس کا نوٹ نکلا۔دوبارہ شاہانہ انداز میں کہا گیا۔
”پکڑو۔“
میں تو پہلے ہی جھپٹا مارکر نوٹ کو قابو کرچکی تھی اور تین سکوں کی بھی منتظر تھی۔ٹکٹ باہر نکلا۔لڑکے نے اُسے میرے ہاتھ میں تھمایا۔
ٹن ٹن موسیقی کی جھنکار کے ساتھ تین سکے باہر نکلے اور ساتھ ہی برقی انداز میں لڑکے کے ہاتھوں نے انہیں دبوچتے ہوئے مجھے اشارہ کیا۔
”آئیے۔“
دو تین خود کار برقی زینوں سے چڑھاتے تیز رفتاری سے تقریباً دوڑاتے مجھے ایک بڑے سے ہال کے دروازے پر دھکیلتے ہوئے بولا تھا۔
”آگے جانے سے میرے پَر جلتے ہیں۔گاڑی پلیٹ فارم پر کھڑی ہوگی۔جائیے۔“
میں نے ہونقوں کی مانند اُسے دیکھا تین یورو کے عوض میں نے تو سمجھا تھا کہ وہ مجھ مہارانی کو ڈبے میں بیٹھا کر آئے گا۔مگر مسئلہ یہ تھا کہ اساطیری کہانیوں کے یاجوج ماجوج کی طرح دو سپاہی شیشے کے دونوں دروازوں پر کھڑے تھے اور مسافر کے سوا ہر ایک کا داخلہ ممنوع تھا۔
اندر قدم دھرا۔
ایک عظیم الشان عمارتی سلسلہ جس کا بیشتر حصّہ آ ہنی و فولادی راڈوں اور ستونوں پرکھڑا ایک خوبصورت لابی کی صورت لئیے جس کی قوسی سفید فائبر گلاس والی چھت نے پورے ماحول کو روشن کررکھا تھا میری آنکھیں پھاڑ رہا تھا۔
دنیا بھر کی خوبصورتیوں،بدصورتیوں کے نمونوں اوردائیں بائیں بھاگتی ننگی حسین ٹانگوں،عریاں گداز سینوں کی بڑی بہاریں تھیں یہاں۔عبایوں،حجابوں میں لپٹی عورتوں اور لڑکیوں کی بھی نمائندگی تھی۔ ان سبھوں کے ساتھ ساتھ بے شمار کاروباری سلسلوں کو بھی عمارت اپنے پیٹ میں سمائے ہوئے تھی۔کوئی نو کے قریب لابی سے جڑے ٹریک ہونگے جن میں سے کچھ پر گاڑیاں کھڑی اور کچھ خالی نظر آتے تھے۔
ایک نفسانفسی اور بھاگ دوڑ کا عالم تھا۔جس میں شامل ہونے کی میری کمی تھی سو خیر سے میری آمد کے ساتھ وہ پوری ہوگئی۔ سب سے زیادہ ڈر ہائے کہیں ٹرین چھٹ نہ جائے کا تھا۔یہ تھوڑی کہ گاڑیاں کم تھیں۔ہر گاڑی کے چلنے کا درمیانی وقفہ صرف گھنٹہ بھر کا تھا۔ مگر اُس کے چھٹنے کی صورت میں کٹوتی بھی ٹھیک ٹھاک ہوتی تھی۔پیٹرز برگ روس میں ایسے ہرجانے بھر چکی تھی۔پرانی تاریخ یہاں دہرانا نہیں چاہتی تھی کہ مہرانساء ساتھ نہیں تھی۔ہرجانہ پورا کا پورا میرے پیٹے پڑجانا تھا۔ اسی لئیے ٹکٹ ہاتھ میں پکڑے جانکاری کیلئے بھیک منگوں کی طرح بھاگتی پھرتی تھی۔ اِسے پکڑ، اُسے کھینچ، کوئی مونڈھے مارتا آگے بڑھ گیا۔کسی نے بے اعتنائی سے دیکھا۔کِسی نے توجہ تو دی مگر خاک نہ سمجھا۔ہاں ایک سوڈانی مہربان سے بچے نے انفرمیشن بورڈ تک لے جا کر سمجھایا اور کہا۔
”اطمینان سے بیٹھ جائیے۔ گاڑی جانے میں ابھی پورا ایک گھنٹہ باقی ہے۔“
اب اردگرد نظریں دوڑائیں تو کہیں چھوٹے سے چھوٹا بینچ کا کوئی ٹوٹا تک نہ تھا۔زمین پر ایک جگہ پھسکڑا مارکر بیٹھ گئی اور قدرت کی رنگینیاں دیکھنے لگیں۔بوڑھی عورتیں تھیں کہ مانو جیسے اسکیٹنگ کے پہیوں پر چڑھی ہوئی ہوں۔
بھاری بھر کم اٹیچی کیس ایک ہاتھ سے گھسیٹتے ایک نابینا عورت دوسرے ہاتھ سے سفید چھڑی لہراتے جیسے ہوا کے گھوڑے پر سوار حیرت زدہ کرتی تھی۔
خود پر لعنت بھیجی۔ ”کمبخت دیکھ اور سبق سیکھ۔ تجھے توایسے ہی گبھراہٹ کے دورے پڑرہے ہیں۔“
پرفطرت سے مجبوری کا کیا کیا جائے۔
پھر جیسے شلوار قمیض نے کام کردکھایا۔اُن اجنبی فضاؤں میں اپنائیت کی خوشبو میں لپٹی ایک آواز نے متوجہ کیا۔
”کہاں سے ہیں؟“
حیرت سے پوچھنے والے کو دیکھا ایک خوش شکل پیارا سا لڑکا صفائی کرتی گاڑی میں بیٹھادیکھتا اور پوچھتا تھا۔
اب جواب، پھر سوال اور اپنی مشکل کو بتانے کے سلسلے میں جانی کہ لڑکا جالندھر سے ہے۔دلداری کے میٹھے بولوں سے ”ابھی آتا ہوں اور سمجھاتا ہوں گبھرائیں نہیں“ جیسے الفاظ نے گبھراہٹ، تلخی اور پریشانی میں پھنکتی جان پراطمینان کی بوندا باندی کی جیسے پھوار برسائی۔
چند ہی لمحوں بعد وہ مجھے لئیے انفرمیشن بورڈ کے سامنے کھڑا تھا اور میں ٹکٹ ہاتھ میں لئیے سبق پڑھتی تھی۔گاڑی کا نمبر موجود تھا۔وینس جانا ہے۔لکھا ہوا تھا۔کِس پلیٹ فارم پر اِسے آنا ہے۔اس کا اندارج از خودہی پندرہ منٹ پہلے ہوجانا تھا۔آدھ گھنٹہ باقی تھااور گاڑی بورڈ پر بہت نیچے تھی۔گزرتے ہر لمحے میں اِسے اوپر آتے چلے جانا ہے۔
”چلو اللہ مسب اسباب ہے۔“
ابھی لفظ اندر سے نکل کر ہونٹوں پر آئے ہی تھے کہ خوبصورت نقش و نگار والی چار عربی لڑکیاں عبایوں اور حجاب میں لپٹی اپنی ماں کے ساتھ نمودار ہوئیں۔فواًلپک کر اھلاًوسہلاً و مرحباً کہا۔سعودی تھیں پاکستان کا سُن کر ماں بیٹیوں نے محبت بھرے جذبات کا اظہار کیا۔ انہیں بھی وینس جانا تھا اور گاڑی بھی وہی تھی۔
اب جیسے گم گھپ اندھیرے میں ننھی منی سی قندیلیں جل اٹھیں باتیں ہونے لگیں۔لمحوں کی لطف اندوزی مسرور کرنے لگی۔
تبھی سوڈانی لڑکے نے ہاتھ پکڑا اور گھسیٹنے لگاکہ گاڑی پلیٹ فارم پر کھڑی ہے۔اب وسوسے بھی ساتھ ہی چلنے لگے تھے کہ سعودی لڑکیاں تو وہیں اطمینان سے کھڑی ہیں۔
اسی گاڑی میں انہیں بھی تو سوار ہونا ہے۔ شیطان کی آنت کیطرح لمبی گاڑی،جتنی لمبی اتنی ہی خوبصورت اور شاندار بھی۔نو نمبر ڈبہ کہیں پچھواڑے میں ٹنگا ہوا تھا۔جونہی نو کا ہندسہ نظرآیا۔جیسے پارے کی طرح تھرکتے مچلتے دل کو قرار آگیا۔زینے پر قدم دھرنے سے قبل مڑی۔ سوڈانی بچے کی چھاتی پر بوسہ دیا۔پانچ یورو اسکی مٹھی میں تھمائے۔
اب شکر کرتی اندر داخل ہوئی۔سیٹ ڈھونڈی۔بیٹھی اور بڑا لمبا سُکھ بھرا سانس اندر سے نکالا۔ڈیڑھ گھنٹے کا ذ ہنی اضطراب اور جسمانی دوڑ دھوپ دونوں کو سکون مل گیا تھا۔ سیٹیں آمنے سامنے تھیں۔درمیان میں کھلنے اور بند ہونے والی چھوٹی سی میزیں من چاہے کاموں کیلئے۔
ٹرین کا سفر بچپن ہی سے بڑا ہانٹ کرتا ہے۔دادی کے پاس سمندری جاتے تو ہمیشہ ٹرین پر جانے کی ضد کرتے۔کھانے پینے کی چیزوں کیلئے دنوں پہلے پروگرام بناتے۔آج وہی پرانے منظر نئی جدّتوں کے ساتھ سامنے تھے۔
گاڑی نے اڑان بھرنے میں ذرا سی دیری نہ کی۔چلی تو ساتھ ہی کھانے پینے کے موڈرن پٹارے کھل گئے تھے۔دائیں بائیں سبھوں کی منہ ماری شروع ہوگئی تھی۔ اپنے بچپن میں ہم ایسی صورت پر ہانکیں لگاتے تھے۔راجے راجے کھا ندے،تے بلیاں بلیاں چاہتدیاں۔تو آج برسوں بعد وہی صورت سامنے تھی کہ راجے کھارہے تھے اور بلی حسرت سے انہیں دیکھ رہی تھی اور خود کوکوسے چلی جارہی تھی۔
”کمبخت کچھ زندگی سے لطف اندوز ہونا بھی سیکھ لے۔ہر دم لکھنے اور کہانیوں کے چکر میں ہی پڑی رہے گی۔کیا تھا جو اپنی بدحواسیوں سے نکل کر ذرا سا اِدھر اُدھر دیکھتی۔اتنے خوبصورت ریسٹورنٹ۔اتنی کھانے پینے کی چیزیں۔کچھ لوگ ہوتے ہیں نا جنکے مقدر میں بہت کچھ ہوتے ہوئے بھی کچھ نہیں ہوتا۔بس تم انہی لوگوں میں سے ہو۔“
پانی کے گھونٹوں سے اندر سے اٹھتی اِس پھٹکار کی جلن کو کم کرنے کی کوشش کرتی اور یہ بھی عہد کرتی کہ واپسی پر ایسا نہیں ہونے دوں گی۔
ہمسایوں کاجائزہ لیا۔سامنے درمیانی عمر کی عورت اپنے سات،آٹھ سالہ بیٹے کی بلائیں لینے اور وقفے وقفے سے اُسے کھلانے پلانے میں جتی ہوئی تھی۔تین بچوں کی ماں پہلوٹھی کی لڑکی جو ابھی ابھی ماں کے بیگ سے اپنی پسند کی چیزیں لے کر اپنی سیٹ پر گئی۔اس سے چھوٹا لڑکا اور تیسرا یہ پیٹ کروڑی (یعنی آخری) جسکی ماں اور ماں کی اس کے ساتھ لاڈیوں کی انتہا نہ تھی۔
خاتون میلان کے ہیلتھ ڈپارٹمنٹ میں پرسونل آفیسر تھی اور چھٹیوں میں پاڈوPaduaبہن کے پاس جارہی تھی۔پاڈو وینس کا نزدیکی علاقہ تھا۔
ساتھ والی نے لیپ ٹاپ میز پر رکھ لیا اور کام کرنے لگی۔تھوڑی دیر بعد فروٹ سلاد کا ڈبہ نکالااور کام کے ساتھ ساتھ کھانا پینا بھی شروع ہوگیا۔
تھانہ یہ معدہ و نظر کا امتحان۔ میرا بھوکا اندر بلبلانے لگا تھا۔منہ ماری کی عادت تڑپنے لگی تھی۔میرے اور سیما پیروز کے بیگوں میں ہمیشہ کچھ نہ کچھ ہوتا۔نٹزNuts اپنی کسی نہ کسی صورت میں۔چھوٹی الائچی یا کوئی گولی ٹافی۔ہمارا ٹولہ اِس منہ ماری اور تبصروں کیلئے بڑا مشہور ہے۔مگر ستم ظریفی اب بیگ میں کچھ بھی نہ تھا۔
ماں نے بچے کا ایک بار پھر منہ چوما تھا۔میں نے خاتون سے پوچھا۔(شکر ہے وہ انگریزی بولنے اور سمجھنے میں بہتر تھی)کہ اُس کے اتنے پیارے بچے جوان ہوکر جب گھر سے چلے جائیں گے وہ اُس وقت کے بارے میں کبھی کچھ سوچتی ہے؟اس کے جواب نے میرے لئیے سوچ کے دروازے کھولے کہ وہ سادہ مگر جذبائیت سے عاری لہجے میں بولی۔
”ایسا ہونا تو قدرتی ہے۔بچوں نے بڑے ہوکر اڑانیں تو بھرنی ہیں۔کوئی انہیں باندھ تھوڑی سکتا ہے۔“
ہم جیسی جذباتی مشرقی ماؤں کیلئے لمحہ فکریہ ہے نا یہ بات۔
ڈھائی گھنٹے کے اِس سفر میں راستے اور آبادیوں کی خوبصورتیوں میں تقابلی جائزے لینا تو حماقت تھی کہ کہاں را جہ بھوج اور کہاں گنگا تیلی۔ پر بندہ اِس ناہنجار دل کا کیا کرے جو آہیں بھرنے سے باز نہیں آتا۔سچ تو یہ تھا کہ اس وینس اور بعد کے سفروں سے میں یہ ضرور جانی تھی کہ یہاں انسانی ہاتھوں نے اپنی محنت و لگن سے ماٹھے سے خدائی حُسن کو چار چاند لگا دئیے ہیں۔مٹی تو کہیں نظر نہیں آتی تھی۔فصلوں میں زیادہ مکئی پردان تھی۔قامت میں بھی خاصی چھوٹی تھی۔جھیلوں اور ندی نالوں کا پانی ہرا کچورتھا۔تو وینس پر جب ٹرین رکی میں نے فضا پر ایک محبوبانہ نظر ڈالتے ہوئے خود سے کہا۔
”تو تونے مجھے اپنے خوابوں کا شہر دکھانے کا انعام دے ہی دیا۔“
پیٹ دہائیاں دے رہا تھا۔وینس کے ریلوے اسٹیشن کے ٹرمینل کے ساتھ ہی شاپنگ مال تھا۔دنیا کا سیاح ٹوٹا پڑا تھا۔ریسٹورنٹ کے خودکار کھلتے دروازے سے اندر داخل ہوکر میں نے ویجی ٹیبل پیزا لیا۔کیلے خریدے،دودھ کی بوتلیں لیں،پانی لیا اور باہر بچھی کرسیوں میں سے ایک پر بیٹھ کر کھانے میں جت گئی۔
اب باہر نکلنے اور وہ سب کچھ دیکھنے کی بے چینی تھی۔کسی راہ چلتے سے کشتیاں اور نہر کہنے کی دیر تھی کہ لمبے سے بازو نے راستہ دکھادیا۔شیشے کی دیواری سائز کے دروازے سے باہر کا منظر اتنا مانوس سا کہ قدم ٹھٹھک گئے۔آنکھیں چمک گئیں اور چہرہ کھل گیا۔وینس کا لینڈ مارک گھاٹ ویپوریٹیWaporetti (پانی کی بسوں)چھوٹے سٹیمروں،سادہ کشتیوں،گنڈولوں اور پل سے ذرا دور کروزوں سے بھرا نظرآتا تھا۔مختلف کمپنیوں کے بکنگ آفسز کے سامنے لوگوں کے ہجوم کھڑے تھے۔
دس بجے کی دھوپ اپنی تمام تر تیزیوں کے ساتھ پورے منظر پر پھیلی آنکھوں کو چندھیاتی تھی۔پل بھر کیلئے میں نے سوچا کہ میں نقشے لوں اگر کوئی کتابچہ مل جائے تو اُسے خریدوں۔اب دوبارہ سٹیشن کی عمارت میں داخل ہوئی۔نقشے ضرور ملے مگر سب اطالوی زبان میں۔
اب جیسے کسی کشتی،کِسی ویپوریٹوvaporetto (آبی کشی)میں چڑھ جانے کی جلدی تھی۔سو بغیر سوچے سمجھے ٹکٹ لینے والی قطار میں جاکھڑی ہوئی۔نہ یہ معلوم کہاں جانا ہے؟ بکنگ کرتی لڑکی سوال کرتی ہے۔جواب کیلئے آئیں بائیں شائیں ہے۔اُس نے سوچا ہوگا۔
”پاگل ہے مائی۔ٹکٹ پکڑاؤ۔مجھے کیا بھاڑ میں جائے۔“
سات یورو کا ٹکٹ ہاتھ میں پکڑے آبی بس میں چڑھ گئی۔گبھراہٹ بھی سوار ہے۔منزل کا کوئی تعین نہیں۔ایک نوجوان جوڑے پر گمان گزرا کہ دیسی ہے تو درخواست کی کہ کچھ گائیڈ کریں۔جوڑا تو انڈین تھامگر تھا امریکی۔موج میلے کیلئے آیا تھا۔بیچاروں کو ڈر پڑگیا کہ بڈھی عورت کہیں کباب میں ہڈی بن کر اُنکے گلے میں نہ پھنس جائے یا کمبل بن کر چمٹ نہ جائے۔پتہ ہی نہ چلا کب کھسک گئے۔
اب گبھراہٹ کا شکار پھرعرشے سے اندر چلی گئی کہ چلو جو ہوگا دیکھا جائیگا۔ایک بے حد پیاری لڑکی نے فوراً کھڑے ہوکر اپنی سیٹ پیش کی۔ساتھ بیٹھی اسکی معمر والدہ نے میری قمیض کے دامن اور بازوؤں کے کنارے پر لگی بیل کو پکڑ کر دیکھا اور سراہا۔میں نے کچھ جاننا چاہا مگر معلوم ہوا کہ سوئزر لینڈ سے ہیں اور انگریزی میں کورے ہیں۔چلو قصہ ختم۔
اب شیشوں کے باہر کے منظروں کو دیکھتی ہوں۔کہیں نہر کا پاٹ بے حد چوڑااور کہیں کم نظرآتاہے۔موہ لینے والی عمارتوں سے مزّین ایک جزیرہ سامنے آتاہے۔کچھ اترتے ہیں۔کچھ چڑھتے ہیں۔پوچھتی ہوں۔کسی کا پتہ چلتا ہے۔کسی کا نہیں۔گبھراہٹ ہے کہاں جارہی ہوں؟دائیں بائیں کہیں رنگوں و روغن سے آراستہ پیراستہ عمارتیں کہیں گتھی ہوئی کندہ کاری سے منہ ماتھا سجائے چرچ،کہیں خستگی اور کہن سالی کے ہاتھوں گھرے تھکے اور شکستہ دم گھر۔
پھرجیسے ایک خوبصورت منظر میری آنکھوں کے سامنے آیا۔عمارتوں کی اتنی رنگینی بالکونیوں کے ستون موہ لینے والے، اُن کے ساتھ لٹکے پھولوں کے گچھے۔ہرعمارت اپنے جداگانہ طرز تعمیر کا نمونہ۔اور جب لوگ اُتر رہے تھے میں نے بھی تعاقب کیا تھا۔
یہ Cad-ora تھا۔تھوڑی سی تاریخ جانی کہ 1421اور 1440کے درمیان مرینو Marino Contarin تاجر نے اسے آباد کیا۔اس کا خصوصی تاریخی محل گولڈن ہاؤس تھا۔یہ وینس کی سب سے قدیم ترین سوغات نہر کے کنارے پر وینس کے مخصوص گوتھک طرز تعمیر کی جھلکیاں مارتی تھی۔ تین منزلہ اِس محل کی بالکونیوں کے ستون،ان پر کی گئی کندہ کاری نظروں میں کُھب کُھب جاتی تھی۔داخلہ بذریعہ ٹکٹ ہوا جو پانچ یورو کا تھا۔کاؤنٹر پر بیٹھی لڑکی نے آڈیو گائیڈ کا پُوچھا۔انکار کیا۔
کمروں اور صحن کی زیبائش میں بہت سی تہذیبوں کے رنگ گھلے ہوئے تھے۔ باز نطینی آمیزش کے ساتھ اسلامی ٹچ بھی نظر آتا تھا۔بالکونیوں کے جھروکے،صحن،دیواری کنگرے،ستونوں پر بکھری آرائشی بیلیں سب اس کی گواہی دے رہی تھیں۔ایسا ہونا قدرتی امر تھا کہ یہی وہ زمانہ تھا جب عثمانی سلطنت اپنے عروج کی طرف گامزن تھی۔تاجروں اور کاروباری لوگوں کے سفر ہی تہذیبوں کے دلکش امتزاج کے مرہون منت ہوتے ہیں کہ جو چیزیں انہیں کہیں بھاتی ہیں۔انہیں اپنے ملکوں میں رواج دیں۔ اوپر کی منزل میں آرٹ گیلری تھی جسے میں نے زیادہ نہیں دیکھا۔
سچی بات ہے بے طرح قسم کی گبھراہٹ سر پر سوار تھی کہ ابھی ٹھہرنے کا بندوبست بھی کرنا ہے۔کوئی ڈیڑھ گھنٹہ اس کی ملحقہ گلیوں میں گزارنے کے بعد سوچا تھا میں واپس جاؤں۔ٹھہرنے کا بندوبست کروں۔نقشے ڈھنڈوں دیکھوں کہ مجھے کیا کیا دیکھنا ہے؟
اب سچی بات ہے نری اُلّو کی پٹھی تھی نا کہ اتنی عقل نہیں آئی کہ یہاں جہاں پھر رہی ہوں بھی ہوٹل ہی ہوٹل ہیں۔یہیں کہیں پتہ کرلوں۔مگر نہیں جی۔گبھراہٹوں نے یرغمال بنایاہوا تھا۔
ہنری جیمز کی “Italian Hours”میں اِس مشہور زمانہ کہاوت “The Luxury of loving Italy”کا بہت بار اعادہ ہوا تھا۔جیمز نے اِس لگژری کے ہر ہر لمحے سے لطف اٹھایا۔میں یہاں مصیبت میں پھنس گئی ہوں۔ایسا نہیں کہ میں اپنی کوتاہیوں کو دوش نہیں دیتی ہوں۔اب علامہ کو ہی دہراتے ہوئے کہتی ہوں کہ زمانے کے انداز بدلے گئے۔نئے سازوں اور نئے رنگوں سے شناسائی مسئلہ بن گئی ہے۔
بیگ میں سنبھالا ہوا ٹکٹ نکالا۔خیال تھا کہ یہی چلے گا۔واہ گھرنوں پھولی۔ بکنگ آفس کی کھڑکی سے جھانکتی لڑکی نے پوچھا۔
”جانا کہاں ہے؟“
بونگوں کیطرح سے جواب دیتی ہوں۔”جہاں سے آئی تھی۔“
لڑکی ہنس پڑی تو اپنی حماقت کا احساس ہوا۔
خجل سی مسکراہٹ چہرے پر بکھیری”ٹرین اسٹیشن۔“
”سات یورو۔“
ایک لفظ بولے بغیر سکے تھما دئیے۔
اب تھوڑے سے سکون سے جگہوں کو پانیوں میں تیرتے دیکھتی اور انکے ناموں کے اعلان سُنتی رہی۔پلے ککھ نہ پڑا کہ نام ہی اتنے مشکل تھے۔پھر الٹی پلٹی سوچیں پانیوں کے بہاؤ کے ساتھ ساتھ بہنے لگیں۔ہوٹل کو کھوجنا ہے۔ہائے کہیں اسٹیشن کے آس پاس ہو،ہائے کوئی ہاتھ نہ ہوجائے۔خوف کی بڑی اونچی لہر اٹھی تھی۔سرجھٹکا۔
یاد آیا تھا بنگلہ دیشی یہاں بہت ہیں اُن سے راہنمائی لوں۔شام تک قابل ذکر جگہیں دیکھوں اور پھر گاڑی پر چڑھ جاؤں۔دل نے تجویز کو پسند کیا۔تو سب سے پہلے ٹکٹ لینا چاہیے۔ارادوں کی گھمن گھیریوں سے نکل کر دیکھا تو سامنے اسٹیشن کی مخصوص عمارت نظرآئی تھی۔اطمینان سا اندر اُتراکہ چلو ایک جھلک سے تو آشنائی ہوئی۔بکنگ آفس کہاں ہے؟پوچھتے کھوجتے اندر داخل ہوئی اور سیدھی دھت مارتی کاؤنٹر پرخاتون کے سر پر جاسوار ہوئی۔
”پلیز“
چہرے پر جانے بدحواسیوں کے کیسے کیسے سائے ہونگے۔ لہجے میں گبھراہٹ کے تاثر کا چھلکاؤ ہوگا۔خاتون نے کوفت اور بیزاری سے نگاہ پلٹا کر دیکھا اور ہاتھ کے اشارے سے انتظار کا کہہ کر اپنی مخاطب کی طرف متوجہ ہوگئی۔اب جو دیکھا تو چھوٹی سی لائن میں لوگ کھڑے مجھ اوندھی کو تمسخرسے دیکھتے ہیں۔
”ہوں پوری اُلّو کی پٹھی۔“
خودکو کوسا۔ذرا فاصلے سے ایک سلونے مرد نے قریب آکر اُردو میں کہا۔
”ٹوکن لیجئیے۔جی چاہے تو لائن میں کھڑی ہوجائیں یا کہیں بیٹھ جائیں۔آپ کا نمبر سامنے زیپر پر جونہی آئے گاآپ نے فوراً اُس کاؤنٹر پر چلے جانا ہے۔“
شکریہ کہتے ہوئے جانا کہ بھارتی نژاد سریش امریکی ریاست ٹیکساس سے بیوی کے ساتھ سیر کیلئے آیا ہے۔ذرا فاصلے پر کھڑی بیوی کو دیکھا۔اُسنے بھی مسکراتے ہوئے سر ہلایا۔ اب اپنی گبھراہٹوں کی داستان انہیں سناتے ہوئے ثابت کرنا چاہا کہ میں پڑھی لکھی پاکستانی ہوں۔بس ذرا گبھراہٹ میں قاعدہ کلیہ بھول گئی۔
خود کوکوستے لعن طعن کرتے ٹوکن لیا اور لائن میں لگنے کی بجائے فرش پر پھسکڑا مارے بیٹھی لڑکیوں کے پاس جا کر بیٹھ گئی اور خود کو سُناتے ہوئے بولی۔”اب بھلا لائنیں بنانے کا فائدہ۔چار کاؤنٹر ہیں۔اور چاروں کے چاروں مشترکہ طور پر مسافروں کو بُھگتا رہے ہیں۔آپ کا نمبر کِسی بھی کاؤنٹر پر چلنے والی زیپر پر آسکتا ہے۔”ہوں“ بڑے مہذب بنے پھرتے ہیں۔“
نمبر میرا 185 تھااور جو صورت حال مجھے نظرآئی تھی وہ ٹکٹ دینے کی ہی نہیں تھی بلکہ ایک طرح اس میں سیاحوں کے مسائل کو سُننے اور گائیڈ کرنے کے فرائض بھی شامل لگتے تھے کہ جو بندہ باری پر کھڑا ہوتا تھاوہ اپنی مصائب بھری داستان سُنانے حتمی حل کیلئے مضطرب نظر آتا تھا۔اپنی باری پر اٹھتے ہوئے میں نے خود سے کہا تھا۔
”میں بھی اپنی اُلجھن ساری کی ساری اُسے سناؤں گی۔“
اور سچ تو یہ ہے کہ حرف بحرف اس پر عمل کیا۔ذرا سی پکّی عمر کا لڑکا اپنی ٹھوڑی کو ہتھیلی کے پیالے میں جمائے پورے انہماک سے میری بات سُنتا تھا۔
”اگر سات بجے کی گاڑی پکڑتی ہوں تو میلان ساڑھے نو بجے پہنچوں گی۔جانا بھی مضافات میں ہے۔پہلے میٹرو پھر ٹرین میں بیٹھ کر۔اور آپ کو بتاؤں چیزاتے جہاں اُترنا ہے وہ تو سُورج کی روشنیوں میں سناٹے اور خاموشیوں میں گم قصبہ ہے۔رات میں تو زیر زمین اندھیری راہداریوں میں میرا ہارٹ فیل ہوجانے کا ڈر ہے۔ تو میرے مہربان آپ کا کیاخیال ہے کہ مجھے رات یہاں گزارنی چاہیے جو دراصل میری بھی عین خواہش ہے۔“
قینچی کی طرح چلتی زبان اب خاموش تھی اور چہرہ منتظر نظروں سے اُسے دیکھتا اور توقع کرتا تھا کہ دیکھو تو سہی اب کہتا کیا ہے؟
اور اُس کی تجویز کے مطابق میرے لئیے ٹھہرنا زیادہ بہتر تھا۔
تو پھر طے ہے کہ جب ٹھہرنا ہے تو وینس کو جی بھر کر دیکھنا ہے۔تو بھئی کل کیلئے ٹکٹ اُس ٹرین کا کاٹو جو مجھے لوئے لوئے چیزاتے پہنچادے۔ساتھ ہی فوراً اس بات کا بھی ٹکڑا لگا دیا کہ میلان سے چیزاتے تک کا فاصلہ بیس منٹ کا ہے۔
اُسنے گاڑیوں کے اوقات دیکھے اور پانچ بجے کی ٹرین کیلئے ٹکٹ کاٹ کر میرے ہاتھ میں تھما دیا۔
اب ہوٹل کیلئے بھی اُسی سے را ہبری چاہی۔بتایا گیا کہ ٹورزم انفرمیشن والوں کا دفتر ساتھ ہی ہے وہ بہتر رہنمائی کریں گے۔
قیاس سے کیوں کہوں یقین تھا کہ آدھ گھنٹے سے کم میں نے کیا وقت لیا ہوگا۔فاتحانہ سی شان سے ٹکٹ بیگ میں رکھا اور مزے سے مجمع کو دیکھتی باہر نکل آئی۔
ٹورزم والوں کا دفترجانے کِس کھڈے میں تھا۔چار پانچ سے پوچھا۔الٹی سیدھی پریڈ کی خجل خواری نے زچ کردیا تھا۔
ابھی دو حرف لعنت کے زبان پر ہی تھے کہ رسالوں،اخباروں والی ایک دکان پر نظر پڑی۔فوراً اِس میں گُھس گئی۔نقشے پوچھے۔کتابیں پوچھیں۔چلو وینس پر ایک کتاب انگریزی میں ملی۔کھولی۔نقشے بھی جابجا نظرآئے۔مطمین ہوکر پندرہ یورو دئیے اور خوش و خرم سی باہر نکلی۔
اسٹیشن کی عمارت کی بیرونی سیڑھیوں پر شیڈ کے نیچے تھوڑی سی چھاؤں میں بیٹھ گئی۔ابھی مجھے کچھ نہیں کرنا۔نٹز اور بسکٹ کھاتے ہوئے اپنے اردگرد دیکھنا ہے۔جب آنکھیں سیر ہوجائیں گی پھر آگے چلنا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply