خدا کے رستے کا مسافر (افسانہ )-وقاص رشید

مسافر خدا کی تلاش میں تھا۔ جستجو جاری تھی۔ خدا کی کتاب سامنے آئی۔ ایک جگہ آیا “کیا تم تدبر نہیں کرتے”۔۔۔۔دوسری جگہ آیا۔۔۔”کیا تم عقل نہیں رکھتے “۔۔۔تیسری جگہ آیا “عقل والوں کے لیے میری نشانیاں ہیں “۔ چوتھی جگہ آیا”بہت ہی کم عقل ہیں جو خدا کا انکار کرتے ہیں”پانچویں جگہ آیا “خدا کے نزدیک تمام جانداروں میں بدترین وہ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے۔ چھٹی جگہ پر آیا “یہ قومِ کفار عقل سے کام نہیں لیتی “۔

مسافر نے اگلی منزل کے لیے زادِ راہ سمیٹا۔ تدبر ، غور وفکر ، سوچ ، تحقیق ، علمیت ۔۔۔۔ان تمام کو سمیٹ کر عقل کی پوٹلی  میں باندھا اور سر پر اٹھا لیا۔ اور چل دیا۔

راستہ خدا کی جمالیات کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ پھولوں کو دیکھتا تو اسکے ذوق پر رشک آتا۔ پرندوں کی چہچہاہٹ کے ساتھ جھرنوں کی آوازیں سنتا تو قدرت کے اس سازندے پر جھوم اٹھتا، ارض و سماں کی وسعتوں میں سمائے قدرتی مناظر کو دیکھتا تو یوں لگتا کہ یہ کائنات اسکا کینوس ہے اور وہ پینٹنگ کا ازلی شہنشاہ اور آسمان کی وسعتوں میں موجود نظامِ شمسی کو دیکھتا تو اسکی سائنسی تخلیق سے متاثر ہوتا، کائنات اسے خدا کے آرٹ کی ایک عظیم سائنسی تخلیق دکھائی دیتی۔ کیا یہی وہ نشانیاں ہیں جن پر بحیثیت تخلیقات کے غور وفکر کر کے خالق تک پہنچنا ہے ۔ ابھی وہ خود سے یہ سوال کر ہی رہا تھا کہ ایک جگہ روک لیا گیا۔۔

ایک محصول چونگی تھی جس پر لکھا تھا “مسلکی محصول چونگی “۔ یہاں ایک ناکہ لگا ہوا تھا۔ چند باریش حضرات اسکی جانب بڑھے۔ درشت لہجے میں پوچھا کہاں جا رہے ہو ؟ اس نے کہا ۔ راہ خدا پر اسکی تلاش میں نکلا ہوں جی۔ مسافر کو سمجھ نہیں آئی کہ اس جواب پر ان سب کے چہروں کی درشتی باقاعدہ ناگواری میں کیوں بدل گئی۔ ان میں سے سب سے معمر نے کہا خدا کے رستے پر اور بغیر داڑھی ٹوپی کے۔ ؟۔ مسافر سوچنے لگا کہ کیا خدا نے اپنی نشانیوں پر غور کرنے کے لیے داڑھی اور ٹوپی کی شرائط رکھی ہیں؟۔۔۔ابھی وہ یہ سوچ ہی رہا تھا کہ ایک باریش جوان آگے بڑھا اور بڑے تضحیک آمیز لہجے میں بولا۔ اس میں کیا ہے اوئے۔ ؟ مسافر سمجھنے سے قاصر تھا کہ آج جنہیں پہلی بار مل رہا ہے انہیں اس سے اتنی مخاصمت ہے کیا کہ چہروں پر ناگواری ، لہجوں میں کڑواہٹ اور زبان پر بد اخلاقی۔ اوئے توئے ابے۔ بہرحال مسافر کو اسکے ماں باپ نے بچپن ہی سے برداشت کرنے کی تربیت دی تھی۔ کہنے لگا یہ عقل کی پوٹلی ہے جی۔۔۔

کہنے لگے یہاں پر تلاشی لی جائے گی۔ گٹھڑی کھولو۔ مسافر حیران ہوا۔ اس نے گٹھڑی سر سے اتار کر زمین پر رکھ دی۔ کہنے لگے کھولو اسے۔ اس نے گرہیں کھولنی شروع کیں اصل میں تو “گرہیں” پہلے ہی کھل چکی تھیں۔

گٹھڑی کھلی تو سب زادِ راہ دیکھ کر تمسخر اڑانے لگے ، ایک ایک چیز کا نام لیتے جاتے اور وحشیانہ قہقہے بلند کرتے  جاتے ۔ تدبر ، ہا ہا ہا ۔ تفکر ہا ہا ہا ۔ تحقیق ہی ہی ہی ہی، علمیت ۔ ہو ہو ہو ہو ۔۔۔۔۔

شدید خفت کے عالم میں مسافر نے کہا اب میں جاؤں جی ؟ اور یہ کہتے ہوئے ہاتھ گھٹڑی کی طرف بڑھایا ہی تھا کہ سامنے سے درشت لہجے میں آواز آئی کہاں چلے ؟ مسافر نے کہا جی آگے خدا کے رستے پر۔ کہنے لگے اگر آگے جانا ہے تو یہ عقل یہیں پر رکھ کر جانا پڑے گا۔ اس محصول چونگی سے آگے یہ سامان نہیں لے جا سکتے۔۔۔

مسافر کہنے لگا لیکن پھر میں خدا کی نشانیوں پر غور وفکر کیسے کروں گا ، تدبر کیسے کروں گا ، فہم و فراست کو بروئے کار لا کر خدا پر شعوری ایمان کیسے لاؤں گا۔ میں عقل یہاں چھوڑ کر آگے نہیں جا سکتا ؟

جواب ملا تو واپس چلا جا۔۔۔۔ مسافر حیران رہ گیا۔۔سوچنے  لگا انکا دعویٰ تو خدا کے رستے پر لوگوں کو لانے کا ہے پر یہ تو  الٹا خدا کے رستے سے بھٹکانے لگے۔ یہ خود کو انبیاء کے وارث کہتے ہیں۔ مگر انکا عمل تو علم سے متضاد ہے۔ عشق تو معشوق کے رنگ میں رنگے جانے کا نام ہے پر یہ لوگ تو عشق کیا نسبت و رغبت سے بھی انجان ہیں۔ دینِ تطہیرِ باطن کو ظاہری نمود و نمائش کی چیز بنا کر اپنی محصول چونگیاں چلاتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

کہنے لگا آپ کا دعویٰ تو لوگوں کو خدا کے رستے پر لانا ہے آپ تو الٹا لوگوں کو راہِ خدا سے واپس بھیجنے لگے آپ تو خود کو انبیاء کے وارث کہتے ہیں عاشقِ رسول ص کہتے ہیں تو۔۔۔۔مسافر یہیں تلک پہنچا تھا تو یہاں ملائیت کا صبر جواب دے گیا اور مسلکی محصول چونگی سے کچھ لوگ آنکھوں میں خون لیے ڈنڈے پکڑے باہر نکلے اور مسافر کی طرف لپکے وہ خدا کے رستے سے واپسی کی طرف بھاگا۔ پیچھے گستاخ گستاخ کی خونخوار آوازیں بلند ہو رہی تھیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply