میلے کی بھیڑ میں گمشدہ نٹ کھٹ

۲۳ اور ۲۴ اپریل ۱۹۳۱ کی درمیانی رات ستاروں نے اپنی بدلتی چالوں کے ساتھ آسمان ادب پر ایک ماہتاب کے طلوع ہونےکی نوید دی ۔ ایک نوزائیدہ جو ولیم شیکسپئیر جیسے ادبا ء کے ساتھ اپنی تاریخ پیدائش کی نسبت سے بجا طور پر فخر کر سکتا ہے۔ کوٹ سارنگ، چکوال میں جنما یہ بچہ بچپن سے ہی اپنے ماحول اور فطرت کی بوقلمونیوں کو ایک تحیر اور بنظر غائر دیکھتا تھا۔ابھی 15 سال کا تھا کہ تقسیم کے پرآشوب دریا کو عبور کرتے ریلوے اسٹیشن پر ہونے والے بلوے کے دوران اپنی سب سے قیمتی متاع اپنے والد کو گنوا بیٹھا ۔ لٹا پٹا خاندان لدھیانہ میں شرنارتھی کی حیثیت سے اپنی زندگی کا نئے سرے سے آغاز کرنے پر مجبور ہوا۔ نوجوان ستیہ پال کے ناتواں کندھوں پر گھر کا بڑا ہونے کے ناطے ساری ذمہ داری آن پڑی۔لکھنے پڑھنے کا شغف ایک بک اسٹور پر معمولی ملازمت کا سبب بن گیاجہاں کتابوں سے گرد جھاڑتے، انہیں گاہکوں کو دکھاتے ،ترتیب سے رکھنے اور فرصت ملنے پر انہی کتابوں سے علم کی پیاس بجھا لینا ، ساتھ ساتھ پرائیویٹ تعلیم بھی چلتی ۔ لکھنے کی طرف مائل ہوا تو اس کے پیچھے علمی رجحان کے ساتھ ساتھ معاشی پہلو بھی زیر نظر تھا کہ ہر لکھا ہوا صفحہ کچھ آمدنی کا ذریعہ بنتا تھا اور زندگی کی گاڑی کو رواں رکھنے میں تیل کا کام کرتا تھا۔ تعلیم کا سلسلہ آہستہ آہستہ قدم قدم چلتے بالآخر انہیں تدریس کی منزل تک لے گیا جہاں انہیں یکسوئی سے ادب پر توجہ دینے کا موقع ملا ،ڈبل جاب دن رات جب فرصت ملتی وقت لکھنے پڑھنے میں گزارنا ہی مشغلہ ٹھہرا۔تب ایک صفحہ لکھنے کے اوسطاََ 10 روپے ملتے تھے، بتاتے ہیں کم و بیش 10 ہزار صفھات لکھے ہوں گے جس سے حاصل شدہ اضافی آمدنی بچوں کو اچھی تعلیم اور گھر کی دیگر ضروریات پر خرچ کی جاتی ،قلیل تنخواہ میں تو انسان تعیشات کا سوچ سکتا ہے خرید نہیں سکتا۔
سال گذشتہ جب میں نے ان کی آن لائن آپ بیتی “کتھا چار جنموں کی” پڑھنی شروع کی تو یہ کتاب ان سے صحیح معنوں میں تعارف کا سبب بنی۔فیس بک پر انہیں دوستی کی درخواست بھیجی جو انہوں نے کمال مہربانی کرتے ہوئے منظور کی ،خوشی خوشی بیگم کو بتایا کہ آج ستیہ پال جی نے ہمیں شرف دوستی بخشا ہے تو بیگم خوش ہوتے ہوئے بولیں “اچھا ہے اب نئے ڈیزائن کے کپڑوں کا مارکیٹ سے پہلے پتا چلتا رہے گا” ،وہ عفیفہ ڈاکٹر صاحب کو فیشن ڈیزائینر Satyapaulسمجھ بیٹھی تھی ۔ڈاکٹر صاحب سے تذکرہ کیا تو دیر تک ہنسے۔
ستیہ پال آنند جو 86برس کا ایک شریر نٹ کھٹ ہے جسے اپنی دھرتی ،اپنی مٹی سے عشق ہے ۔ جوآج بھی اپنے آپ کو پاکستانی کہتا اور سمجھتا ہے اور اس نسبت سے فخر کرتا ہے۔ہندوستان ہجرت تاریخ کا ایک جبر تھا جس پر اس معصوم اور خوبصورت انسان کو مجبور ہو کر جانا پڑا اور اسے اپنا ٹھکانا بنانا پڑا مگر دل آج بھی ان گلیوں اور گھروں کی چوکھٹ کی جانب ہمکتا ہے جہاں اس کا بچپن، ان کے پرکھوں کی زمین،کاروبار تھا۔ دیس سے نکلے ضرور مگر دل سے دیس کبھی نہیں نکلا ۔ (ہر دیار غیر میں مقیم فرد کی یہی کہانی ہے)۔باغ وبہار ، خوش گفتار ،نٹ کھٹ ستیہ پال آنند جس کی معیت میں آپ کبھی بور یت کا شکا ر نہیں ہوسکتے،میر محفل بھی ، جان محفل بھی اور روح محفل بھی کچھ ہوں ان کی ذات میں یوں اکٹھا ہوگیا ہے کہ جہاں جاتے ہیں رونق لگا لیتے ہیں۔طویل العمری اور صحت کا راز انہوں نے بتایا کہ میں نے کبھی دل میں بغض و حسد کو جگہ نہیں دی،ہمیشہ سب کو معاف کردیا۔ ان کے چہرے پر کھلتی معصوم ، دل موہ لینے والی شرارتی مسکان اس کی غماز ہے ۔
چار ملکوں کا شہری ،نگر نگر کھومنے والا یہ نٹ کھٹ آج بھی دنیا کی بھیڑ میں کھوئے ہوئے اس بچے کی طرح ہے جس کا دل بچپن کی معمولی کھلونوں میں اٹکا ہوا ہے اور آج کے دور کی مہنگی اشیا ان بے قیمت کھلونوں کے مقابلے میں ہیچ ہیں۔دنیا کی نامور یونیورسٹیوں میں پڑھانے اور مسلسل حالت ِسفر میں رہنے کی بنا پر انہیں پیار سے ائر پورٹ پروفیسر بھی کہا جاتا ہے۔اردو ادب کی خدمت میں آج بھی اپنے آپ کو اس طرح مصروف رکھتے ہیں کہ ان کے اسٹیمنا کو دیکھ کر یقیناََ ہم جوانوں کو شرم محسوس ہوتی ہے۔ان کے اپنے بچے کہتے ہیں کہ پاپا کماتے انگلش سے ہیں اور سارا کچھ خرچ اردوپرکر دیتے ہیں،۔50 کتابیں اردو اور انگریزی میN لکھنا کوئی ایک برس دو برس کی بات نہیں نصف صدی سے زائد کا قصہ ہے ،کتنے درد و غم جمع کرکے انہوں نے دیوان کیا ہے،ہمیں تو سوچ کر ہی ہول آنا شروع ہو جاتا ہے ۔ مگر یہ ان کا ہی جگر ہے جسے دن رات جلا کر اس دور میں روشنی پھیلا رہے ہیں۔
مجھے اپنی پہلی نظم ڈاکٹر صاحب کو دکھانے کا شرف حاصل ہوا جسے انہوں نے جانفزا کہہ کر اس مبتدی کا حوصلہ اور دل بڑھایا ۔ایک مشفق استاد کی یہی خوبی ہوتی ہے کہ نوآموزوں کی دل شکنی کی بجائے انہیں سیکھنے اور آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتے ہیں۔مکالمہ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اسے پہلے دن سے ڈاکٹر صاحب کی سرپرستی حاصل ہے اور ان کی تخلیقات و تصنیفات مکالمہ کے صفحات کی زینت بن رہی ہیں، خامہ بدست غالب سلسلہ کی نظمیں ہوں یا تتھاگت نظموں میں شاگرد آنند کا اپنے استاد گوتم بدھ سے سوال و جواب ہوں،ہر ہفتے ان کی نظمیں شائع کرنا میرے لئے اور مکالمہ کے لئے ایک ایسی سعادت ہے جس پر جتنا بھی فخر کیا جائے کم ہے۔مکالمہ گروپ اور یہ احقر، ڈاکٹر صاحب کے جنم دن پر ان کو ڈھیروں مبارکباد کا ہدیہ پیش کرتا ہے گر قبول افتد۔اور دعا گو ہے کہ آپ کا سایہ ہمارے سروں پر سلامت رہے اور آپ سے سیکھنے کا یہ عمل یونہی جاری و ساری رہے ۔ایک مختصر نظم ڈاکٹر صاحب کی سالگرہ کے موقع پر پیش خدمت ہے
اک من موہک پریم رتن
مشک ختن،شیریں دہن
اک مشفق استاد ،اک علم کا دریا
سمے جس پر اپنا کوئی نشاں
ڈال نہ سکا
اک گھنیر ،شجر سایہ دار
جس کی چھتر چھایا سے
اپنے بیگانے سب ہوں مستفید
اک چشمہ رواں جس کا فیض
قریہ بہ قریہ یم بہ یم

Facebook Comments

احمد رضوان
تیشے بغیر مر نہ سکا کوہکن اسد سرگشتہ خمار رسوم قیود تھا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply