برگِ سبزیست تحفہء درویش۔۔۔۔احمد رضوان

ڈاکٹر خالد سہیل پیشے کے اعتبار سے ایک مستند سائیکیٹرسٹ ہیں اور تیشےکے استعارے سےوہ فرہاد جو شیریں سخن ہیں ۔  خود کو ہیومنسٹ قرار دیتے ہیں یہاں تک کہ اپنی گاڑی کی نمبر پلیٹ پر بھی یہی لکھوا رکھا ہے تاکہ سند رہے۔ جب کہ میں انہیں ہیومنسٹ سے زیادہ فیمنسٹ قرار دیتا ہوں ۔ پنجابی میں” بیلی” یار یا دوست کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔اسی نہج پر اگر میں رعایت لفظی کا سہارا لوں  اور ڈاکٹر صاحب کی افتاد طبع کے مطابق زرا تحریف سے کام لوں تو انہیں ڈاکٹر خالد سہیلی  کہہ کر پکارنا پسند کروں گا کیونکہ جس طرح یہ دکھ سکھ پھرولتے ہیں وہ کسی گُوڑی (پکی)سہیلی کا ہی کام ہوتا ہے ۔ برسبیل تذکرہ راقم اپنے دورِ ناکتخدائی  میں فیمنسٹ اور فیمنزم کو فیمن یعنی قحط سے مشتق قحط النسا   کی  شکل  ہی سمجھتا رہا وہ تو بھلا ہو” می ٹو موومنٹ “والوں کا کہ انہوں نے اب جاکر اپنے چشم کشا بینروں سے اصل مفہوم تک رسائی میں مدد فراہم کی۔ڈاکٹر خالد سہیل کی ہمہ جہت اور متنوع شخصیت اپنی ذات میں ایک انجمن کا وجود رکھتی ہے ۔ دنیا انہیں باریش دل ریش درویش  کہہ کر مخاطب کرتی ہے۔بقول ولی دکنی

عشق کے ہاتھ سوں ہوئے دل ریش
جگ میں کیا بادشاہ کیا درویش

عام ڈگر سے اِنحِراف ان کی  فطرت ثانیہ کا جزو لاینفک بن چکاہے۔یہ ماڈرن درویش جدید دنیا کا باسی ہے اور تازہ ہوا کا جھونکا بن کر بے شمار لوگوں کی زندگی  کے چمن میں بہار  یں لا چکا ہے ۔  درویشی میں عام طور پر اُوبڑ کھابڑ  راستوں پر چلنا پڑتا ہے ۔ اپنے من میں ڈوب کر سراغ زندگی پایا جاتا ہے ۔درویش  آسانی سے کسی کو  اپنا دامن   تھامنے نہیں دیتے۔ان کے در تک رسائی   جبہ سائی کے بنا نہیں ملتی۔ دولت  فقر  تسہیل کے ساتھ  نہیں دیتے۔ مگر یہ روایت شکن   ماڈرن درویش اتنا ہی آسان فہم اور سہل الحصول ہے۔سگمنڈ فرائڈ ان کی  پہلی محبت ہے ،شکر ہے آخری نہیں ہے بلکہ یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔

ڈاکٹر خالد سہیل

 

بچپن سے ہی خانگی حالات نے ان میں فلسفیانہ اور صوفیانہ خیالات کی شدھ بدھ پیدا کردی تھی ۔ان کے والد بزرگوار ٹکٹکی باندھے آسمان کو تکا کرتے تھے اور شنید ہے کہ آسمان والے سے روز و نیاز کی باتیں کیا کرتے تھے۔ ان کا لخت جگرماڈرن درویش نظر اٹھاکر بھی آسمان کو نہیں دیکھتا ۔ کسی کے نقش کف پا  پر نہیں چلتا اور قدرت کی نشانیوں پر یقین رکھتا ہے ۔پہلی بغاوت کی نیو تب رکھی گئی جب انہیں لڑکپن میں خطِ سبزہ کے بڑھ جانے پر جھاڑ جھنکار کو صاف کرنے کا کہا گیا  ۔  ضد میں آکرانہوں نے  پھر ساری زندگی استرا اپنے چہرے سے لگنے نہیں دیا۔ہاں قینچی سےداڑھی مونچھیں ترشوانے کے گناہگار ضرور ہوئے۔روایت شکنی کی یہ خُو انہوں نے اپنے چچا عارف عبد المتین سے پائی  جنھوں نے نوجوان خالد سہیل کو تب ہی بتا دیا  تھا بقول امیر خسرو” بہت کٹھن ہے ڈگر پنگھٹ کی “مگر یہ بھی دُھن کے پکے اورجذبوں کے سچے تھے۔روایت شکن درویش   خرقہ پوش نہیں سوٹڈ بوٹڈ رہتا ہے ۔کھانے میں  سالمن اور ٹراؤٹ مچھلی اور بھنڈی بہت پسند کرتا ہے۔سالمن ، ٹراؤٹ اس لئے کہ وہ  یخ بستہ پانی  میں بہاؤ کے الٹ تیرتی ہیں جبکہ بھنڈی کی پسندیدگی کی وجہ  بھی یہی سمجھ آتی ہے کہ وہ  اپنی انفرادیت پر قائم رہنے کے لئے کسی اور سبزی کا اشتراک پسند نہیں کرتی ۔

یہ درویش میوہ دار بھی ہے اور  ڈیرہ دار بھی۔  درویشوں  کےڈیرہ پر صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لئے ۔یہاں طرز رومی پر “رقص صوفیانہ” تو نہیں کیا جاتا ہاں درویش اور درویشنیاں اپنا  حال ِدل   بزبان خطوط ایک دوسرے  کو سناتے ہیں۔ پہلے زمانوں میں درویش  برگ سبز یعنی پان اور برگ تاک یعنی انگور کا پتا پیش کیا کرتے تھے اور فارسی کہاوت تھی ” برگ سبزیست تحفہ درویش “۔دور جدید میں آج کل ماڈرن درویش گرین زون تھیراپی کرکے مسیحائی کیا کرتا ہے۔درویشوں کے ساتھ سبز رنگ کا تعلق مضبوطی کے ساتھ کہیں نہ کہیں ضرور استوار  ہے۔ اوراق سبز ہوں یا سبز چولا۔بلکہ یہ تو سبز قدم سمجھے جانے والے لوگوں کا مقدر بھی درست کرنے کی صلاحیتوں سے مالا مال ہوتے ہیں۔اس سے پہلے  کہ یہ تاثر پھیلے کہ صاحب مضمون کو ساون کے اندھے کی طرح صرف ہرا ہی سوجھتا ہے  ،بات کو اس ماڈرن درویش کی طرف ہی رکھتے ہیں ۔

ہم الٹے بات الٹی یار الٹا” کہتے ہیں”

ڈاکٹر خالد سہیل کی تازہ ترین کتاب میں بھی یہ روایت شکنی  بخوبی برقرار ہے ۔

عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ کالم نگار اپنا لکھنےکا سفر جاری رکھتے ہوئے ادب اور کتابیں لکھنے تک پہنچ جایا کرتا ہے۔ہم اس کی مثالوں میں گبریل گارشیا مارکیز، آرٹ بکوالڈ و غیرہم کو پیش کرسکتے ہیں ۔ روایت کے باغی درویش نے اس کے الٹ انتخاب کیا ہے ۔پہلے شاعری اور افسانے لکھ کر اپنی ادبی شناخت قائم کی پھر تراجم ، سماجی ،نفسیاتی موضوعات پر کتابیں لکھیں اور سب سے آخر میں کالم نگاری کی طرف اپنی کشتی کا رخ موڑ دیا ۔بقول حسرت موہانی شاعری عاشقانہ، محبوبانہ ، فلسفیانہ،عالمانہ ،سوقیانہ ہوتی ہے بجنسہ کالم نگاری بھی ہر طرح کے رنگ لئے ہوئے ہوتی ہے ۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے قاری کی سہولت کے لئے اپنی کتاب میں کالموں کو خود ہی نفسیاتی ،سماجی، ادبی اور فلسفیانہ حصوں میں تقسیم کرکے قاری کو اس بھاری پتھر کو چوم کر چھوڑ دینے کے کشٹ سے بچا لیا ہے ۔آدرش میں شامل کئے گئے تمام کالم بہت عمدگی سے ڈاکٹر خالد سہیل کی ذات و صفات کی جستہ جستہ جھلکیاں فراہم کرتے ہیں وہیں قاری کو ان میں سے عقل و دانش اور زندگی کے تجربات کا نچوڑ  کشید کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ ایک بلاگنگ ویب سائیٹ کے مدیر ہونے کی حیثیت سے میں ان  تمام کالمز کو بہت  پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتا ہوں  کیونکہ ان کالمز سے مجھےبہت کچھ سیکھنے کو  ملا۔

آخر میں یہی کہوں گاکہ ادیب کواپنی کِتاب بھی اولاد ہی کی طرح پیاری  ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے ڈاکٹر صاحب کثیر العیال ہیں۔ مقام شکر ہے یہ کثیر العیالی  تعدد ازواج کی مرہون منت نہیں ہے۔اس تخلیقی وفور کا اصل سر چشمہ  اردو اور انگریزی والی وہی دونوں میوز ہیں  جو ہر رات شبستانِ درویش میں حاضری دیتی ہیں اور ان کے ذہن رسا کو تخلیق کاری پر اکساتی ہیں ۔ڈاکٹر صاحب کو ان دونوں کی معیت میں شب بسری بہت بہت مبارک۔ امید ہے  یہ تخلیقی چشمہ یونہی جاری و ساری رہے گا ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ڈاکٹر خالد سہیل کے کالمز پر مشتمل کتاب کی آن لائن  تقریب اجراء میں پڑھا گیا ۔

 

 

Facebook Comments

احمد رضوان
تیشے بغیر مر نہ سکا کوہکن اسد سرگشتہ خمار رسوم قیود تھا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply