کیا افغان ہندو النسل ہیں ؟/منصور ندیم

افغانستان کے لوگ اپنی قبل از اسلام تاریخ کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے، یا واقعی جاننا نہیں چاہتے اور ماننا بھی نہیں چاہتے، وہ اصل تاریخ جو اسلامی دور کے بعد اٹھارویں صدی تک تاریخ میں پشتون حکمرانوں کی نسل پرستانہ روش کی وجہ سے بھلا دی گئی ہے (یہ کہنا غلط نہ ہو گا)۔ اسکول اور یونیورسٹی کی نصابی کتابوں میں کچھ عرصہ قبل انہوں نے اپنی قدیم تاریخ میں انہوں نے کشان سلطنت اور شہنشاہ کنشک کی تعریف میں نصاب شامل کیا ہے، پہلی صدی عیسوی یعنی اسلام آنے سے پہلے شہنشاہ کنشک نے افغانستان میں ایک عظیم سلطنت قائم کی، کنشک کا تعلق شمال مشرقی افغانستان کے صوبہ تخارستان سے تھا۔ وہ کشان یا کوی سانگ کے قبیلے سے تھا (چینی ذرائع کے مطابق)۔ یہ یوچی قبائل کی ایک شاخ ہے جو مختلف سیتھیائی (ساکا) نسل میں سے ہے، اور اسے برصغیر پاک و ہند تک پھیلایا، کیونکہ اس نے اس وقت ہندوستان سے ثقافتی تبادلے اور تجارت کی راہ ہموار کی تھی۔

اس خطے میں آج افغان اپنے ہندو ماضی سے انکار کرتے ہیں۔ اس خطے میں عام طور پر لوگ یہ نہیں جانتے کہ افغانستان کسی ایک قوم/نسل پر مبنی نہیں ہے، جیسے ترکی، بنگلہ دیش یا روس وغیرہ۔ دراصل افغانستان مختلف نسلوں کا مجموعہ ہے اور یہ تمام نسلیں ایک قوم بناتی ہیں جسے افغانستان کہا جاتا ہے۔ افغانستان میں 4 اہم نسلی گروہ ہیں۔ (1) پٹھان، (2) تاجک، (3) ہزارہ، (4) ازبک
باقی اقلیتی گروہ ہیں جیسے کازک، ترکمان، نورستانی، گجر، بلوچی وغیرہ۔یہ تمام نسلیں ایک دوسرے سے مختلف مذہبی ماضی رکھتی ہیں۔ان میں سے ہم صرف پشتون پر بات کریں گے عموما افغانستان کی ملکیت اور قوم پرستی کا متعصبانہ رویہ ان میں سب سے زیادہ اثر پذیر ہے۔ باقی تاجک، ازبک، ہزارہ، ترکمان اور نورستانی وغیرہ کو افغانستان میں فارسیبان کہا جاتا ہے کیونکہ ان کا تعلق فارسی سے ہے اور وہ فارسی بولی کے نام دری بولتے ہیں۔ تاریخی ریکارڈ کے مطابق وہ ماضی میں زیادہ تر بدھ مت اور زرتشتی تھے۔ بدھا کا عظیم مجسمہ اور زرتشتی مذہب کے کھنڈرات صاف ظاہر کرتے ہیں کہ وہ ماضی میں بدھ مت اور زرتشتی تھے۔

پٹھان/پشتون
پٹھان ماضی میں بغیر کسی شک کے ہندو تھے۔ وہ ہندو دیوی نام گندھاری اور ہندو بھگوان رام کی پوجا کرتے تھے، جب محمود غزنوی نے انہیں فتح کیا تو اس وقت پٹھان کٹر ہندو تھے اور تاریخی ریفرنسز کے مطابق غزنوی نے انہیں مسلمان بنایا تھا۔ بعد میں انہوں نے اپنے ہندو ماضی کو مٹانے کی کوشش کی اور فرضی اور خیالی کہانیاں تخلیق کیں۔ جن میں سے ایک انتہائی معروف قصہ پٹھانوں نے افسانوی شخصیت قیس عبدالرشید کی تخلیق کی۔ ان کے مطابق وہ پیغمبر اسلام کے پاس گیا اور اسلام قبول کیا۔ جب غزوہ بدر ہوا تو پٹھان آئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام پٹھان رکھا۔ یہ کہانی واضح طور پر خود ساختہ ہے۔ ان کے پاس نہ تو قیس عبدالرشید کا ایک بھی تاریخی ریکارڈ ہے اور نہ ہی ان کی خیالی فوج، مزید قوم پرستوں نے ایک اور کہانی بنائی کہ مشہور اصحابی رسول خالد بن ولید جو خالص عرب تھا دراصل پٹھان تھا۔ یعنی ماضی اتنے ہلکی باتوں سے تو نہیں بدلا جا سکتا، اگر یہ واقعہ اتنا ہی درست ہے تو قیس کا واقعہ عرب کی کسی تاریخ میں موجود ہیں ہے، بلکہ آج سے چار سو سال پہلے تک اس قصے کا کوئی وجود کسی تاریخی ریفرنس میں نہیں ہے۔ مزید یہ کہ پٹھان ماضی میں ہندو ہی تھے اب بھی ہندو پٹھان موجود ہیں لیکن مسلمان پٹھان انہیں پٹھان نہیں مانتے کیونکہ اس سے ان کے ہندو ماضی پر حرف آجائے گا۔ یہ جتنے ریفرنس دیں گے آپ کو قریب دنوں کے لکھے گئے واقعات کی تاریخ کی بنیاد پر دیں گے۔

اپنی شناخت سے انحراف یا خود ساختہ شناخت بہرحال ایک عجیب معاملہ ہے، پشتون مورخ ہمیشہ ماضی کے بارے میں بات کرتے وقت سیاسی اور نسلی وجوہات کی بنا پر صرف اٹھارویں صدی کے بعد کی تاریخ کا سراغ لگاتے ہیں۔ شاید وہ یہ تسلیم نہیں کرنا چاہتے کہ یہ افغانستان پختونوں کے علاؤہ بھی اس خطے میں بسنے والے تمام نسلی گروہوں کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ وہ افغانستان میں فارسی زبان اور ترکوں کی عظیم تاریخ کو نظر انداز کرتے ہیں، (کوشانوں، ہپتالیوں، غزنویوں، غوریوں، تیموریوں وغیرہ کی فتوحات کی کوئی خبر نہیں ہے)۔ دوسری بات یہ کہ اس خطے میں مستقل جاری جنگوں کی وجہ سے افغانستان کو اپنی تاریخ دوبارہ پڑھنے کا موقع نہیں ملا۔ افغانستان کے 57% لوگ ناخواندہ ہیں اور لوگوں میں تاریخ میں دلچسپی پیدا کرنے میں وقت لگتا ہے، اور نسلی احساس تفاخر اس کے علاوہ ہے، افغانستان میں مروجہ اسلامی جذبے کے پیش نظر، کچھ انتہا پسندوں کو اسلام سے پہلے کی تاریخ بیکار لگ سکتی ہے، یا کچھ سوچ سکتے ہیں کہ ماضی نے ہمارے لیے کیا کیا ہے اور ان کے نزدیک مسائل کے حل کے لیے تاریخ کا کوئی فائدہ نہیں۔ یہاں تک کہ وہ افغانستان میں قوم سازی اور متحد قوم کے قیام کے لیے تاریخ کی افادیت پر یقین نہیں رکھتے۔ ان مسائل کے پیش نظر افغانستان کا پڑھا لکھا طبقہ اور تاریخ دان باوجود اس کے کہ کشان سلطنت کی تعریف کرتے ہیں اور ملک میں قومی جذبہ پیدا کرنے کے لیے تاریخ کو دوبارہ پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اس میں بہت سی رکاوٹیں ہیں۔

اسلام آنے کے بعد مقامی لوگوں نے تمام قدیم کتب خانے، مخطوطات اور پتھر کی تختیاں تباہ کردی تھیں۔ زرتشتیوں اور بدھ مت کے مندروں کو زمین بوس کر دیا گیا تھا، جو ایسے مندروں کی دیواروں پر صحیفوں کی شکل میں تاریخی واقعات کے تاریخی ذخیرے تھے۔ اس طرح ہمارے پاس اسلام سے پہلے افغانستان کی تاریخ کا بہت کم علم رہ گیا ہے۔ اس طرح تاریخ فراموشی کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ چونکہ اسلام وسطی ایشیا، ایران اور ہندوستان میں پھیل چکا تھا اور وہاں بھی قدیم کتابوں اور یادگاروں کی اس طرح کی بے دریغ تباہی کی گئی تھی اس لیے ہمسایہ ممالک کی کتب میں افغانستان کے واقعات کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔ پشتون اشرافیہ جو اسوقت حکمرانی کر رہے ہیں انہیں نہ تو تاریخ کا کوئی احساس ہے، اور نہ ہی افغانستان میں قبل از اسلام ہونے والی کسی بھی حقائق کی قبولیت کا کوئی رجحان ہے، شاید صرف 10% افغان کنشک کے بارے میں جانتے ہیں اور صرف 1% اس پر فخر کرتے ہیں۔ آج دنیا کنشک کے بارے میں ہصرف ان کے سکوں اور چینی ذرائع میں اس کے بارے میں کچھ ریکارڈز کے ذریعے جانتے ہیں۔ موجودہ حکومت کا تو یہ حال ہے کہ خدشہ یہ ہے کہ اگر اب کنشک سے متعلق کوئی بھی یادگار یا پتھر کی تختی دریافت ہو گئی تو اس کا بھی وہی حشر ہو گا جو بامیان بدھ کا ہوا تھا۔ ویسے افغانستان میں شاید بہت سے لوگ ہیں جو اب اپنے بچوں کے نام کنشک کے نام پر رکھ رہے ہیں۔ لیکن یہ ازبک اور تاجک ہیں پشتون نہیں ہیں۔

میرا ماننا ہے کہ انتہا پسندانہ نظریات پر قابو پا کر، قوم پرستی اور تعصب سے نکل کر افغانوں کو ملک میں خواندگی کی شرح میں اضافہ کرنا چاہئے، سیاحت میں اضافہ کریں اس کی واحد صورت آثار قدیمہ کے مطالعے اور آثار قدیمہ کی معاونت سے اپنی قدیم تہذیب تک رسائی سے ہی ہوگی، وہ افغانستان جو ساتویں صدی سے پہلے تھا، اس پر دستاویزی فلمیں اور تاریخی ڈرامے بنا کر، برصغیر پاک و ہند کے ساتھ تعلقات کو فروغ دے کر اپنے اجداد کشانوں کی عظمت اور کارنامے جاننے میں کیا حرج ہے، جیسے آج پورا عرب اپنے خطے کی قدیم تہذیبوں پر بات کر رہا ہے انہیں قبول کر رہا ہے۔ آپ بلا وجہ پنجابیوں کو سکھوں کی اولاد کا طعنہ دیتے ہو حالانکہ آپ خود بھی ہندوؤں کی اولاد ہی ہو۔ اور کسی بھی نسبت سے آپ کسی کی بھی اجداد میں سے ہو سکتے ہیں یہ کوئی تحقیر کا معاملہ تو نہیں ہے۔ قابل تعریف ہوگا کہ نئی نسلوں کے افغان اب اپنے ماضی کے درست حقائق سے روشناس ہوں۔

Advertisements
julia rana solicitors

نوٹ:
1- کشان سلطنت کا تاریخی نقشہ تصویر میں موجود ہے۔
مجھے معلوم ہے کہ کچھ متعصب لوگ حقائق کے بجائے یہاں ذاتی تعصب دکھائیں گے۔ ویسے میرا لکھا یا جمع شدہ مواد آخری و حتمی بالکل نہیں ہے اگر آپ کے پاس اس کے مقابل تاریخی شواہد موجود ہیں تو دے سکتے ہیں مجھے قبول کرنے میں کوئی اعتراض نہیں ہے۔
2- پوسٹ میں ہندو دیوی گندھاری کا ذکر ہے، آج افغانستان کا معروف شہر قندھار، اسی گندھاری کے نام سے منسوب ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply