• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ستائس دسمبر یومِ شہادت”بینظیر بھٹو”ایک بہادر اور نڈر بیٹی۔۔۔نسا لاڑک

ستائس دسمبر یومِ شہادت”بینظیر بھٹو”ایک بہادر اور نڈر بیٹی۔۔۔نسا لاڑک

جمہور کی لڑائی میں انقلابی کبھی بھی پیچھے نہیں ہٹے،تحریک بحالی جمہوریت میں جمہوریت پسند کارکنان کی بہت بری قربانیاں شامل ہیں۔انہوں نے اپنی فکری اور عملی جدوجہد میں قافلہ جمہور کو ہمیشہ جلا بخشی۔جب کبھی بھی جمہور پر آمریت کے بادل منڈلائے تو اس کے خلاف عوامی قوتوں نے اپنے انقلابی رہنماؤں کی قیادت میں عوامی جنگ لڑی۔ آمریت کے خلاف جان دی اور جمہور ی جنگ پر اپنا ایمان قائم رکھا۔ دنیا کی عوامی تحریکوں میں ایسے انقلابی رہنماؤں کی بہت سی مثالیں ہیں۔ بہت سے نام گنوائے جا سکتے ہیں۔ دنیا کی انقلابی تحریکوں پر نظر ڈالی جائے تو روزالکسم برگ سے لیکر کروپسکایا تک ایسی بہت سی انقلابی خواتین ہیں، جنہوں نے جنہوں نے اپنی زندگیاں عوامی انقلابی تحریکوں پر قربان کرکے ایک عورت کے طور پر خواتین جدوجہد کے لیے اپنی مثال قائم کی۔

پاکستان میں جمہور یت دشمن قوتیں آسیب کی طرح جمہوری نظام کے پیچھے پیچھے رہی ہیں۔ مگر جمہوریت پسند کارواں کے جیالوں نے عوامی جدوجہد سے اسے شکست فاش  دی  ہے۔ ایسی عورت انقلابی رہنما جس کو تاریخ ہمیشہ شہید بینظیر بھٹو اور، وادی سندھ کی تہذیب اسے ”شہید رانی“ کے نام سے یاد رکھے گی۔شہید رانی نے شہادت قبول کی لیکن جھکنا نہیں سیکھا۔یہ دسمبر اسی بینظیر کی یاد لیکر آگیا ہے۔آئیے انہیں ان کی عظیم جدوجہد پر خراج تحسین پیش کریں۔

شہید رانی جس کی تعریف مخالفین بھی کرتے ہوئے نہیں تھکتے۔ وہ جو اپنے چہرے پر مسکراہٹ سجائے رکھتی تھیں، انقلابی قیادت ان کے لہو میں شامل تھی۔ایک ایسی بیٹی جو نہ صرف سندھ، بلکہ تمام عالم میں مظلوم خواتین کو لڑنے ککا جو سلیقہ خوش اسلوبی سے سکھا گئی۔اسے آج پورے عالم کی باشعور عوام بڑی شان اور مان سے یاد رکھتی  ہے۔وہ کہ جس نے ہمارے ملک کی عورتوں کو اپنے کردار سے یہ یقین دلایا کہ ماں، بیٹی اور بیوی ایک عورت کے طور کبھی بھی، کہیں بھی، کوئی بھی منصب حاصل کرسکتی ہے۔ ایک ایسا ملک جہاں عورت پر مختلف پابندیاں عائد ہوں وہاں پر بھی عورت اپنا زورِ بازو دکھا کر اپنے آپ کو منوا سکتی ہے۔
21 جون 1953ع کوسندھ کہ مشہور سیاسی گھرانے،بھٹو خاندان میں پیدا ہونے والی محترمہ بینظیر بھٹو صاحبہ، ذوالفقار علی بھٹو کی بڑی صاحبزادی تھیں۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم لیڈی جیننگز نرسری  سکول اور کنونٹ آف جیسز اینڈ میری کراچی میں حاصل کی، اس کہ بعد دو سال تک راولپنڈی پریزنٹیشن کنوینٹ میں بھی تعلیم حاصل کی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی خواہش تھی کہ بینظیر ان کی طرح ہارورڈ اورآکسفورڈ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کریں۔ قائد عوام کی خواہش کہ مطابق انہوں نے ہارورڈ یونورسٹی سے پولیٹکل سائنس میں گریجویشن کیا، اور آکسفورڈ یونیورسٹی سے سیاسیات و معاشیات میں ایم اے کیا۔ یونیورسٹی کہ دوسرے سال کے دوران وہ یونیورسٹی یونین کی صدر منتخب ہوئیں، بنظیر بھٹو آکسفورڈ یونیورسٹی میں یونین کی صدر منتخب ہونے والی پہلی ایشیائی مسلمان خاتون تھیں، بینظیر نے نہ صرف پاکستان میں، بلکہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں بھی طلبہ کہ درمیاں اپنے آپ کو منوایا۔ بینظیر بہت اچھی مصنفہ بھی تھیں انہوں نے کئی کتابیں بھی لکھیں جن میں “دختر مشرق” ان کی مشہور تصنیف ہے۔

برطانیہ سے تعلیم حاصل کرنے کہ بعد وہ اس ارادے سے پاکستان واپس آئیں کہ ملک کے خارجی امور میں خدمات سر انجام دیں گی، مگر ان کہ پاکستان آنے کہ چند دن بعد جنرل ضیاء نے ذوالفقار علی بھٹو کو جیل بھیج دیا، ملک میں مارشل لا نافذ کردیا، اور ساتھ ہی محترمہ بینظیر بھٹو کوگھر کہ اندرنظربند کر دیا گیا۔ 1979ء ذوالفقار علی بھٹو کو قتل کا جھوٹا مقدمہ بناکر، ایک متنازع کیس میں میں سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے پھانسی کی سزا سنا دی گئی، یہ وقت محترمہ بینظیر بھٹو کہ لئے بہت کٹھن تھا۔ 3 اپریل 1979ء کو اپنے والد کے  ساتھ آخری ملاقات میں بینظیر بھٹو نے ان کے نظریات کوپروان چڑھانے کا عزم کیا اور پاکستان کو آمرانہ تسلط سے آزاد کرواکر اسے جمہوریت کی طرف گامزن کرنے کا بھی آغاز کیا۔ پہلی جلاوطنی کے  بعد جب بینظیر بھٹو پاکستان واپس آئیں تو لاہور ایئر پورٹ پران کا شاندار استقبال کیا گیا۔ 1987ء میں ان کی شادی آصف علی زرداری کہ ساتھ ہوئی۔ لیکن ان کی سیاسی جدوجہد میں اس رشتے سے کوئی منفی اثر نہیں پڑا۔رشتہ ِ ازدواج میں منسلک ہونے کے  باوجود وہ سیاسی جدوجہد کرتی رہیں۔ باپ کی شہادت کے بعد بھائی کو بھی شہید کیا گیا۔بھٹو خاندان کے خلاف یہ ایک سوچی سمجھی سازش تھی۔ بھٹو خاندان کو لوگوں کے دلوں سے نکالنے کی بھرپور کوشش کی گئی،بیگم نصرت بھٹو کو گرفتار کر کے  لاٹھیاں ماری  گئیں،دوسرے بھائی کو بھی مارا گیا ان کے  شوہر کو طویل عرصہ جیل میں رکھا گیا، وہ خود گرفتار ہوئیں،مگران مشکلات کے  باوجود ان کے  مشن میں ذرہ برابر بھی لغزش نہیں آئی وہ دلیرانہ انداز سے لڑتی رہیں اور باطل کو شکست دیتی رہیں۔ان کی ساری زندگی عوام کے حقوق اور جمہوریت کے لیے لڑتی رہیں،، ظالموں کے خلاف اور مظلوموں کے حق کے  لئے لڑتی رہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد محترمہ بینظیر بھٹو نے جیسے ہی قیادت سنبھالی تو انہوں نے سب سے پہلے کارکنوں کو منظم کیا۔

محترمہ بینظیر 1988 ء میں 35 سال کی عمر میں پہلی مرتبہ پاکستان کی وزیر اعظم منتخب ہوئیں، طویل عرصے   بعد جب ملک سے آمریتی نظام کا خاتمہ ہوا تو لوگوں نے سکون کا سانس لیا، اسلامی دنیا کی پہلی عورت وزیر اعظم بننے کا سہرہ بھی پاکستان کی واحد خاتون وزیر اعظم بینظیر بھٹو کوہی جاتا ہے۔ پیپلز پارٹی کی چیئر پرسن محترمہ بینظیر بھٹو وزیر اعظم کے  عہدہ سنبھالتے ہی عورتوں کے حقوق بحال ہونا شروع  ہو گئے۔

Advertisements
julia rana solicitors

آپ نے خواتین کے  لئے بڑے تعمیری منصوبے شروع کیے۔ ان کی حکومت سے مظلوموں کو فائدہ ہوا، لیکن ظالموں کو اپنا سکا منوانے کا کوئی موقع نہیں مل رہا تھا، اس لئے ان کی حکومت کو 20 ماہ میں ہی رخصت کر دیا گیا۔محترمہ بینظیر بھٹو اور آصف علی زرداری پر جھوٹے مقدمات کیے گئے ان کو گرفتار کیا گیا، ان کے حوصلے بہت بلند تھے،اسی لئے یہ مشکلات انہیں پیچھے ہٹانے کے  بجائے آگے لے آئیں۔ ان کی مسلسل جدوجہد اورلگن کی بدولت وہ 1999ء کو دوسری مرتبہ پاکستان کی وزیر اعظم منتخب ہوئیں۔بینظیر نے چاروں صوبوں کو یکجا کیا، جمہوریت اور ترقی کی طرف گامزن کیا۔ وہ محبت بھری شخصیت کی مالک تھیں۔ان کی زندگی عورت کے لئے فخر کا باعث ہے۔ وہ اچھی بیٹی، بہن، بیوی ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین ماں بھی تھیں۔ جب وہ پہلی مرتبہ وزیر اعظم بنیں تو بلاول بھٹو 2 ماہ کے تھے، ماں کی ذمہ داریوں نے ان کی سیاست اور جدوجہد پر کوئی منفی اثر نہیں ڈالا۔ وہ پہاڑ کی طرح ڈٹی رہیں، اورانہوں نے یہ ثابت کیا کہ بیک وقت ماں کی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ ایک عورت سیاسی ذمہ داریوں کو بھی سنبھال سکتی ہے۔ وہ کسی سے نہ ڈرنے والی خاتون تھیں۔ انہوں نے پیچھے نہ ہٹنے کا جو عزم کیا ہوا تھا۔ وہ چاہتی تھیں کہ ان کی پارٹی کے  ورکر بھی نظریاتی ہوں تاکہ مشکلوں کے آگے چٹان بن کر رہیں۔ انہوں نے اپنے کردار سے بہادری کا درس دیا۔ بینظیر بھٹو نے جمہوریت اور استحکامِ پاکستان کے  لئے مسلسل جدو جہد کی۔ 2002 ء کے  انتخابات میں پیپلزپارٹی کو بڑی کامیابی ملی، مگر محترمہ نے آمریت کے  زیرِ سایہ حکومت کرنا پسند نہیں کیا۔ 2007ء میں جب وہ 8 سال بعد دوبارہ  پاکستان آئیں تو ان کے جلوس پر کراچی میں دھماکے کیے گئے۔ اس دھماکے میں 150 کے  قریب لوگ جاں بحق ہوئے اورسیکڑوں زخمی ہوئے۔ اس حملے میں وہ محفوظ رہیں۔لیکن 27 دسمبر 2007 کو جب وہ لیاقت باغ میں جلسے سے واپس آرہی تھیں تو ان پر نامعلوم شخص نے فائرنگ کردی، ان کا ڈرائیور ان کو جلدی میں راولپنڈی جنرل ہوسپیٹل لے گیا مگر وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جاں بحق ہوگئیں۔ ان کی جدائی سے نہ صرف پیپلز پارٹی بلکہ پورا پاکستان صدمہ سے نڈھال تھا۔ اگر آج بینظیر حیات ہوتیں تو پاکستان مختلف ہوتا۔ ان کی شہادت ایک المناک تاریخ رقم کر گئی۔ یوں تو بھٹو خاندان کی تاریخ خون سے رنگین ہے ہی مگر شہید رانی کی شہادت پر پورے ملک میں سوگ کا عالم چھا گیا تھا۔ آج 27 دسمبر ان کی یاد لیکر آیا ہے، اور ہم امید کرتے ہیں جمہوریت کے جانشین” شہید رانی” کے جمہوری پرچم کو کبھی بھی جھکنے نہیں دینگے۔ ہمیں یقین ہے جیت ہماری ہوگی۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply