چڑھتا سورج (افسانہ)-محمد وقاص رشید

یہ 90 کی دہائی تھی ۔فلم “چڑھتا سورج” کا سیٹ لگا ہوا تھا ۔ اپنے وقت کے مشہور فلم ڈائریکٹر کی کہانی تھی, جس نے انڈسٹری کو لازوال فلمیں اور کئی سال تک راج کرنے والے اداکار دیے تھے۔ ایک حادثے کی وجہ سے بستر سے جا لگتا ہے اور یوں منظرِ عام سے غائب ہو جاتا ہے اور پھر ڈرامائی انداز میں مل جاتا ہے اور اسے دوبارہ انڈسٹری میں بحال کرایا جاتا ہے۔

پروڈیوسر کی گاڑی آکر رکی ۔ ڈائریکٹر عابد بٹ نے کٹ کی آواز لگائی اور گاڑی کی جانب بڑھ گیا۔۔۔
پروڈیوسر (شفیع ڈوگر )  بٹ صاحب ! آپکو کہا تھا شوکت شاہ کی فلمیں دیکھیں,مجھے ویسا کام چاہیے,انکی زندگی پر فلم ہے تو ڈائریکشن بھی ان جیسی ہونی چاہیے ۔

ڈائریکٹر (بٹ صاحب ) ڈوگر صاحب بے فکر ہو جائیں میں نے انکی ساری فلمیں سمجھیں گھول کے پی لیں, آپ کو اس سے بہتر کام ملے گا۔

ڈوگر صاحب!بہتر کا تو پتا چلے گا فلم کے ہٹ ہونے پر۔۔ یاد رکھیے گا, اس دفعہ ہمارا معاہدہ یہ ہے کہ فلم چلی تو آپکو پیسے ملیں گے۔ آپس کی بات ہے بڑے ڈوگر صاحب شوکت شاہ کے ساتھ بھی ایسے ہی معاہدہ کرتے تھے۔ ایسے ڈائریکٹر زیادہ محنت کرتا ہے۔ اسے پتا ہوتا ہے کہ کما کر کھانی ہے۔ ورنہ تو ڈائریکٹر پروڈیوسر کو بیچ کے کھا جائیں ۔۔۔۔(ہنستے ہوئےمیں آپکی بات نہیں کر رہا )
(ڈائریکٹر دل ہی دل میں کسمسا کر رہ گیا ) اور مسکرا کر کہنے لگا جی جی مجھے پتا ہے۔ بس سیٹ پر کھانے اور دیگر خرچے بھیج دیں پلیز۔۔۔۔بڑی مشکل پیش آ رہی ہے۔
پروڈیوسر ہاں ہاں ہو جائے گا۔۔۔میں نے منشی سے کہہ دیا ہے۔
یہ کہہ کر پروڈیوسر گاڑی میں بیٹھا اور سگریٹ کے کش لیتا نئی آنے والی ہیروئین کو گھورتا وہاں سے چل دیا ۔

ڈائریکٹر نے کیمرہ ، ایکشن کی آواز دوبارہ لگائی، ڈائریکٹر کے حواس پر تو جیسے شوکت شاہ کا نام چھا ہی گیا تھا۔ کبھی ہیرو سے کہتا شوکت شاہ کی فلم کا ہیرو نہیں دیکھا تھا۔ کبھی ہیروئین کو ڈپٹتا کہ تمہاری ماں نے تو شوکت شاہ کی فلموں میں کام کر رکھا ہے۔۔۔ویسی اداکاری کرو،کبھی کوریوگرافر کے گلے پڑتا کہ شوکت شاہ کی پرانی فلموں جیسا ڈانس چاہیے۔ عابد بٹ بہت دباؤ کا شکار تھا۔ شدید مالی پریشانی میں شفیع ڈوگر کی جانب سے اگر اس بار بھی اسکا استحصال ہوا تو وہ معاشی طور پر تباہ ہو جائے گا۔ یہ خوف اسے اندر ہی اندر کھائے جا رہا تھا۔

فلم کے آخری سین شوٹ ہو رہے تھے۔ اب اس ڈائریکٹر کا انجام دکھانا تھا۔ کہانی کے مطابق پوری فلم کی کاسٹ ایک گاؤں میں پہنچتی ہے اور شدید موسم کی خرابی کے باعث انہیں رات وہیں رکنا پڑتا ہے۔ وہاں انکی ملاقات ایک لنگڑے معذور بابا جی سے ہوتی ہے اور بعد میں پتا چلتا ہے کہ وہی شوکت شاہ ہوتا ہے۔ اور پھر فلم ہٹ ہو جاتی ہے اور اسکی کمائی سے شوکت شاہ کی ٹانگ لگوائی جاتی ہے اور اسے دوبارہ شہر لا کر فلم انڈسٹری میں بحال کیا جاتا ہے ۔

ڈائریکٹر کا کردار ادا کرنے والے مشہور ہیرو کو اب بیساکھی پہ چلنا سیکھنا تھا،اسکے لیے اب کسی بیساکھی والے کی ضرورت تھی کیونکہ شوکت شاہ کی فلموں میں ایسا ہی ہوتا تھا کہ فلم کے کردار حقیقی کرداروں کے ساتھ جا کر وقت بِتاتے تھے ۔

اچانک ایکسٹرا کا کردار ادا کرنے والا ایک لڑکا کہتا ہے کہ یہاں سے تھوڑا دور ایک لنگڑا بابا سینمے کے سامنے فٹ پاتھ پر فلمی اداکاراؤں کے پوسٹر بیچتا ہے۔ ڈائریکٹر نے فوراً لڑکے کو ساتھ لیا اور وہاں پہنچ گیا۔

بابا جی ہم آپکے دور کے ایک ڈائریکٹر شوکت شاہ صاحب کی زندگی پر ایک فلم بنا رہے ہیں۔ اس میں ہیرو کو بیساکھی پہ چلنا سکھانا ہے۔ آپکو میں پورا پانچ سو روپیہ دونگا۔ بس آدھے گھنٹے گ  میں آپ واپس آ جائیں گے۔ اصل میں ہمیں کل گاؤں میں روانہ ہونا ہے۔

بابا جی نے ڈائریکٹر کو ایک گہری نظر سے دیکھا۔ ۔اور مسکرا دیے اور کہا چلیے۔ ۔تصوریریں اکٹھی کرنے لگے اور تھوڑی دیر میں کھوکھے کے پٹ بیساکھی کی مدد سے بند کر دیے۔

سٹوڈیو پہنچے تو ایک نگاہ اٹھا کر ادھر ادھر دیکھا۔ دوبوندیں آنکھوں سے پھسل کر استخوانی چہرے اور داڑھی سے ہوتی ہوئیں زمین پر جا گریں۔ اچانک سنبھلے اور سر جھکا لیا۔

سارے انتظار میں تھے۔ بابا جی نے پھولی ہوئی سانسوں کے ساتھ ہیرو کو بتانا شروع کر دیا کہ کندھے میں بیساکھی کیسے اڑیسنی ہے۔ ہاتھ کہاں رکھنا ہے اور کہنی کی پوزیشن کیا ہو گی۔ پھر جسم کا وزن دیتے وقت خیال رکھنا ہے کہ بیساکھی پھسل نہ جائے۔ یہ الفاظ بابا جی کے منہ میں تھے کہ بیساکھی پھسلی اور بابا جی سر کے بل زمین پر گرے اور جسم تڑپنے لگا۔ سانس دھونکنی کی طرح چلنے لگی۔ جیب میں ہاتھ ڈالا تو انہیلر نہیں تھا۔۔ بابا جی کی روح پرواز کر گئی۔ ۔انہیلر ڈھونڈتے جیب سے شناختی کارڈ گرا۔۔۔اس پر لکھا تھا ۔۔۔۔ نام  شوکت شاہ

عابد بٹ نے پروڈیوسر کو کال ملائی اور کہا میں یہ فلم آپ سے خریدنا چاہتا ہوں۔ شفیع ڈوگر نے کہا کیوں خیر ہے ؟ بس آپ مجھ سے ٹوٹل خرچے پر منافع بھی لے لیں اور فلم کی پروڈکشن میں خود کرنا چاہتا ہوں۔ شفیع ڈوگر نے کہا پر آپکے پاس پیسے۔۔۔عابد بٹ نے کہا میں نے اپنا سب کچھ بیچ دیا۔ شفیع ڈوگر لالچی آدمی تھا اس نے عابد بٹ کو بھاری منافع پر فلم بیچ دی۔ ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

عابد بٹ نے فلم کی کہانی آخر سے تبدیل کی اور اس میں جو کچھ حقیقت میں ہوا وہ کلائمیکس میں شامل کر دیا۔ فلم کی تشہیر میں “شوکت شاہ صاحب کی سچی کہانی” A True Story of Shokat Shah sahib” کا جملہ شامل کیا تو مارے تجسس کے لوگوں کا کھڑکی توڑ رش آیا۔ فلم بلاک بسٹر ہوئی ۔اس فلم کے آخر میں دکھایا گیا کہ فلم کی کمائی سے ایک بہت بڑی رقم شوکت شاہ کی کسمپرسی میں زندگی گزارتی بیوہ بڑھیا کو پیش کی جاتی ہے فلم انڈسٹری میں چڑھتے ہوئے سورج کی کرنیں جسے کبھی جھک جھک کر سلام کرتی تھیں۔ یہ اس وقت کی مشہور ہیروئین تھی جس نے شوکت شاہ کے علاج پر اپنا روپیہ پیسہ تو کیا پورا کیرئیر لگا دیا تھا۔۔۔۔۔شوکت شاہ صاحب کی فلم میں اسکے عروج پر ایک گانا سپریٹ ہوا تھا
محبت۔۔۔۔
ایسا دریا ہے
کہ ،
بارش روٹھ بھی جائے
تو،
پانی کم نہیں ہوتا۔
نوٹ:کوئی بیس سال قبل ایک ڈائجسٹ میں ایک کہانی پڑھی تھی اس افسانے کا مرکزی خیال اس سے ماخوذ ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply