کیا جدید نظم واقعی غیر سیاسی ہے؟ /ناصر عباس نیّر

خاموشی اپنی تفسیر چاہتی ہے، خلا بھی اپنے پر کیے جانے کا مطالبہ کرتا ہے ،خاص طور پر اس وقت جب خاموشی ہولناک ہو ،اور خلا وحشت انگیز ہو۔
خاموشی اور خلا کا حقیقی تجربہ، ان سب کے لیے ہولناک ہوسکتا ہے ،جن کا یہ دونوں انتخاب نہ ہوں؛ان پردونوں کو مسلط کردیا گیا ہو؛وہ خود کو گفتگو اور مانوس دنیا سے ’بے خانماں کیے گئے‘ یعنیDisplaced سمجھتے ہوں ۔وہ جلد سے جلد گفتگو اور مانوس دنیا میں لوٹنا چاہتے ہیں؛وہ خاموشی کی تفسیر کرکے ،کلام سے اپنی دوری کا غم مٹانا چاہتے ہیں ،اور خلا کو پرکے اپنی مانوس دنیا میں واپس آنا چاہتے ہیں۔
وہ خاموشی کی آواز نہیں سنتے ، خاموشی کو اپنی آواز سے بد ل دینا چاہتے ہیں؛ اور خلا کونور، نغمے یا نکہت ِگم راہ سے پر کرنا چاہتے ہیں۔اگر ہم غیر استعاراتی زبان استعمال کریں تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ جدید انسان نے دیوتاؤں ، مطلق اقدار ، روایت کی اتھارٹی سے خالی دنیا کا جب تجربہ کیا تو اوّل اوّل اپنی جبلت کو آزاد محسوس کیا۔
جدید انسان نے اپنی جبلی خواہشوں کی تسکین سے اس خلا کو پر کرنے کی کوشش کی ، مگر یہ خلا پر نہ ہوا۔ یہیں اسے یہ علم ہوا کہ جدید دنیا میں جو خلا پیدا ہوا ہے ، وہ ابدی ہے،اسے موت نہیں آسکتی۔دوسرے لفظوں میں جب خلا کو نور ،نغمے ، حرف تسلی ، تبسم یا آہ سے بھرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو در اصل اس خلا کے خاتمے یا موت کا اہتمام کیا جاتا ہے ،مگر خلا نہیں بھرتا؛بصیرت ، نغمہ،گیت ،رقص ، مذہب ،رفاقت ، اور چیخ پکار کوئی شے خلا کو نہیں بھر سکتی۔
چناں چہ جدید انسان، نارس اور غم دیدہ ہے۔جدیدانسان کی تقدیر یہ ہے کہ وہ’ لرزش پیہم میں رہنے والی نفی‘ کا تجربہ کرے؛ خلا ،نفیِ پیہم ہے۔
اس میں شک نہیں کہ خلا، ہول ناک اور دہشت انگیز ہے ،لیکن امکانات سے لبریز بھی ہے،تاہم صرف ان کے لیے جو اسے اپنی تقدیر کے طور پر قبول کرلیتے ہیں ،اور اس کی ملکیت حاصل کرلیتے ہیں۔
ان کے لیے خلا ، غیر نہیں ہوتا۔ وہ خلا کے خاتمے کی کوشش نہیں کرتے ،اس کی ناگزیریت کو تسلیم کرتے ہیں۔وہ خلا کو اپنی جبلت کی آزادی کی رزم گاہ نہیں بناتے،اس کے خالی پن میں سفر کرتے ہیں۔
دہ دیوتاؤں سے خالی دنیا ، مطلق اقدار سے خالی دنیا ، روایت کی اتھارٹی سے خالی دنیا میں اپنی قوت ِ ایجاد کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسا مقام ہے جہاں جدید نظم سیاسی طور پر کافی خطرناک ہوجاتی ہے۔
عام طور پر جدید نظم کو ’غیر سیاسی وغیر سماجی ‘ کہا گیا ہے، اور اس لیے کہا گیا ہے کہ اس میں واضح، قطعی انداز میں سیاست پر کم ہی گفتگو ملتی ہے،لیکن جب جدید نظم یہ کہتی ہے کہ وہ ایک ایسے ’خلا‘ میں سے کلام کرتی ہے ،جو کسی شے سے پُر نہیں ہوتا تو وہ طاقت واستحکام کی سب صورتوں کی نفی و انکار کرنے لگتی ہے۔
یوں جدید نظم واضح سیاسی مئوقف اختیار کرنے کے بجائے،اس بنیاد پر ضرب لگاتی ہے جس پر سیاسی طاقت اور اس کی مختلف صورتیں استوار ہوتی ہیں۔بنیاد کاا نکار، مظاہر پر تنقید سے کہیں خطرناک اور دہشت انگیز ہوتاہے۔اس قدر دہشت انگیز کہ خود شاعر یا نظم کے متکلم اسے پُر کرنے کی عجلت کرنے لگتے ہیں،یعنی سیاسی مظاہر پر لکھنے لگتے ہیں۔
واضح رہے کہ خلا کو بھرنے کی کوشش دراصل خلا سے پہلے کی صورتِ حال، یعنی ماضی کی طرف واپسی کی کوشش ہے۔
( جدید شاعری میں ہمیں یہ کوشش دو سطحوں پر ملتی ہے۔ ایک سطح وہ ہے جہاں کلاسیکیت، ماضی ،روایت ،اساطیر ، اتھارٹی کے احیا کی سعی کی گئی ہے۔دوسری سطح وہ ہے جہاں کلاسیکیت ، ماضی، روایت ،اساطیرکی علامتوں کی کا یا کلپ کر دی گئی ہے؛ان کے سگنی فائیڈ بدل دیے گئے ہیں)۔
جب کہ’ خالی دنیا ‘میں سفر اپنی تنہائی کو اپنی تقدیر کے طور پر تسلیم کرنا ہے ،اور اپنے عصر کی یگانہ حسیت کا اثبات ہے؛ نیزلمحہ ء حال کو سب سے بڑی زمانی صداقت کی صورت قبول کرناہے۔یہ، اب ، یہاں، اس وقت ۔۔۔۔۔جدید نظم کی شعریات میں کلیدی اہمیت اختیار کرلیتے ہیں۔
(عرشیہ پبلی کیشنز ،دہلی سے شایع ہونے والی کتاب ’’نظم کیسے پڑھیں‘‘ سے اقتباس )

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply