حدِّ بیابانی میں۔۔۔۔۔ رفیق سندیلوی

میرے اسلوبِ تمّوج پہ نظر ڈال
مری لہر کے پیرائے کو دیکھ
لمس کی دُھوپ کو دیکھ
اور مرے سایے کو دیکھ
دیکھ اب میرے خدوخال میں تبدیلی ہے
دل کی روندی ہُوئی مٹّی
جو بہت ماند تھی
اب عکسِ تصوّر ہی سے چمکیلی ہے
اب مرے جسم کا ہر زاویہ تمثیلی ہے
آخر اِس گہرے اندھیرے کے
فلک بوس پہاڑوں میں
بنا کر رستہ
جھلملاتی ہُوئی نقشین شعاعوں کو
کسی وَجد میں آئے ہُوئے
دریا کی طرح بہنا تھا
چاند کے گرد جو ہالہ تھا
اُسے ٹوٹنا تھا
اَبر کو کچھ کہنا تھا
سُر میں سُر ہونا تھا آمیز
بہم تال میں تال
میرے اسلوبِ تموّج پہ نظر ڈال
مری لہر کے پیرایے کو دیکھ
لمس کی دھوپ کو دیکھ
اور مرے سائے کو دیکھ
دیکھ کس طرح مرے ہاتھ سے
پُھوٹا ہے بنفشی پودا
کاسۂ سر سے نکل آئی ہے اُودی کونپل
اور اُگ آئے ہیں
سینے سے چناری پتّے
جسم اِک مہکا ہُوا باغ نظر آتا ہے
آخر اِک تارا
گھنی رات کے دروازے سے
در آتا ہے
آخر اِس حدَِّ بیابانی میں
ایک گُل پُوش کو دھرنا تھا قدم
آ کے یہاں رہنا تھا
جھلملاتی ہُوئی نقشین شعاعوں کو
کسی وجد میں آئے ہُوئے
دریا کی طرح بہنا تھا!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply