میرا جی کا نگار خانہ/ناصر عباس نیّر

دمودر گپت کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ملتیں۔بس اس قدر معلوم پڑتا ہے کہ وہ آٹھویں صدی کے شاہ ِکشمیر جیا پیدا ونیا یادتیا کے دربار میں ایک اعلیٰ عہدے دار تھا۔ وہ کشمیر سے کاشی آ گیا، اور یہیں اپنی کتاب(کٹنی متم) لکھی۔
دمودر گپت عقیدے کے اعتبار سے روایتی برہمن وادی ہندومت کا پیروکار تھا۔اسے شیو مت سے گہرا لگاؤ تھا۔یعنی وہ نٹنیوں کا دلال نہیں تھا۔اس نے یہ کتاب کیوں لکھی،اس کا جواب ہمیں ماتھرس (کٹنی متم کے انگریزی مترجم )کے پیش لفظ میں نہیں ملتا۔ تاہم ایک اور کتاب اس سلسلے میں ہماری یاوری کرتی ہے اور وہ ہے اے بیری ڈیل کائتھ کی سنسکرت ا دب کی تاریخ۔
آدمی کے مقاصدِ حیات میں تیسرا کام یعنی محبت ہے اور ہندوستانی مصنفین نے اس موضوع کو اسی طرح سنجیدگی سے لیا ہے جس طرح دھرم اور ارتھ کو۔جس طرح ارتھ شاستر بادشاہوں اور وزیروں کے لیے ہے، اسی طرح کام شاستر صاحبانِ ذوق کے مطالعے کے لیے ہے،جو محبت کے علم کو حدِ کمال تک لطیف اور مفید بنانا چاہتے ہیں۔
حیرت اور دل چسپی کی بات یہ ہے کہ یہی بات دمودرگپت کی اس کتاب میں بھی درج ہے۔ یہ اقتباس دیکھیے جو نگار خانہ سے لیا گیا ہے۔
’’جو کوئی دھرم کے کام کو پور ا نہیں کرتا اور دھرم ہی سب سے بڑا گن ہے اور جو کوئی ارتھ پر جیت پانے کی کوشش نہیں کرتا اور ارتھ ہی سب سے بڑا دھن ہے اور جو کوئی کام کی دولت اکٹھی نہیں کرتا،جس سے پریم کا آنند ملتا ہے تو پھر اس سنسار میں جہاں ہر کوئی اچھی سے اچھی بات کی کھوج میں لگا ہوا ہے،اس کا جیون کسی کام کا نہیں‘‘۔
لہٰذا کٹنی متم اسی سنجیدگی سے لکھی گئی ہے جس اعلیٰ سنجیدگی سے دھرم اور ارتھ کی کتابیں۔ دوسرے لفظوں میں قدیم ہندوستان میں آدمی کا ایک خاص تصور تھا جو مذہب، علم اور عشق سے عبارت تھا۔ کٹنی متم، کتاب ِعشق ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ قدیم ہندوستانی ادب میں مذہب، علم اور عشق میں کوئی تضاد نہیں۔ یہ کم و بیش وحدت کا وہی تصور ہے جو یونان میں علم کی وحدت کا تصور تھا،جس کے مطابق صداقت،خیر اور حسن ایک ہی اکائی کا حصہ تھے۔خیر کی جستجو مذہب، صداقت کی فلسفہ اور آرٹ، حسن کی جستجو کرتے تھے۔
منٹو کے خیال میں میراجی نے کٹنی متم (منٹو غلطی سے نٹنی متم لکھتے ہیں) کا ترجمہ اس لیے کیا کہ’’وہ جنس زدہ تھے۔ یہ ’’سیکسوئل پرورٹ‘‘ کا صحیح ترجمہ نہیں،مگر آپ اسے یہی سمجھیے۔ میراجی سے میں نے اس کے متعلق کئی بار باتیں کیں۔ ہر بار انھوں نے تسلیم کیا کہ وہ جنس زدہ ہیں … مجھے یہاں ان کی شخصیت کا تجزیہ نہیں کرنا ہے اور نہ مجھے اس کے جنسیاتی رجحانات کا تذکرہ کرنا ہے۔ اس کا ذکر صرف اس لیے آ گیا ہے کہ اتفاق سے اس کتاب کا موضوع ٹھیٹ جنسیاتی ہے‘‘۔
دوسرے لفظوں میں نگار خانہ میں میراجی کی جنسی کج روی کا انعکاس ہوا ہے۔ اگر جنسی کج روی نگار خانہ جیسی نثر کی تخلیق کا باعث ہو سکتی ہے تو ایسی کج روی پر ہزاروں کی پاک دامنی قربان کی جانی چاہیے۔یہاں میر ا جی کی کسی کج روی کا دفاع مقصود نہیں۔ اگر ان میں جنسی یا کوئی دوسری کج روی تھی تو یہ ان کا شخصی انتخاب یا مجبوری تھی۔ ہمیں ان کی شخصیت سے نہیں،ان کے کام سے غرض ہے اور ان کے کام (اور یہاں ان کے تراجم پیشِ نظر ہیں) میں جنسی بے راہ روی نہیں، عشق و جمال کو اس کی حدِ کمال تک سمجھنے اور اسے ایک تہذیب میں بدلنے کی سعی ملتی ہے۔
مذہب، فلسفہ اور عشق کی حد ِکمال اور اس سے وجود میں آنے والی تہذیب کیا ہے، اس کا جواب آسان نہیں،مگر اتنا ہم کہہ سکتے ہیں، یہ تہذیب ایک اعلیٰ درجے کے نشاط اور اتنی ہی بلند مرتبہ بصیرت سے عبارت ہے۔ انسان نے اپنے دکھوں سے نجات کے لیے اس نشاط و بصیرت سے بڑھ کر کسی اور شے کو اپنا ملجا نہیں پایا۔ بصیرت دکھ کا خاتمہ کرے نہ کرے، دکھ کو سہنے کا وقار ضرور عطا کرتی ہے۔ یہی وقار آمیز تمکنت و بصیرت نگار خانہ کے صفحات میں نور افشاں ہے۔ایک ایسی کتاب جو کٹنی کے پاٹھوں پر مشتمل ہے،اس میں ایسی باتیں اس امر پر دال ہیں کہ آرٹ میں اکثر باتیں تمثیلی ہوتی ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو اس ’’مینول‘‘ میں درج ذیل باتیں کیوں کر آتیں۔ یہ اقتباسات دیکھیے:
برے ارادے جس کے دل میں ہوتے ہیں،وہ تسلی کی باتیں بہت بناتا ہے اور سچے سیوکوں کو بڑی آسانی سے بھگا دیتا ہے۔ مرتا ہوا شکاری کتا تو اگر اس میں سکت ہو، گھٹ گھٹ کر جنگلی سور کو بھی چاٹنے لگے گا۔
ل
وگوں کے دل میں چاہے اپنی بھلی بیبیوں کے لیے کتنی ہی گہری چاہت کیوں نہ ہو،پھولوں کے تیروں والا چنچل دیوتا انھیں ایسی ناریوں کی طرف موڑ دیتا ہے جو چاہے جانے کے جوگ ہوتی ہی نہیں۔
پر ایسا بھی تو ہوتا ہے کہ کبھی کبھی اونٹ تیکھے تیز کانٹوں بھری جھاڑیوں پر منھ مارتے مارتے اتفاق سے شہد کے چھتے تک بھی جا پہنچتا ہے۔
(’’اس کو ایک شخص سمجھنا تو مناسب ہی نہیں ‘‘ کے زیر طبع نئے ایڈیشن سے اقتباس)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply