شبِ وصال

احباب اکثر شکوہ کرتے تھے کہ آپ کی تحریر اور نظموں میں بہت مایوسی نظر آتی ہے خون اور بے بسی کی تصویر جھلکتی ہے۔۔ان تمام احباب کے لیے ممتاز شیخ کی زیر ادارت سہ ماہی لوح میں شائع ہونے والی میری طویل نظم جو صرف محبت ہے محبت پر ہے! 1995 سے میں نے لکھنے کا آغاز کیا ابتدائی سال محبت پر ہی لکھا۔پھر جانے کب اور کیسے آنکھ کھل گئی اور اپنے اردگرد ہونے والا ظلم زیادتی بے انصافی شدت سے محسوس ہونے لگی اس کے بعد سے محبت سے ناطہ ضرورت کا رہا یاد رہا تو بس اپنے لوگ ان کا درد ان کی پریشانی۔ یہ نظم 2015 میں لکھی گئی۔ اور شاید یہ واحد نظم ہے جب میرا قلم میرا دل نہ تھا!!۔۔(منصور مانی۔میں عوام)۔۔۔۔۔۔

شبِ وصال

شبِ گزیدہ،
اس کے حُسنِ بِرشتہَ سے میں ہوا!
فسانہ ساز تھی وہ،
اور سیمیں بدن تھا ساز!
نغمہ فشاں تھا میں،
اور تھا دھڑکنوں کا تال!
کیف و مستی کے تت کال میں
تھاوحشتوں کا کال
جام تھے محبت کے
لمس تھا قیامت کا
رات تھی جوانی تھی
سسکی لیتی
ایک ندیا دیوانی تھی
ڈوب کر اُبھرے تھے
پھر ڈوب گئے اُبھر کے
تھا جسمِ عور ایک ساگر
اور صدیوں کی تھی تَراس
شبِ وصال تھی
نرگسِ ناز میں تھا
وصل کا خمار،
لرز رہا تھا
مرمریں بدن
بارِ حیا سے تھیں
مژگاں جھکی ہوئی!

میرے روبرو تھی وہ سبک اندام
چندن بدن، گل بدن ، مرجان
کمان اس کے ابرو
تیکھی تیکھی چتون
گیسُوئے عنبر فشاں، پر شکن
لبِ لعلیں ابرِ شراب
غنچہ دہن، چڑھتا شباب
مخروطی انگلیاں
ہتھلیاں کھلا گلاب
کمر کے بل
گویا سازِ رُباب
گداز سینہ ریشم کی اُٹھان
صندلی باہیں صراحی گردن
دلنشیں مُسکان
جذبوں کی اگن تھی
دہک رہا تھا
بدن تمام
پیوست تھے لب
یک جان تھے
بوسہِ عشق تھا بہکنے کے ایام تھے
پی رہا تھا شرابِ عتیق
گھونٹ گھونٹ
جام بکف نہ تھا!
یکدم جوشِ مستی میں
ساز چھیڑ دیا میں نے

Advertisements
julia rana solicitors

آہ کی صدا نکلی
کیف کی نوا بن کر
وصل کے لمحوں میں
یہ درد اضافی تھا
نم ہوتی آنکھوں کا
شکوہ جوابی تھا۔
ساز تھم گئے تھے سب!
وقت رک گیا تھا جب!
عشق سے کہا اس نے
میں کلی تھی جوہی کی!
پھول بنا دیا آخر!
عشق تھا عبادت تھی!
تم نے جوشِ الفت میں
جسم بنا دیا آخر!
عشق فریاد کناں
کہا اورچل دیا!
تکمیلِ محبت میں
یہ امر بھی آنا تھا
عشق کووصل کا
جلوہ دکھانا تھا!

Facebook Comments

منصور مانی
صحافی، کالم نگار

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply