بوڑھا برگد/نور بدر

بوڑھے برگد نے چونک کر سر اٹھایا اور مجھے دیکھا۔ اس کی بوڑھی آنکھوں میں ایک غیر معمولی چمک ابھری وہ سامنے دیکھتا ہوا محسوس ہوا لیکن یوں لگ رہا تھا اس کی نظر سامنے نہیں کہیں اور ہے۔۔ عشق کیا ہے؟میں نے ہمت کر کے اپنا سوال دہرایا۔ اچانک بوڑھا برگد تھکا تھکا سا دکھائی دیا۔ اس نے ایک لمبی گہری سانس کھینچی اور گویا ہوا۔۔۔عشق بھید ہے بھول بھلیاں ہے۔ جو جیسا اس میں داخل ہوتا ہے ویسا نہیں رہتا۔ عشق کچھ بھی پہلے جیسا رہنے نہیں دیتا۔ مجاز ہو یا حقیقت۔۔۔ انسان حواسوں میں نہیں رہتا بے خود ہو جاتا ہے۔ یہ عشق مرحلہ وار کسوٹی ہے جہاں قدم قدم پر آزمائش ہے جابجا موڑ ہیں اور ہر موڑ پر کہیں کانٹوں بھرا صحرا کہیں آگ کا دریا۔ یہ کسی ایک لمحے کا فیصلہ نہیں ہے۔ پل پل وارد ہوتی کیفیات کا نام عشق ہے۔ وہ کیفیات جن میں دریا کی سی روانی ہے۔

اس عشق کو کوئی کیسے سمجھے، بہتے دریا کو کوئی کیسے قید کرے؟ میں نے اگلا سوال پوچھا

کیفیات کے اس دریا میں جو ایک بار ہو گزرے وہ لوٹ کر نہیں آتا۔ ایک بار جو لمحہ سرک جائے پھر ہاتھ نہیں آتا۔ ایک ہی کیفیت شدت بدل بدل کر یوں سامنے آتی ہے کہ ایک لمحہ دوسرے سے مطابقت نہیں رکھتا۔ انسان ابھی پچھلے لمحے کے سرور میں ہوتا ہے کہ نئی کیفیت آن وارد ہوتی ہے۔ یہ پل پل حیران کر دینے والی چیز ہے۔۔۔ بوڑھے برگد نے پہلو بدلتے ہوئے کہا
اضطراب کی ایک لہر اٹھتی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے انسان کا روم روم مضطرب ہو کر تڑپنے لگتا ہے۔ عشق اضطراب ہے سکون بھی، طلب ہے عطا بھی،عشق مجاز ہے حقیقت بھی۔۔۔۔۔

عشق قدم قدم پہ بچھی بساط ہے۔ ہار اور جیت سے بے نیاز کر دینے والی بساط جہاں کھیلنے والا خود اپنی ذات گنوا کر بھی ہارنا خوش قسمتی سمجھتا ہے۔ یہ دو انتہاؤں کے یکجا ہونے کا نام ہے۔ دو متضاد کیفیات کے ایک دوسرے میں بدل جانے کا عمل۔۔۔۔میں نے دیکھا بوڑھا برگد اور بھی بوڑھا ہوگیا ہے اس کی جھکی ہوئی شاخیں اور بھی جھک گئیں جیسے یہ سوال بہت بھاری ہو۔ وہ خاموش ہو کر کچھ سوچنے لگا اور میں پریشان ہو کر اسے دیکھنے لگی۔ میں کچھ اور پوچھنا چاہتی تھی کہ برگد پھر سے بول اٹھا۔

“یہ بے خود کر دینے والا جذبہ ہے جہاں کوئی تم نہیں کوئی میں نہیں۔ تم اور میں اپنا آپ کھونے لگتے ہیں۔ طلب پوری شدت سے وجود کو ہلا کے رکھ دیتی ہے اور عین اس لمحے جب طلب مراد پانے لگے یہ عطا کا روپ دھار لیتی ہے۔ جب بے چینی حد سے بڑھ جائے اور لگنے لگے کہ اب دل پھٹ جائے گا عین اس وقت قرار آ جاتا ہے۔ وہ لمحہ جس میں یہ عیاں ہونا ہوتا ہے کہ میں کون ہوں اچانک میں کو تم میں تبدیل کر دیتا ہے اور تم کو میں میں۔ وہ خاص لمحہ جب میں تم ہو جاؤں اور تم میں ہو جاؤ یہی وہ لمحہ ہے جو منتشر بھی کرتا ہے اور مضطرب بھی۔ اس مقام پہ عشق کی حدت سب سے زیادہ ہوتی ہے میں کو میں نہیں رہنے دیتی اور تم کو تم نہیں۔ مجاز رنگ بدلتا ہے اور حقیقت میں ڈھلنے لگتا ہے۔ مجاز کے حقیقت میں ڈھلنے کا یہ لمحہ بڑا فیصلہ کن ہوتا ہے۔ اس ایک لمحے میں صدیوں جیسا انتظار ہے۔ اس ایک لمحے پہ عشق کا انحصار ہے۔ جب منزل سامنے دکھائی دینے لگے عین اس وقت حوصلے پست کر دینے والا لمحہ۔ جب عاشق نڈھال ہو کر گر پڑے تو امید دلانے والا لمحہ۔ اس مقام پہ ہی منتظر کے منتشر ہوجانے کا احتمال ہے۔ اس مقام سے سرخرو ہو جانا ہی کمال ہے۔ جو سرخرو ہو جائیں تو میں تم نہیں اور تم میں نہیں۔ ہم بن جاتے ہیں۔ لیکن میں اور تم کو ہم ہونے میں صرف ایک لمحہ درکار ہے۔ صدیوں پہ محیط لمحہ جہاں بھٹک جانے کا اندیشہ سب سے زیادہ ہے۔ جو میں سے تم ہو کر مطمئن ہوگیا وہ منزل سے بھٹک گیا۔ جو اس ایک لمحے میں سرشار ہوگیا وہ کھو گیا۔ اصل کیف تو ہم ہوجانے میں ہے اور ہم ہوجانے تک سانس جل اٹھتی ہے دل پگھل جاتا ہے روح بےتاب ہو کر بے چین ہو کر پھڑپھڑانے لگتی ہے۔ جو جلتی سانسوں کو جھیل لے جو پگھلتے دل پر قابو پا لے، جو پھڑپھڑاتی روح کو سہہ جائے وہی ہم ہونے کا مطلب سمجھ پاتا ہے اور عشق میں ہم ہونا ہی ہمسفر کو پا لینا ہے”

Advertisements
julia rana solicitors

بوڑھا برگد اب دور کہیں خلاؤں میں گھور رہا تھا میں مزید کچھ پوچھنا چاہتی تھی لیکن برگد کے اس انہماک کو دیکھ کر ارادہ ملتوی کر دیا!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply