غلط فہمیاں/مرزا مدثر نواز

چھپی و پوشیدہ چیزوں کاجاننے والا اور پردوں کے پیچھے دیکھنے والا صرف ایک معبودِ برحق ہے جس نے ان خزانوں کی چابیاں کسی کے بھی حوالے نہیں کیں۔ ظاہر حالات سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ فلاں چیز ایسے ہو گی لیکن ضروری نہیں کہ وہ ہماری سوچ و خیالات کے مطابق ہی ہو۔

 

 

 

کسی جاننے والے کو آپ بار بار کال کرتے ہیں لیکن وہ کوئی جواب نہیں دیتا‘ آپ ذہن میں یہ خاکہ بٹھا لیتے ہیں کہ وہ جان بوجھ کر آپ کی کال کا جواب نہیں دے رہا لیکن تحقیق کرنے پر آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت موبائل اس کی پہنچ سے باہر تھا‘ وہ بیمار یا کسی اور پریشانی میں مبتلا تھا وغیرہ وغیرہ۔ کئی برس پہلے جب موٹر سائیکل کسی کسی کی پہنچ میں ہوتا تھا‘ ایک جاننے والے نے نیا بائیک خریدا‘ اس نے اور اس کے بہت ہی قریبی دوست نے ایک جگہ جانا تھا‘بائیک والا جلدی میں دوسرے کے قریب سے گزر گیا اور اسے موٹر سائیکل پر ساتھ چلنے کی دعوت نہ دی۔ دوسرے دوست کو اس کی اس حرکت پر بہت غصہ آیا اور اس نے باقی دوستوں سے کہنا شروع کر دیا کہ ہمارا وہ دوست اب بہت بدل گیا ہے‘ وہ اب بہت امیر ہو گئے ہیں‘ ہم کو اب کہاں لفٹ کراتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ جب پہلے والے سے پوچھا تو وہ سر پکڑ کر بیٹھ گیا اور کہا کہ جیسا آپ سوچ رہے تھے‘ ویسا کچھ بھی نہیں۔ اس نے کہا کہ بائیک کی رننگ ابھی پوری نہیں ہوئی‘ اس لیے اس نے اپنے ساتھ کسی کو نہیں بٹھایااور جلدی میں بتا نہیں سکا‘ وہ پہلے جیسا ہی ہے اوربالکل نہیں بدلا۔ ہر معاملے میں تحقیق سے کام لیا جائے تو غلط فہمیوں سے پیدا ہونے والی بہت سی خرابیوں سے بچا جا سکتا ہے۔

(۱) صحیح البخاری میں ایک واقعہ بیان کیا گیا ہے‘ حضرت عبداللہ بن عمرؓ اپنے والد حضرت عمر بن خطابؓ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا جب ان کی صاحبزادی حفصہؓ بیوہ ہو گئیں جن کا نکاح خنیس بن حذافہ السہمیؓ سے ہوا تھا اور وہ مدینہ میں وفات پا گئے۔ حضرت عمرؓ نے کہا کہ پھر میں عثمان بن عفانؓ کے پاس آیا اور میں نے ان کو حفصہ سے نکاح کا پیغام دیا۔ انہوں نے جواب دیا کہ میں اس پر غور کروں گا۔ چند دن کے بعد وہ مجھ سے ملے اور کہا کہ میرا خیال ہے کہ اس وقت میں نکاح نہیں کر سکوں گا۔حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ پھر میں ابوبکر صدیقؓ سے ملا اور کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ اپنی لڑکی حفصہ کا نکاح آپ سے کر دوں۔ ابو بکر خاموش رہے اور مجھے کو ئی جواب نہیں دیا۔ حضرت عمر کہتے ہیں کہ اس کے بعد ابوبکر پر مجھے عثمان سے بھی زیادہ غصہ آیا۔ پھر میں کچھ دن تک ٹھہرا رہایہاں تک کہ رسول اللہﷺ نے حفصہ سے نکاح کا پیغام دیاتو آپ کے ساتھ میں نے حفصہ کا نکاح کر دیا۔ اس کے بعد میری ملاقات ابوبکر سے ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ شاید تم مجھ پر غصہ ہوئے ہو گے جب کہ تم نے مجھ سے حفصہ کے نکاح کا پیغام دیا تھا اور میں نے تم کو کوئی جواب نہیں دیا۔ حضرت عمر نے کہا کہ ہاں۔ حضرت ابوبکر نے کہا کہ اس معاملہ میں جواب سے مجھے صرف اس چیز نے روکا تھا کہ میں جانتا تھا کہ رسول اللہﷺ نے حفصہ کا ذکر کیا ہے اور میں نہیں چاہتا تھا کہ میں رسول اللہ کا را ز کھول دوں۔ اگر آپﷺ ان کو چھوڑ دیتے تو میں ضرور انہیں قبول کر لیتا۔
حضرت ابوبکر و عمر دونوں انتہائی جلیل القدر صحابی ہیں۔ اس کے باوجود ایسا ہوتا ہے کہ ایک صحابی دوسرے صحابی کے رویہ کو اتنا غلط سمجھ لیتا ہے کہ اس پر اس کو غصہ آ جاتا ہے۔ حالانکہ حقیقت کے اعتبار سے اس میں کوئی غلطی نہیں ہوتی۔ یہ دراصل غلط فہمی کا معاملہ تھا نہ کہ غلط کاری کا۔ اصل یہ ہے کہ حضرت عمر ابتدائی مرحلہ میں مذکورہ واقعہ کو محض ظاہر کے اعتبار سے لے رہے تھے۔ ظاہر کے اعتبار انہیں دکھائی دیا کہ حضرت ابوبکر اور عثمان نے نامناسب رویہ اختیار کیا مگر جب معاملہ کی اصل حقیقت معلوم ہوئی تو پتہ چلا کہ ان کا رویہ بالکل درست تھا۔ اس میں غصہ ہونے کی کوئی بات سرے سے موجود ہی نہ تھی۔

ایک صحابی کو جب دوسرے صحابی کے معاملے میں غلط فہمی ہو سکتی ہے تو عام مسلمان کو دوسرے مسلمان کے معاملہ میں بھی یقیناََ غلط فہمی ہو سکتی ہے۔ اس لیے آدمی کو چاہیے کہ کسی کے متعلق بری رائے قائم کرنے میں وہ انتہائی محتاط ہو۔ عین ممکن ہے کہ بعض ظاہری چیزوں کو دیکھ کر وہ بری رائے قائم کر رہا ہو۔ حالانکہ زیادہ گہرے اسباب بتا رہے ہوں کہ یہ سراسر غلط فہمی کی بات ہے کیونکہ وہاں سرے سے کوئی غلط فعل پایا نہیں جا رہا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

موجودہ دنیا میں باہمی تعلقات میں بگاڑ کا سبب اکثر حالات میں غلط فہمی ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ظاہر حالات کے اعتبار سے غلط فہمی بالکل درست معلوم ہوتی ہے مگر حقیقت کے اعتبار سے وہ بالکل بے بنیاد ہوتی ہے۔یہ غلط فہمی دو مخلص افراد یا دو بے قصور گروہوں کے درمیان بھی ہو سکتی ہے۔ اس لیے آدمی کو چاہیے کہ جب بھی غلط فہمی کی صورت پیدا ہو تو ایسا نہ کرے کہ اس پر یقین کر کے بیٹھ جائے بلکہ متعلقہ افراد سے مل کر اس کی تحقیق کرے۔ کامل تحقیق کے بغیر ہر گز وہ اس کو تسلیم نہ کرے۔ تحقیق کا طریقہ غلط فہمی سے پیدا ہونے والی برائیوں کے لیے قاتل کی حیثیت رکھتا ہے۔ پھر یہ بھی ضروری ہے کہ تحقیق کے بعد جب غلط فہمی بے بنیاد ثابت ہو تو فوراً اپنے دل و دماغ سے اس کو نکال دے۔ اپنے آپ کو دوبارہ اسی طرح معتدل بنا لے جس طرح وہ غلط فہمی کی صورت پیدا ہونے سے پہلے تھا۔ تحقیق کو اپنا اصول بنا لیجیے اور پھر آپ کو کسی سے شکایت نہیں ہو گی۔
(۱) اسباقِ تاریخ از مولانا وحید الدین خاں

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
ٹیلی کام انجینئر- ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply