• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • بیٹی کے قاتل والدین کیخلاف اطالوی پولیس کی کارروائی/محمود اصغر

بیٹی کے قاتل والدین کیخلاف اطالوی پولیس کی کارروائی/محمود اصغر

دوسال پہلےاٹلی کے شہر نویلارا میں قتل ہونے والی ثمن موباس کے مبینہ قاتل اس کے والد کو پاکستان کی جانب سے اٹلی کے حوالے کر دیا گیا ہے ۔ آٹھ گھنٹے کی فلائٹ سے انہیں اسلام آباد سے آج روم ائیر پورٹ پرلایا گیا ہے ۔

 

 

 

انہوں نے پاکستانی روایتی لباس یعنی شلوار قمیض پہنی ہوئی تھی اور تمام اطالوی میڈیا میں ان کی ویڈیو اور تصاویر سرکل کررہی ہیں ۔ ملزم شبر حسین پر یہ الزام ہے کہ اس نے اپنی بیٹی کو مورخہ یکم مئی 2021 ء کو محض اس لئے قتل کر دیا کہ وہ اپنی شادی اپنے والد کی مرضی سے نہیں کرنا چاہتی تھی ۔ قتل کے اگلے روز ہی ملزم اپنی بیوی کو لیکر پاکستان فرار ہوگیا تھا ۔

پاکستانی قانون نافذ کرنے والے اداروں نے مبینہ قاتل کو گرفتار تو کر لیا تھا لیکن اس دوران دونوں ممالک کے درمیان ملزموں کے باہمی تبادلے کے معاہدے ، حکومتوں کی تبدیلیوں سے لیکر ججوں کی چھٹیوں تک ایسے معاملات سامنے آتے رہے کہ ملزم کو اٹلی لانا مشکل بنتا رہا لیکن اطالوی پولیس اور وزارت داخلہ نے ہمت نہیں ہاری اور ملزم کو اٹلی لانے میں کامیاب ہوگئے ۔ پولیس آفیسر نے البتہ پاکستان کی یہ کہتے ہوئے تعریف کی ہے کہ دوسرے ممالک میں ملزموں کے ایسے تبادلے میں کئی سال لگ جاتے ہیں۔

ریجو ایملیا کے پبلک پراسیکیوٹر کا کہنا ہے کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے کہ پاکستان سے کسی ملزم کو ریجو ایمیلیا لایا گیا ہے ۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ ابھی کام ختم نہیں ہوا کیونکہ اطالوی پولیس نے ثمن عباس کی ماں کو بھی شریک جرم نامزد کیا ہوا ہے اور انٹرپول کے ذریعے اس کی بھی حوالگی کی درخواست  دی ہوئی ہے ۔

اٹھارہ سالہ ثمن عباس کے قتل میں اس کے دونوں والدین ، اس کا انکل اور دو کزن بھی شریک جرم نامزد کئے گئے ہیں ۔ پولیس کا خیال ہےکہ ثمن کو گلا گھونٹ کرقتل کیا گیا اور اس کی لاش کو گھر کی قریبی زمین میں دفن کیا گیا ۔ کیونکہ ثمن پاکستان میں موجود اپنے کزن سے شادی نہیں کرنا چاہتی تھی اگلے ہفتے سے کیس کی کارروائی شروع ہوجائے گی اور ثمن کے بھائی کا بیان ریکارڈ کروایا جائے گا جو والدین اور بچی کے درمیان جھگڑے کا چشم دید گواہ تھا ۔

Advertisements
julia rana solicitors

یورپی ممالک کی جانب سے یہ ایک تاریخی کامیابی ہے ۔ گزشتہ مہینےجہلم کے ایک شہری نے بھی برطانیہ میں بھی اپنی دس سالہ سارا کو قتل کر دیا تھا اور اس کے فوراً بعد اپنے بیوی بچوں سمیت پاکستان بھاگ گیا تھا ۔ دس سالہ سارا کا جرم بھی یہ تھا کہ وہ سر پر سکارف نہیں باندھتی تھی اور اسلامی اقدار کی پابندی  میں کمزور تھی ۔ کاش برطانوی محکمہ بھی اطالوی وزارت داخلہ سے سبق سیکھیں اور ملزم عرفان کو جلد سے جلد گرفتار کر کے برطانیہ لیکر آئے ۔ کیونکہ ایسے تمام اشخاص جو معصوم بچیوں کو قتل کر کے پاکستان بھاگ جاتے ہیں ۔ پاکستان ایسے لوگوں کے لئے جائے پناہ نہیں بننا چاہیے۔

Facebook Comments

محمود چوہدری
فری لانس صحافی ، کالم نگار ، ایک کتاب فوارہ کےنام سے مارکیٹ میں آچکی ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply