یہ برس ٹھہرا کیوں نہیں؟؟۔۔ہُما

اس برس اختتام پر میرے لب پر کوئی دعا نہیں
بس اک حسرت، اک صدا، اک تمنا کہ آخر
یہ برس ٹھہرا کیوں نہیں؟

دسمبر2019 کا اختتام میں نے اپنی تحریر سورج کی غربت پر کیا تھا۔

اس غریب سورج کی امیری دیکھنے کے لئے دل میں بہت سی امنگیں  باقی  کی تھیں کہ اب کے برس 2020 میں سورج غریب نہیں رہے گا۔
یہ سورج خوشیاں دیکھے گا یہ سورج اخلاص دیکھے گا۔۔گمان بھی نہیں تھا کہ یہ غریب سورج اس برس اس قدر ضعیف و لاغر ہوجائے گا کہ ڈوبتے سمے بہت سی زندگیاں گمنام تاریکیوں کے حوالے کرجائے گا۔

2020 دنیا بھر کے لئے ایک سانحہ ثابت ہوا ۔۔۔
اس برس خوشیاں اپنے وجود کو زندگی بخشنے کے لئے ترس گئیں۔کورونا کی قدرتی آفت نے دنیا کا کوئی ملک نہ چھوڑا جہاں سناٹا پھیلا کر تباہیاں نہ مچائی ہوں ۔پاکستان اور اس جیسے غریب ملک تو اس امیرانہ وبا میں خود کو مقید کرکے اس سے مکمل محفوظ ہونے کے قابل بھی نہ تھے۔ہر سمت موت اور بھوک سے تڑپتی،بلکتی  صدائیں ہی بلند ہوتی رہیں۔

اس برس نے دیکھا کہ وہ سفید پوش لوگ جو کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا اپنی توہین سمجھتے تھے،زندگی کی جنگ جیتنے کے لئے اپنے اور اپنے پیاروں کی خاطر بھیک مانگنے لگے۔۔

یہ برس بڑا ہی بےدرد ثابت ہوا۔۔اس برس نے امراء اور غرباء کا فرق مٹادیا ۔

اس برس وہ بادشاہ جو خود کو ہر سیاہ سفید کا مالک گردانا کرتے تھے،حقیقی بادشاہ کی جانب سے ایسے بے بس کیے گئے کہ بلبلا اُٹھے”زمیں کی تمام کوششیں کرچکا ہوں اب آسماں کی جانب دیکھ رہا ہوں “۔

ہاں ہر ایک نظر فقط آسماں کی جانب مرکوز تھی، ہر آنکھ اشکبار تھی، ہر دل غمزدہ سہما ہوا خوفزدہ تھا۔اس برس سے پہلے لوگ سانس لینے کے عمل کو حد درجہ معمولی سمجھا کرتے تھے،لیکن اس برس جب سانسیں کم پڑنے لگیں تو التجائیں کرتے پھرے کہیں سے سانسیں (آکسیجن) خرید دو۔۔
انمول سانسیں مول تول کرکے ملنے لگیں تو اس کی اہمیت،اور  اس کی قدر کے بارے میں پتہ چلنے لگا۔لیکن ان سانسوں کی قدر صرف انہی انسانوں کو درحقیقت سمجھ آئی جنہیں وہ قیمت کے عوض قیمتی ملیں۔بقیہ ماندہ افراد اب تلک ان سانسوں کے آنے   جانے کو مزاح  سمجھ رہے تھے اور سمجھ رہے ہیں ۔

درحقیقت سانسوں کے ٹوٹ جانے کی آواز صرف قریبی رشتے ہی سن سکتے ہیں یا وہ جن کے دل کو  رب نے  آنکھیں اورکان نصیب کیے ہوں ۔
میں زندگی کی سانسیں ٹوٹتے دیکھتی رہی تو بے ربط لفظوں میں رب کریم کو پکارا۔

الہی ضبط ٹوٹا ہے
تو بے ربط سی
فریاد کرتے ہیں
الٰہی ملتمس ہیں
رحم کی فریاد کرتے ہیں
الہی اقرار کرتے ہیں
کرتے رہے برباد
خودی نفس کے ہاتھوں
الہی ہاتھ بندھے ہیں
گھمنڈی ہر اس انساں کے
کہ جس کی حیثیت
تونے بتائی گندا پانی ہے
الہی جانتے ہیں
تھے بھول چکے
جباریت تیری
الہی معاف کردے
ہے التجا، صدقے
اب رحمانیت تیری
الہی مرض لاعلاج
کرکے مُبَِّین کردیا تونے
بس تو ہی کافی ہے
تو ہی شافی ہے
الہی ملتمس ہیں رحم کر
مخلوق پر اپنی
الہی قہاریت سے تیری
خوف  طاری  ہے
وقتی قہاروں پر
الہی ملتمس ہیں رحم کر
اپنے بنائے خاکساروں پر
الٰہی دیکھ تیرے
عرش کے نیچے
فرش پر
بکھری پڑی
آہیں،
صدائیں ہیں
الہی بھوک سے
افلاس سے گھائل
ہوائیں ہیں
الہی کھل چکی
ہر اک حقیقت،
نہیں ہے،
تجھ سوا کوئی
الہی تجھ میں تو پنہاں
ستر مائیں ہیں
جتادے اپنی ممتا اب
کہ تیرے بندے پریشاں ہیں
الہی ملتمس ہیں رحم فرما
رحم فرما، رحم فرمادے۔

میری دعائیں میری کوششیں میرے خالق کے بعد مجھے تخلیق کرنے والی میری امی دیکھتیں تو بے اختیار مجھے دعائیں دیتیں، پیار کرتیں اور کہتیں کہ جس کی مدد کرو اس سے اپنے لئے دعا بھی کروایا کرو۔۔

دعا؟۔۔

21 اپریل کی شام امی کو اچانک بلڈ پریشر کم ہوجانے کے باعث ہاسپٹل لے جایا گیا۔میں رب کریم کے سامنے پھر سے دعا کیلئے ہاتھ باندھے کھڑی تھی،
کہ بارگاہِ الہیٰ سے ندا آئی

“فیصلہ کردیا گیا ہے ”

یعنی

جس ہستی نے بخشی تھی مجھے اپنی جاں سے جاں
جاں بخشی کی اس کیلئے ہر اک دعا گئی رائیگاں

میں نے اس برس اپنی تخلیق کار ماں کو کھودیا ۔۔

دنیا بھر میں لوگ اس برس کو بھاری اور منحوس گردان رہے ہیں۔جن لوگوں کو صرف چند پابندیاں برداشت کرنا پڑی ہیں وہ چاہتے ہیں کہ جلد از جلد یہ برس اختتام پذیر ہو اور اگلا برس ان کے لئے خوشیوں کی نوید لے آئے،لیکن جو لوگ اپنی جان سے پیاری ہستیاں اس برس مدفون کرچکے ہیں وہ میری طرح شاید اسی برس میں رہنا چاہتے ہیں۔اے کاش یہ برس ٹھہر جاتا، اے کاش جدائی کا فاصلہ برسوں  ،پھر عشروں، پھر صدیوں پر محیط نہ ہونے پاتا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

لیکن یہ برس بھی گزشتہ برسوں کی طرح گزر گیا اور میں سوچ رہی ہوں ۔
اس برس اختتام پر میرے لب پر کوئی دعا نہیں
بس اک حسرت، اک صدا، اک تمنا کہ آخر
یہ برس ٹھہرا کیوں نہیں؟

Facebook Comments