سستے وینٹی لیٹر ۔۔وہاراامباکر

کرونا وائرس کی موجودہ وبا میں زیادہ مریضوں میں علامات سنجیدہ نہیں ہوتیں لیکن جن مریضوں کو اس مرض کی وجہ سے ہسپتال میں داخل ہونا پڑتا ہے، ان میں بڑا مسئلہ سانس لینے کی تکلیف ہے۔ ہر سانس لینا محنت کا کام بن جاتا ہے اور یہاں تک کہ سانس لینے کی مشقت انہیں تھکا مارتی ہے۔ اس سے پہلے کہ وہ دم گھٹ کر مر نہ جائیں، انہیں مدد کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس بیماری کا علاج تو کوئی نہیں لیکن اس وقت میں مریض کی سانسیں جاری رکھنے میں اس کی مدد کرنے والا آلہ وینٹی لیٹر ہے۔ ہسپتال میں داخل ہونے والے تیس فیصد افراد کو اس کی ضرورت پڑتی ہے اور اس وقت دنیا میں ہر جگہ پر ان کی تعداد ناکافی ہے۔

اپنے فنکش کے لحاظ سے اس کا کام غیرمعمولی پیچیدگی والا نہیں۔ یہ ایک پمپ ہے جو مریض کے پھیپھڑوں میں آکسیجن اور ہوا کا بہاوٗ کنٹرول اس وقت کنٹرول کرتا ہے جب مریض خود ایسا کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔

ان کو بنانا اور ان کا ڈیزائن مشکل کیوں ہے؟

اس لئے نہیں کہ ان کا فنکشن مشکل ہے بلکہ اس لئے کہ ان کو مریض کے زندگی کے نازک مرحلے پر انتہائی قابلِ اعتبار طریقے سے بالکل ٹھیک ٹھیک کام کرنا ہوتا ہے اور اگر تھوڑی سی بھی اونچ نیچ ہو جائے تو اس کا نتیجہ مریض کی موت ہے۔ اس کے علاوہ اس نے زیاہد آکسیجن والے ماحول میں کام کرنا ہے اور آکسیجن ری ایکشن کرنے کی ماہر ہے۔ قابلِ بھروسہ ہونے کے لئے ٹیسٹنگ کی ضرورت ہے اور کمرشل مینوفیکچرر کسی بھی نئے ماڈل کی ٹیسٹنگ کے لئے دو سال تک کا وقت لیتے ہیں۔ وینٹی لیٹر بنانے والی کمپنیاں اس وقت اپنی کیپیسیٹی پر چل رہی ہیں۔ فلپس نے اپنی مینوفیکچرنگ لائن بڑھا دی ہیں۔ اضافی شفٹیں لگ رہی ہیں۔ اپاہج افراد کے لئے اعضاء کی تیاری کا کام روک دیا ہے۔ میڈٹرانک دل کے لئے سٹنٹ بنانا معطل کر چکی ہے اور وینٹی لیٹر کی پروڈکشن 500 آلات فی ہفتہ تک کرنے کی کوشش میں ہے۔ ویکیوم کلینر بنانے والی کمپنی ڈائی سن، جہاز بنانے والی کمپنی ائیر بس بھی نئے ڈیزائن کے ساتھ تیاری کی کوشش میں ہیں۔ وینٹیل نے ایک مشین سے دو مریضوں کو بیک وقت اٹیج کرنے کا طریقہ نکالا ہے۔ لیکن یہ سب کچھ اس کی ڈیمانڈ پوری کرنے کے قریب بھی نہیں۔

اور یہ مہنگی مشینری ہے۔ انتہائی نگہداشت کے وقت استعمال کئے جا سکنے والے ایک وینٹی لیٹر کی قیمت پچاس ہزار ڈالر (اسی لاکھ روپے) تک ہو سکتی ہے۔ کیا اس کا کوئی متبادل حل ہے؟ کیا سستی مشینری ڈیزئن کر کے بڑے پیمانے پر تیار کر کے دنیا کے ممالک میں اس کو بنایا جا سکتا ہے؟ مسائل کیا ہیں؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس وقت دنیا بھر میں سستے وینٹی لیٹر کے ڈیزائن پر کام ہو رہا ہے۔ دنیا میں انجینیرز اشتراک کر رہے ہیں۔ خیالات کا تبادلہ کر رہے ہیں۔ سستے ڈیزائن میں مرکزی شے بیگ والو ماسک ہے۔ پلاسٹک بیگ جو ایک میڈیکل کئیر کا ماہر ہاتھ سے پچکا کر مریض کے پھیپھڑوں میں ہوا داخل کر سکتا ہے۔ یہ ڈیزائن اس میں روبوٹک ہاتھ کا اضافہ کرتے ہیں جو یہ پچکانے کا کام خاص فریکونسی سے خودکار طریقے سے کر سکتے ہیں۔

ایسے وینٹی لیٹر جلد بنائے جا سکتے ہیں اور بڑی تعداد میں لیکن وینٹی لیٹر پھیپھڑوں میں ہوا کو پمپ کرنے کی مشین ہی نہیں۔ اس وقت ڈاکٹروں کو اس کا ایک سائیڈ ایفیکٹ مینج کرنے میں مشکل درپیش آ رہی ہے اور وہ بیروٹراما ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عام حالت میں سانس لینے کے لئے پھیپھڑے میں پٹھوں کے دو گروپ کام کرتے ہیں۔ ڈایافرام اور انٹرکوسٹل مسل۔ جب ہم سانس اندر کرتے ہیں تو یہ مسل سکڑ کر پھیپھڑوں کے لئے جگہ میں اضافہ کرتے ہیں۔ زیادہ حجم کی وجہ سے پریشر میں کمی ہوتی ہے اور باہر سے ہوا اندر کی طرف دھکیلی جاتی ہے۔ نوٹ کرنے کی اہم بات یہ ہے کہ باہر کے مقابلے میں منفی پریشر ہے جس کی وجہ سے ہمارا سانس اندر جاتا ہے۔ سانس باہر نکالتے وقت یہ عمل الٹ جاتا ہے۔ پھیپھڑوں کا حجم کم ہوتا ہے اور اندر پریشر زیادہ ہونے کی وجہ سے ہوا باہر نکلتی ہے۔ یہ کسی غبارے کے پھولنے یا سکڑنے جیسا عمل نہیں ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مکینیکل وینٹی لیشن ایسے کام نہیں کر سکتی۔ اس کو ہوا کو اندر دھکیلنا ہے اور باہر زیادہ پریشر پیدا کر کے یہ کام کیا جاتا ہے اور یہ کسی غبارے کو پھلانے جیسا کام ہے۔ اگر اس کو بہت ٹھیک طریقے سے کنٹرول کیا جانا ہے اور ہوا کا پریشر ڈایافرام اور انٹرکوسٹل مسل کے پھیلنے اور سکڑنے کے ردھم کے ہم آہنگ رکھنا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو پھیپھڑوں میں ایلویولی پر پریشر زیادہ ہو جائے گا۔ ایلویولی ہوا کی ننھی سی تھیلیاں ہیں جو خون کی نالیوں سے آکسیجن اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کا تبادلہ کرتی ہیں۔ یہ کرنے کے لئے انہیں بہت باریک ہونا ہے اور اس وجہ سے یہ بہت نازک ٹشو ہیں۔ اگر ان کو ضرورت سے زیادہ پھلایا جائے تو سوجن ہو گی یا پھر یہ پھٹ بھی سکتی ہیں۔ اور یہ بیروٹراما ہے۔

معاملہ زیادہ خراب اس لئے ہے کہ جو کووڈ ۱۹ میں مبتلا ہوتے ہیں، ان میں اس سائیڈ ایفیکٹ کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ کیونکہ ایلویولی میں مائع بھری ہوتی ہے جو ان میں ہوا کے داخلے میں رکاوٹ بنتی ہے اور یہ ہوا کا دباوٗ مزید زیادہ ہونے کا سبب بنتا ہے۔ اور سب سے بری چیز جو مریض کے ساتھ کی جا سکتی ہے، وہ یہ کہ اس کے صحت مند ٹشو کو نقصان پہنچ جائے۔ اور یہ مریض کی حالت مزید بگاڑ دے گا۔ میڈیکل پروفیشنل کو وینٹی لیٹر کی سیٹنگ میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے کہ ایسا نہ ہو۔ کتنی ہوا جانی ہے، کتنا پریشر دیا جانا ہے۔ اس کا انحصار مریض کی حالت پر ہے۔

کسی بھی ڈیزائن میں اس سیٹنگ کو کنٹرول کرنے کا طریقہ دئے جانے کی ضرورت ہے۔

اس وقت کئی ایسے سستے آلے کے ڈیزائن نظر آ رہی ہیں جہاں اس ویری ایبل کی سٹینگ نہیں۔ ایسے آلات مدد کرنے کے بجائے نقصان دہ ہوں گے۔ یعنی وینٹی لیٹر کا نہ ہونا زیادہ بہتر ہو گا۔ کچھ لوگ اچھی نیت سے ایسے ڈیزائن کر رہے ہیں لیکن ستم یہ ہے کہ ایسا ڈیزائن ورجن جیسی بڑے ادارے نے بھی کیا ہے۔ اس کو اچھی شہرت حاصل کرنے کے لئے جلدبازی کی تحقیق کہا جا سکتا ہے۔

بیگ کنٹرول والے ڈیزائن 2010 میں لکھے گئے ایم آئی ٹی کے پیپر سے حاصل کئے گئے ہیں۔ لیکن اس پیپر میں کچھ اچھے ہوشیار خیالات ہیں جن کو استعمال نہیں کیا جا رہا۔ اس میں ایک سپائرومیٹر ہے جو ہوا کے بہاوٗ کے پریشر کی پیمائش کرتا ہے۔ اس سے ہوا کا حجم ناپ کر کنٹرولر تک فیڈ کیا جاتا ہے اور یہ پچکانے کا پریشر تبدیل کرتا ہے اور ایک رینج میں آلہ آپریٹ ہو سکتا ہے۔ اگرہ یہ ڈیزائن پرفیکٹ نہیں لیکن نازک صورتحال میں ایک بہتر طریقہ ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فی منٹ کتنے سانس دینے ہیں؟ اس کو لازمی سانس کہا جاتا ہے اور اس کی رینج کا تعین مشین کرتی ہے۔ خواہ آپ سانس لینا چاہیں یا نہیں، مشین یہ سانس دے گی اور یہ تکلیف دہ عمل ہے۔ اس وجہ سے مریض کو گہری غنودگی والی حالت میں لے جایا جاتا ہے۔ اور ایسا کرنا بھی بیروٹراما کے امکان میں اضافہ کرتا ہے کیونکہ مریض خود ڈایافرام اور انٹرکوسٹل مسل کو مشین کے سانسوں سے ہم آہنگ نہیں کر سکتا۔ اچھی کوالٹی کے وینٹی لیٹر اس کا حل کرتے ہیں اور اپنے سیکونس کو مریض کے سانس کے ساتھ ٹرگر کرتے ہیں۔ مشین مریض کے سانس لینے کی کیپیسیٹی کو مانیٹر کرتی ہے اور اس مشاہدے کی بنا پر کام کرتی ہے۔ یہ سانس کی نالی میں پریشر کی پیمائش سے بھی ہوتا ہے اور ڈایافرام کے برقی سگنل کی پیمائش سے بھی۔ اس کے لئے بہت تیز مائیکروپراسسر کی ضرورت ہے جو اس ٹرگر کو پکڑ کر فوری ایکشن لے سکے۔

نئے بنائے جانے والے سستے ڈیزائن اس اہم کام کا خیال نہیں رکھ رہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وینٹی لیشن کے عمل میں ایک اور بہت اہم اور مشکل کام مریض کو وینٹی لیتر سے ہٹانے کا ہے۔ جب مریض مکمل غنودگی میں ہے تو قدرتی سانس بحال ہو جانا آسان نہیں۔ اس کو کنترول کرنے کے لئے ڈیزائن میں کئی چیزوں کا خیال رکھا جاتا ہے۔

یہ وہ وجوہات ہیں کہ بائیومیڈیکل انجینرنگ میں انجینرنگ سے زیادہ میڈیکل کا جاننا ضروری ہے۔ ایٹالکٹاسس (ایلویولی کا بند ہو جانا) کی صورت میں پریشر کا اضافہ کتنا کیا جائے کہ ہر سانس میں ہوا پہنچائی جا سکے لیکن بیریوٹراما کا امکان کم رہے۔ اس کے لئے مثبت اینڈ ایکسپائری پریشر استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ مسلسل دیا جانے والا زیادہ پریشر ہے۔ ویسے، جیسے کسی تیزرفتار گاڑی سے آپ اپنا سر باہر نکالیں تو ہوا کس طرح منہ میں جائے گی۔ اس صورت میں سانس کو باہر نکالنا مشکل ہو جائے گا لیکن آکسیجن جاتی رہے گی۔ کووڈ ۱۹ کے مریضوں میں اس پریشر کے زیادہ لیول اور ٹائٹ کنٹرول کی ضرورت پڑتی ہے۔ ایک بیگ پچکانے والا وینٹی لیٹر یہ کام نہیں کر سکتا۔ اور اس کے بغیر بیروٹراما اور والوٹراما کا امکان بڑھ جاتا ہے۔

ان مریضوں کو اس وینٹی لیٹر پر ہفتوں تک بھی رہنا پڑ سکتا ہے۔ بنیادی وینٹی لیٹر پہلے دن کے لئے تو ٹھیک ہے جب مریض گہری غنودگی میں ہوتا ہے لیکن جب اس غنودگی کو کم کیا جائے تو پھر مسئلہ بن جاتا ہے۔

اضافی چیز یہ کہ سانس کی نالی کو ہوا میں نمی اور حرارت کی ضرورت ہوتی ہے۔ جدید وینٹی لیٹر یہ فراہم کرتے ہیں۔ اگر ایسا نہ کریں تو پھیپھڑے کے ٹشو بہت جلد خراب ہونے لگیں گے۔

مناسب وینٹی لیٹرز کی بھی ضرورت ہے لیکن اس سے زیادہ اہم تربیت یافتہ میڈٰکل عملے کی جس میں تنفس کے تھراپسٹ اور انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں کام کرنے والی نرسیں ہیں۔ وینٹی لیٹر تو پھر بھی تیار ہو جاتے ہیں لیکن تربیت یافتہ عملہ تیار کرنا سب سے زیادہ وقت لیتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تو وینٹی لیٹر تیار کرنے میں ہوا کو پمپ کرنے سے کہیں زیادہ چیزیں شامل ہیں۔ پریشر، حجم، آکسیجن کا تناسب، نمی کا تناسب ۔۔۔ ان سب کی ٹائٹ ریگولیشن کی ضرورت ہے۔ مریض کی حالت سے خودکار ایڈجسٹ ہونے کی ضرورت ہے۔ اور یہ پیچیدہ مکینکس ہیں۔

یہ وہ وجہ ہے کہ سستے اور جلد وینٹی لیٹر بنانا آسان نہیں۔ کیا اس کا مطلب اس پر اس وقت ہونے والے کاموں کی حوصلہ شکنی کرنا ہے؟ بالکل بھی نہیں۔ جب لوگ ملکر کسی معاملے کا حل ڈھونڈیں تو کچھ نہ کچھ مل سکتا ہے۔ نئی انوکھی جدتیں آ سکتی ہیں۔ صرف یہ کہ یہ بات جاننا بہت اہم ہے مسئلہ حل کرتے وقت مسئلہ کی نوعیت کا ٹھیک ٹھیک علم ہونا بہت ضروری ہے۔

سستے میڈیکل آلات ایک ایسا معاملہ ہے جو غریب ممالک کے لئے ایک بڑا مسئلہ ہے۔

انڈیا میں ایک روبوٹکس انجینیر نے اس بحران سے پہلے ایک ایسا پراڈکٹ تیار کیا تھا جس میں اینڈرائیڈ فون کو انٹرفیس کے لئے استعمال کیا گیا تھا۔ انڈیا کی حکومت نے اس بحران سے نپٹنے کے لئے بڑا آرڈر دے دیا ہے۔ کیا یہ ان سب معاملات کا خیال رکھتا ہے؟ اس کا معلوم نہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کرونا وائرس کے بحران میں سب اکٹھے ہیں۔ اس میں کرنے والا محض کوئی ایک کام نہیں۔ سستے وینٹی لیٹر کا ڈیزائن بھی ان کوششوں میں ہے جس میں عالمی اشتراک کے لئے اوپن سورس کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ اگرچہ یہ آسان مسئلہ نہیں لیکن اچھی نیت رکھنے والے بہت سے انجینر اس کو حل کرنے کے لئے کام کر رہے ہیں۔ اگر ایسا ہو سکا تو اس سے حاصل ہونے والے نتائج صرف اس بحران کی حد تک نہیں، دور رس ہوں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس پر ویڈیو دیکھنے کے لئے
https://youtu.be/7vLPefHYWpY

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply