عزیزی گھُرکن سلّمہا(المعروف عابدمحمود عابد)۔۔کبیر خان

ہم شریف ، امّاں باوا شریف ، ہمارے چاچے تایے  شریف ، پاس پڑوس ’’جماندروُ‘‘شریف ۔ یوں ہمارے موہڑے گراں کا نام پوٹھہ شریفاں ہونا چاہیے تھا – مگر نجانے کس کم بخت پٹواری نے کاغذوں میں پوٹھی مکوالاں لکھ دیا ۔ لکھ دیا سو لکھ دیا ۔ یہ چیر نہ وہ چیر،پتھر لکیر۔ ستم ظریفی یہ کہ گاؤں کی مغربی سرحد پردُنیا کی مانی ہوئی پاک فوج کے شیروں کا مسکن ہے ۔ اُس مقام کو محکمہ مال کے کاغذوں میں کسی کم بخت نے’’پھنڈیں نی گلی‘‘لکھ دیا ، سو لکھا گیا۔ اسی طرح عدم ادائیگی ڈالی کے جرم میں ہمارے محترم و مکرّم دوست الحاج سردار خان جدون جیسے مستند شرفا ء کے گاؤں کو پٹواری حلقہ نے بیک جنبش قلم ’’حرامیاں دا بانڈہ‘‘لکھ دیا ۔اب مٹائے نہیں مٹتا۔ جونام پڑگیا سو پڑ گیا۔اسی کو کہتے ہیں برعکس نہند نام ۔۔

ہم تمہید اپنی خاندانی شرافت اور اچھائی کی باندھ رہے تھے ، پھیل گئی بُرائی کی طرح ۔۔۔اپنی بانڈی سے اُن کے بانڈے تک ۔ سو مُڑتے ہیں اپنے اصلے کی اور   کہہ ہم یہ رہے تھے کہ ہمارے اگلے پچھلے سب سادہ  لوح اور پرلے درجہ کے شریف لوگ تھے ۔ بچّے بوڑھے کو جہاں بٹھا دو، اُٹھائے بغیر اُٹھ کے نہیں دیتا۔ لیکن ہمارے چچا کے ہاں ایک ایسی چیز پیدا ہوئی جسے نچلا بیٹھنا آیا ہی نہیں ۔ یہی شئے ساڑھے چار سال کی تھی کہ علاقہ میں ریکارڈ برف پڑی ۔ گھروں سے باہر نکلنا دشوار ہو گیا ۔ ماں نے ہماری قومی غیرت کو جھنجھوڑا ،جھٹکا پٹخا۔ یہاں تک کہ ہماری مرادنگی کو بھی چیلنج کر کے دیکھ لیا۔ ہمارے پچھلوں کا تاریخ جغرافیہ کھنکال مارا۔ بڑی بڑی ہلّہ شیریاں دیں کہ ہم چولہے سے نکل باہر جائیں اور جاکر دادا دادی ،چاچا چاچی کی خیر خبر لے آئیں ۔ لیکن ہمتِ مرداں تین فٹ برف کی تہہ کو تو چیر سکتی تھی، بیس میل فی گھنٹہ کے طوفانی جھکّڑ کو پرے دھکیل کر کھیت کے دوسرے سرے پر واقع آبائی گھر نہیں پہنچ سکتی تھی۔

’’اچھا یوں کر، کوٹھے چڑھ جا اور منہ طرف کعبہ شریف کرکے رولا ڈال۔ متے سُن کر کوئی باہر نکل پڑے۔اُس سے بَل خیر پوچھ لینا۔ ۔ ‘‘ماں نے کہا’’تب تک میں اپنے شیر پُتر کے لئے املوک کی پوری لپّ نکال رکھوں گی‘‘۔(واقفانِ حال خوب جانتے ہیں کہ جھڑی برسات میں املوک وہ میوہ ہوتا ہے جس کی خاطر بچّہ لوگ سُولی چڑھنے کو تیار ہو جاتے ہیں )۔ لیکن ہم صرف رال سُڑک کر رہ گئے۔
’’اچھا تو یوں کرو، چھت پر جاؤ  اور وہاں سے آواز دو۔ شاید کوئی باہر نکل آئے، اُسی سے پوچھ آنا۔ ‘‘ہم نے سرِ تسلیم خم کر کے اپنے گھٹنوں میں دے دیا ۔ اورصبر شکر کے ساتھ نہار منہ مار کے علاوہ جھونگے میں لپّ بھرپھٹکار کھا کر بستر میں دبک گئے۔ نجانے کتنی صدیاں گزری ہوں گی کہ اچانک بھِت چرچرانے کی آواز آئی۔ لحاف کی جِھری سے دیکھا تو ہمارا محولہ بالا ساڑھے چار سالہ چچا زاد تھا۔ ماں اور بہنوں نے اُسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ کسی نے برف جھاڑی ،کسی نے اُس کےجوتے اتارے۔ایک نے ہاتھ ملے،دوسری نے پیر سیکے۔ ماں نے اُسے کھلایا پلایا اور ہمیں سنایا۔ ۔’’یہاں بڑے بڑے نیستی پڑے سو رہے ہیں ،ایک ننھا مُنا شیر پُتر برف چِیر کر اپنی بے تک پہنچا ہے۔ بے دھری اپنے لعل پر۔۔۔‘‘ وغیرہ وغیرہ ۔

آگ تپانے کے بعد ایک بہن لعل مذکورکواُٹھا کر اپنے ساتھ بستر میں لے گئی ۔۔۔۔’’میرا پیارا ننھا مُنّا بھیّا اِس طوفان اور سردی میں برف چیر کر اپنی آپا کی خیر عافیّت پوچھنے آیا ہے۔آپا اسے اپنے ساتھ لپٹا چمٹا کر لٹائے گی ، لوری سنائے گی۔۔۔اللہ اوں ،اللہ لوری اوں۔۔۔ چندا ماموں دور کے،بھلے پکائیں بورکے، ۔۔۔ اللہ ہوں ں ں‘‘۔ کم وبیش پون گھنٹے کے جتن کے بعد آپا شانت ہو گئیں ۔ اور لوریوں کی جگہ اُن کے ہلکے ہلکے خراٹے گونجنے لگے ۔ تب لعل سرک ،آپا کی گرفت اور بسترسے ہی نہیں ، دروازے سے بھی نکل گیا۔ اوراپنی آپا کے لئے پیغام کی بازگشت چھوڑ گیا۔۔۔۔:’’آپا ہمارے پاسے راتوں کو سونے کا رواج ہے ….میں تو گھُرکن* دکھانے آیا تھا‘‘۔

ہم پہاڑی اور برفانی مخلوق ہیں ۔ ٹھنڈے ٹھار،اک پرتے، سیدھے سادے اور مستند شریف ۔ لیکن کبھی کبھار ہمارے بیچ ایسے لعل وگوہر بھی پیدا ہو جاتے ہیں جو برفانی دنوں میں بھی صرف راتوں کو سوتے ہیں ۔ دن کو برف چِیرتے اور، اور اور سے حروف لکیرتے ہیں ۔ عزیزی عابد محمود عابد کو نجانے کون سی آپا لوری کی بوری تلے دباتے دباتے آپ سو گئی۔ اور اُس کا لاڈلا موقع پاکر سنجیدگی کے چنگل سے نکل بھاگا۔۔۔۔۔’’آپا ہمارے پاسے راتوں کو سونے کا رواج ہے‘‘ ۔ یہ وہ شے ہے جس کے لئے پہاڑی بولی میں ایک کہاوت ہے۔۔۔ ’’ہتھیں کِنجی، پیریں جالا،دھن اوئے مِرزالاں نیاں کھالہ‘‘(ہاتھوں میں خارش، پیروں میں جلن۔ دھن مرزاوٗں کی نسل) ۔ ہم نہیں جانتے کہ اُس کا تعلق ’’مرزاوٗں‘‘ سے ہے یا نہیں لیکن طے ہے کہ وہ شریف نہیں ،مُستند شریر ہے، ڈاہڈا کپتّا ہے۔ وہ گوڈے گوڈے (بلکہ لکّ لکّ ) سنجیدگی کی برف کوچیر کر، ’’اداس ہنس لیں‘‘کی شکل میں مزاح کی وادی میں اُترا ہے۔
جو پوچھا اک حسینہ کوکہاں سے مال آتا ہے؟
وہ بولی مسکرا کرمیرے ابّا جان لوٹے ہیں
’’چار جائز ‘‘ کے ذیل میں ’’ہم قد ‘‘ کے عنوان سے ایک تضمینی قطعہ ملاحظہ ہو:
تیری آنکھوں کا پرستارجہاں ہے سارا
اہل دُنیا انہیں مشروب سمجھتے ہوں گے
تیرا قد بھی ہےمرے قد کے برابرچھ فٹ
’’لوگ تجھ کو مرا محبوب سمجھتے ہوں گے‘‘
[اسی ذیل میں دوہرے عابدؔ نے (غالباً) ہم دونوں بھائیوں کو بھی ایک قطعے’’او۔لاد‘‘ میں باندھ دیاہے:]

کبیر و صغیر اس کے بیٹے ہیں دونوں
گُنہ جن کی عادت ، گُنہ ہی وتیرہ
کئی لوگ اُن کو بلاتے ہیں یوں
گناہِ صغیرہ ! گناہِ کبیرہ !
غزلو غزلی میں واقع ہونے والے اشعار ملاحظہ ہوں
ارے چنّے تو چنّے ہیں وہاں تو
میں ناکوں گنّے چبوایا گیا ہوں
مجھے میڈل جہاں ملنا تھا یارو!
میں بدقسمت وہیں’’پھایا‘‘گیا ہوں

منطومات کے ذیل میں ’مجھے انگلینڈ جانا ہے، کے بعد ’پاگل کا بچّہ‘بھی خاصے کی چیز ہے:
کھاتا ہے گُٹکا پیتا ہے شیشہ
اور دیکھ کر ہی جیتا ہے شیشہ
پاگل کا بچّہ
فردیات میں ’’آبِ بے حیات‘‘ملاحظہ ہو:
میں پانی کے بغیر اب جی رہا ہوں
سپیشل دودھ پتّی پی رہا ہوں
پولیس کی مجلس شوریٰ
کھٹکنے جب لگا ابلیس مجھ کو
اُٹھا کر لے گئے پولیس مجھ کو

غرضیکہ سنجیدگی کے غلاف اور ’رنجیدگی‘ کے لحاف کو پرے پھینک، نا امیدی کے کہرے اور بے یقینی کی دھند کو چیر کر صنفِ شاعری میں عزیزی عابد محمود عابد ’’گھُر کن‘‘ کی طرح بج گج رہا ہے۔ اس کے ساز و آواز کو سُن کر تو دیکھیئے، مزا نہ آیا تو بھلے دن دیہاڑے بھِتّ بھِیڑ کر سو جائیے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
* ’’گُھرکن‘‘ پونچھ کا ایک مقامی کلھونا ہے جو اخروٹ کھوکھلا کرکے ، ڈوری میں پرو کربنایا جاتا ہے ۔ یہ کثیرالمقاصد ایجاد (بندہ؟) ہے جوبجانے، لڑانے اور ڈرانے کے کام آتا ہے۔ (اس کو اٹکل سے بجایا جائے تو شیر کی طرح دھاڑتا بھی ہے ، ہاں)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply