ادھوری کہانیاں /کبیر خان

ڈاک سے ملنے والی خوبصورت سی کتاب کے پہلے کورے کاغذ پر ایک دست خطی جملے نے ہمیں چونکا دیا۔۔۔۔’’شاید آپ کو مظفرآباد کی تقریب میں ’کبیرخان زندہ باد‘ کا عنوان یاد ہو‘‘۔ کیا کہتے ، ہمیں تو مشتاق احمد یوسفی یاد آگئے،فرماتے ہیں:
’’ہمیں نام، مردوں کے چہرے، راستے، کاروں کے میک، شعر کے دونوں مصرعے، یکم جنوری کا سالانہ عہد، بیگم کی سالگرہ اور سینڈل کا سائز، نمازِ عید کی تکبیریں، سال ِ گزشتہ کی گرمی سردی، عیش میں نامِ خدا اور طیش میں خوفِ ناخدا، کل کے اخبار کی سُرخیاں، دوستوں سے خفگی کی وجہ۔۔۔ اور نہ جانے کیا کیا یاد نہیں رہتا۔‘‘

ہمارے حافظہ کی گراریوں کے دندانے بھی گھِس چکے ہیں،کوئی کام کی بات ان میں پھنس کر نہیں دیتی۔ چائے پی کر بھول جاتے ہیں، پی کہ نہیں پی۔ پھرپینا پڑتی ہے۔ بازار جاتے ہوئے بیگم نے جوبات گرہ میں بندھائی تھی ، وہ گرہ کوٹ کی جیب میں ہے یا خالی جیب لئے مارکیٹ پہنچ گئے ہیں؟۔ گرہ کوٹ سے قمیض کی جیب میں کیسے منتقل ہوئی؟ ربّ جانے۔ گرہ کُھل  گئی تو یہ کون بتائے گا کہ تین کلونمک لینا ہے یا آدھا پاؤ شکر کافی و شافی رہے گی؟۔ کچھ لینا بھی ہے یا صرف دینا ہی دینا ہے؟؟ ۔۔ایک بار تو یوں ہُوا کہ بیگم کو میکے سے لانے گئے،خود وہیں رہ گئے۔ دوسری صبح چائے کے وقت سسرالیوں سے لڑ بھِڑ کرخالی ہاتھ گھر لوٹے تو بیگم کو صحن میں موجود پایا۔ اندریں حالات ماضی بعید میں منعقد ہونے والی کسی تقریب کاحال اور وجہ تقریب کیسے یاد رہ پاتی۔

صاحبو! جملہ مذکوریہ کو بقائمی ہوش و حواس پڑھنے کے بعد پیچھے مُڑ کر دیکھا تو تاحدِ نگاہ ہمیں اپنی سات پشتوں میں کوئی ایسا فرد دکھائی نہ دیا جسے زندہ باد کُجا کبھی ایک آدھ گئے گذرے مُردہ باد سے ہی نوازا گیا ہو۔ اور یہی اَمراس کی دلیل ہے کہ ہم خاندانی شریف آدمی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ آج تلک کریکٹر سرٹیفکیٹ لینے کے لئے بھی کبھی تھانے کچہری نہیں گئے۔(جب بھی ضرورت پڑی ،پتلی گلی میں فوٹو اسٹیٹ والے دوست نے کھڑے کھلوتے مشکل آسان کردی۔۔۔۔۔ ’’چا ئے پانی ادھار رہا ، فی الحال’ رشیلاٹَیم‘ ہے۔ بعضے بعضے گراہک بڑے چُٹے اورچَھٹے ہوئے مِیسنے ہوتے ہیں۔ اُس آخیا۔۔۔۔ ہیں کواکب کچھ ، نظر آتے ہیں کچھ ۔ سمجھا کرناں یار‘‘)۔ اور یار سمجھ گئے۔ اسی سمجھداری میں کتاب پڑھنے لگے، ایک سو بیس صفحات کا سفر پہلی بار ڈیڑھ  دو  گھنٹے میں ختم ہو گیا۔اس کے بعد موٹر وے خلاص اور گڑھے شروع ۔۔یعنی انگریزی!   اگرچہ شناختی کارڈ نامی انگریزی تحریر صرف 14   صفحات پرمشتمل ہے لیکن موٹر وے سے اُتر کر آپ سہراب گوٹھ تا اسکیم ۳۳ سفر کر کے تو دیکھیں ، بقیہ رات شبِ ہجراں کی طرح ناقابل بیاں مقاماتِ آہ و فغاں پر نمک کی ٹکوریں کرتے نہ گذرے تو پیسے واپس۔

ضمناً عرض کردیں کہ ہم اپنے کُف قبیلے میں سب سے زیادہ رنگ برنگے واقع ہوئے ہیں ۔ کہیں سے باقاعدہ کالے،کہیں کہیں سے قدرے سلیٹی ۔ یعنی ’’ٹک بکے‘‘ (چتکبرے؟) ۔ لیکن ماں اور دادی مُڈھ دیہاڑے سے ہمیں علیٰ الترتیب ’’چنّ‘‘ اور ’’چِٹّا‘‘ کہتی تھیں۔ یہ ماٰٗئیں اور دادیاں بھی قَسم سے بڑی کوُڑی ہوتی ہیں ، اولاد میں اپنے پلّے سے ایسے ایسے وصف ڈال دیتی ہیں کہ رہے نام سائیں کا۔ مصنف بھی اپنی معنوی اولاد میں پلّے سے چُن چُن کے وہ گُن شامل کرتے ہیں جوتصنیف میں کُجا، خود مصنّف میں بھی نہیں ہوتے۔ مثلاً آمد، آورد، ابتذال ، ایجاز، تخلیص، تقریط ، تعلیل ، تغّزل ، واسوخت وغیرہ۔ لیکن سب سے زیادہ تصغیراور تکسیرامجد ممتاز کی زیرنظرِ پہلوٹھی کی اولاد میں دیکھنے کو ملی ہے ۔ اُنہیں پورا حق ہے کہ اس کی پیدائش پر خواتین کی طرح ڈینگیں اور حضرات کی طرح ڈانگیں اگر نہیں تو بڑھکیں شڑھکیں ہی ماریں۔۔۔۔۔ ’’نی بھابیئے ! متی پوچھ ۔۔۔ ایدھر لات، اودھر مُکّا۔ اس پاسے جانگھ ،اُس طرف تانگ۔اللہ کرے ایسی کپتّی اولاد کسی اور شریف مرد کو نہ جننی پڑے‘‘وغیرہ وغیرہ ۔ اس کے باوجود جننے والا اس مجموعہ کی کہانیوں کو ادھوری کہانیاں کہنے پر مُصر ہے۔ تو مال اُس کا۔

لیکن یہاں ہمیں پنجابی کے نظیراکبرآبادی ،محترمی و مکرّمی انور مسعود کی ایک نظم میں دورانِ سفر رکشہ والے ،اُس کے معاون اور سواری کےمابین گفتگو یاد آ رہی ہے ۔ وقت گذاری کے لئے ڈرائیور نئی فلم کے بارے میں سُنی سنائی سناتا ہے تو معاون پھٹ پڑتا ہے کہ ’’چکوری‘‘ میں
’’کہانی کہانی ہے گی جے اشٹوری وِچ کوئی نئیں‘‘
لیکن ہم جس چکوری کی بات کرنے لگے ہیں وہ سُنی سنائی نہیں پڑھی پڑھائی ہے۔ ذرا پردہ سیمیں پر اس کا ایک منظر’’سیز فائر‘‘ دیکھ لیں :
’’ وہ درجن بھر قدم نوکیلے پتھروں پر چلتی رہی اور پھر ڈرتے ڈرتے اُس نے پُل پہ قدم رکھا ۔ ابھی وہ پُل کے درمیان تک پہنچی تھی کہ  سامنے سے فائرنگ شروع ہو گئی اور پھر دوسری طرف سے جوجوابی فائرنگ کا سلسلہ جاری ہو گیا۔ دوگولیاں اُس کے سینے میں لگیں اور کئی ایک کمر میں پیوست ہو گئیں۔ وہ لڑکھڑاتی ہوئی پُل پر گری اور کچھ ہی لمحوں میں اس دُنیا سے رخصت ہو گئی۔ فائرنگ کا
سلسلہ کچھ دیر جاری رہا اور پھر دونوں جانب سے کمانڈروں کی آوازیں میگافون کے ذریعہ گونجیں ’’سیز فائر‘‘۔ دونوں جانب سے سفید پرچم لہرائے گئے اور کچھ دیر بعد ہر دو جانب سے ایک ایک
سپاہی مارچ کرتا ہوا پُل پر آیا۔ دونوں نے لاش کی تلاشی لی اور پھر اسے اتھا کر نیچے بہتے ہوئے جہلم کی موجوں کے حوالے کردیا۔۔۔‘‘

Advertisements
julia rana solicitors

جس کہانی کا اختتام ایسا ہو، کشمیریوں سے پوچھ لیں ،وہ کہانی ہے یا مسلسل حقیقت؟ حقیقت ادھوری ہوتی ہے یا پوری؟۔ ’’شناختی کارڈ‘‘،’’جنت میں گھر‘‘کس زاویہ سے ادھوری ہے؟؟۔کیا قاری کو’’چکوری‘‘ میں کہانی کے ساتھ ساتھ ’’اشٹوری‘‘بھی درکار ہے ؟ اس مجموعہ میں تو ایک بھی کہانی ادھوری نہیں ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply