یہ نظم 1972 میں لکھی گئی، یعنی لگ بھگ نصف صدی پیشتر۔
کنوارے جسم پر اک گیلی ساڑھی
بیاہے ہاتھ میں پوجا کی تھالی
کھنکتی پائلوں میں لاکھ نغمے
شوالے کو چلی جاتی تھی ناری
میں کچّا تھا، بہت نادان تھا میں
رموز ِ عشق میں انجان تھا میں
وہ گنگا جل سی نرمل استری تھی
گناہوں سے بھرا انسان تھا میں
یہ دو روحوں کا جسمانی ملن تھا
کہ دو جسموں کا جنسی بانکپن تھا
مگر جو کچھ ہوا، اک حادثہ تھا
یہی قدرت تھی، قدرت کا چلن تھا!
فقط کچھ ہی دنوں کا ساتھ تھا یہ
کہ بھنورا جیسے گُل کے پاس آئے
ملے اک میٹھے بوسے کے لیے ہی
ہمیشہ کے لیے پھر چھوڑ جائے
چُرانے مغربی پھولوں کے رس کو
کسی بھنورے سا میں بھی اُڑ گیا تھا
بہت سے اجنبی پھولوں کے دل میں
میں خود بھی اجنبی بن کر رہا تھا
میں امریکا سے لوٹا تو ہوں، لیکن
مرے پاپوں کی کچھ گنتی نہیں ہے
مجھے یہ علم ہے، اے گنگا میّا
مرے جیون کی مکتی اب یہیں ہے
کہاں ہے اب مری بنت ِ بنارس؟
کہاں، کس حال میں وہ نازنیں ہے؟
چپکتی جسم سے اک گیلی ساڑھی
مری یادوں سے تو جاتی نہیں ہے!
مرے پاپوں کو دھو دو گنگا جل سے
مجھے پھر سے وہی جلوہ دکھا دو
سلامت ہی رہیں سب گھاٹ، مندر
مجھے نرمل، پوتّر، شُدھ بنا دو!!
ہمیشہ زندہ رہ اےحسن ِ کاشی
“بہ ملک ِ دلبری پائندہ باشی”۰
مجھے تو نے دیا تھا عشق ِ اولیٰ
“۰کرم کردی” بنارس، “۰زندہ باشی!”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۰امیر خسرو سے ماخوذ ۰
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں