افسانہ

بابا پیر کی جوئیں / مصباح نوید

توت کی لچکدار شاخیں موڑ کر مہارت سے چھجا سا بنایا ہوا تھا۔مدھو مالتی کی بیل کے نیچے ادھ چھپا برآمدہ سیمنٹ کا فرش،دیواروں کے ساتھ اکھڑا چونا پڑا تھا۔گھر کا داخلی دروازہ برآمدے میں کھلتا تھا۔ روشندانوں اور کھلی←  مزید پڑھیے

چھوٹا گوشت/کلثوم رفیق

پیاز ٹماٹر بھی ختم ہو رہے ہیں۔۔۔ لیتی جاؤں۔۔۔ آصف نے بھی آج جلدی آجانا ہے۔۔۔ آج آصف کی پسند کا کھانا بن جاۓ تو۔۔۔۔ پر آصف کو تو۔۔۔۔۔! کیسے دے رہے ہو پیاز۔۔۔؟ باجی سستے ہیں اب تو ریٹ←  مزید پڑھیے

پُر امن مسکن/سید محمد زاہد

مقبوضہ علاقوں کے باسیوں کی زندگی موت و حیات کے گہوارے میں جزر و مد کی طرح جھولتی رہتی ہے۔ جہلم ندی کی موجیں انہیں جھولے جھلا رہی تھیں۔ لائف جیکٹس سے کبھی ہوا نکال کر گہرے پانی میں غوطہ←  مزید پڑھیے

پاکستانی ہو یا ہندوستانی؟-مسلم انصاری

اب جیسی لکھی ہو ویسی آنے سے روک کون سکتا ہے، ہاں مگر ذی شعور ہوں تو ایک خوف سا جگہ بنا لیتا ہے تقسیم ہند پڑھتے تھے، اپنے پُرکھوں کی ہجرت ان کی آنکھوں میں دیکھ رکھی تھی اور←  مزید پڑھیے

افسانہ۔ لمس/نیلم احمد بشیر

ہاں ہاں پتہ ہے پتہ ہے کہ میری عمر بہت ہو گئی ہے ۔قبر میں ٹانگیں لٹکائے بیٹھی ہوں ۔بہت سی بہاریں اور بہاروں کے نام پر عجیب و غریب زمانے دیکھ چکی ہوں ۔یہ بھی معلوم ہے کہ عنقریب←  مزید پڑھیے

وجود/سید محمد زاہد

’’گڈ مارننگ! اس نئی کلاس میں آپ کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ میرے پڑھانے کا طریقہ روایتی ہے اور نہ ہی آپ سکول کے بچے کہ آپ کو قلم پکڑنا سکھایا جائے یا رٹے لگوائے جائیں۔ یونیورسٹی کی تعلیم سکول←  مزید پڑھیے

ادھوری کہانی/سخاوت حسین

شام کا وقت تھا میں اورٹینا ساحل پر ٹہل رہے تھے۔ ہم اکثر ہفتے کے دن وقت گزارنے یہاں آتے تھے۔ ہفتے کی مشقت بھری ملازمت سے نجات ملنے کے بعد یہاں ٹہلنا کسی خواب سے کم نہ ہوتا تھا۔←  مزید پڑھیے

جنت/تحریر-عارف خٹک

وہ کافی دیر تک خاموشی کے ساتھ کپڑوں سے بے نیاز میرے پہلو میں لیٹی ہوئی تھی۔ میں کتاب پڑھتے ہوئے کبھی کبھار کن انکھیوں سے اسے دیکھ لیتا اور بے اختیار میرا ہاتھ اس کے جسم پر رینگ جاتا۔←  مزید پڑھیے

اکلوتا بیٹا/مسلم انصاری

میں اور میری بیوی ہمارے اکلوتے بیٹے سے اتنی ہی محبت کرتے تھے جتنی کسی بھی متوسط طبقے کے والدین میں پائی جاتی ہے، میں ہمیشہ کوشش کرتا کہ وہ جس چیز کی خواہش رکھے میں اسے کسی نا کسی←  مزید پڑھیے

موت/سید محمد زاہد

دھوئیں اور گرد و غبار کے بادل روازنہ ابھرتے آفتاب کی نقاب پوشی کرتے۔ دن بھر فضائے آسمانی پر یہی چھائے رہتے۔ شام کو دبیز دھویں کی سحابی فوج تحت الثریٰ کی طرف جاتے سورج کی روشنی ڈھلنے سے بہت←  مزید پڑھیے

چندر مکھی/ محمد عامر حسینی

نوٹ برائے وضاحت: یہ ایک افسانوی تحریر ہے۔ اس میں بیان کردہ تمام کردار، واقعات، مقامات اور ادارے مکمل طور پر فرضی ہیں۔ اگر کسی حقیقی واقعے یا شخصیت سے مشابہت محسوس ہو تو اسے محض اتفاق سمجھا جائے۔ یہ←  مزید پڑھیے

بے غرض، ایک افسانچہ/عاطف ملک

دستک پر دروازہ کھولا تو سامنےدرمیانی عمر کا باریش شخص کھڑا تھا۔ قد درمیانہ تھا اور داڑھی خصاب سے سیاہ کی گئی تھی مگر رنگ چھپانے کی کوشش کے باوجود داڑھی کے بالوں کے سروں سے سفیدی اپنا رنگ ظاہر←  مزید پڑھیے

فاروق بلوچ

افسانہ: *دروازے کے سوراخ سے چٹان تک* آخری حصہ مصنف: کامریڈ فاروق بلوچ ۷ رات کی سیاہی گہری ہوتی جا رہی تھی۔ سرد ہوا دروازوں سے ٹکرا رہی تھی اور دور کہیں شہر کی گلیوں میں تنہائی سرگوشیاں کر رہی←  مزید پڑھیے

دروازے کے سوراخ سے چٹان تک(1)- کامریڈ فاروق بلوچ

یہ شہر عجیب تھا۔ یہاں ہر دروازہ ایک داستان تھا، اور ہر داستان ادھوری۔ یہاں کے باسی عجیب تھے—نہ مکمل رخصت ہوتے، نہ مکمل قیام کرتے۔ وہ لوگ جو ایک دوسرے کے قریب آتے، کچھ وقت ساتھ گزارتے، پھر اچانک←  مزید پڑھیے

تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے/شاہین کمال

سو سوری یوسف میری آنکھیں ہی نہیں کھلیں! نمرہ نے جلدی جلدی اپنے بکھرے بالوں کو سمیٹ کر جوڑا بناتے ہوئے چولھے کا برنر آن کیا۔ رہنے دو نمرہ تم پریشان مت ہو میں نے انڈا ابال کر کھا لیا←  مزید پڑھیے

افسانہ: آخری صف کا طالب علم / کامریڈ فاروق بلوچ

وہ ہمیشہ آخری صف میں بیٹھتا تھا۔ نہ اتنا نمایاں کہ استاد کی نگاہیں اس پر ٹک جاتیں، نہ اتنا غیر اہم کہ مکمل فراموش کر دیا جاتا۔ وہ ایک درمیانی سا وجود تھا— بین السطور پڑھی جانے والی تحریر،←  مزید پڑھیے

افسانہ: اللہ اکبر /محمد ہاشم خان

وہ ٹیوشن سے نکلا، کتابیں بغل میں دبائے سڑک پر آیا اور اپنے گھر کی جانب رواں ہوا ۔ ابھی اس نے تھوڑی ہی مسافت طے کی تھی کہ تین چار چرسی آپس میں جھگڑا کرتے ہوئے سامنے آن کھڑے←  مزید پڑھیے

روٹھا ہُوا جاڑہ/ڈاکٹر نوید خالد تارڑ

اس برس سردی نہیں پڑ رہی تھی۔ لوگ روز اس امید پہ بستر سے نکلتے کہ شائد آج کچھ موسم بدلے گا لیکن چند ٹھنڈی ہوائیں چلنے کے علاوہ دور دور تک سردی کا نام و نشان نہیں تھا۔ ہر←  مزید پڑھیے

افسانہ: ردی کی ٹوکری میں شناخت/ کامریڈ فاروق بلوچ

دفتر کی دیواریں ہمیشہ یکساں لگتی تھیں، جیسے صدیوں سے یہاں وقت رک گیا ہو۔ یہاں کام کرنے والے لوگ بھی ایک جیسے تھے—چپ چاپ، مشینی انداز میں چلتے پھرتے، اپنے چہروں پر مصنوعی مسکراہٹیں سجائے، جیسے وہ کسی نیم←  مزید پڑھیے

آخری خط /اے وسیم خٹک

کمرے میں اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ صرف ایک میز لیمپ کی مدھم روشنی تھی جو کمرے کے ایک کونے میں رکھے دوسرے  میز پر پڑ رہی تھی۔ میز پر ایک سفید کاغذ رکھا تھا اور اس کے قریب ایک قلم۔←  مزید پڑھیے