مرگِ آدم/محمد وقاص رشید

حیات آباد کی گلی سے آواز آئی۔ وقت کا کباڑیا پرانی سی ایک سائیکل پر دونوں طرف حاصل کی بوریاں سی باندھے صدا لگا رہا تھا “پرانی چیزیں بیچ لو” کباڑ بیچ لو۔ ۔

وقت نامی کباڑیا ایک کچے مکان کے سامنے آ کر رکا۔ یہاں ایک بابا اپنے بیٹے کے ساتھ رہتا تھا۔ بابے کو گاؤں میں سب بابا آدم کہتے تھے۔

دھواں دھواں ہوتے چھوٹے سے کمرے سے ایک پرانی سی چارپائی پر سے بابا آدم  اُٹھا۔ سرہانے کے پاس ٹٹول ٹٹول کر اپنی آنکھیں ڈھونڈیں۔ اندر والی کوٹھڑی میں داخل ہو گیا، بڑا اندھیرا تھا۔

کونے میں پڑی آس کی نہ جانے کب سے بجھی ہوئی لالٹین جلائی  اور ادھر اُدھر دیکھنے لگا۔ ایک کونے میں نہ جانے کب سے نائلن کے پرانے جوتوں کی طرح پڑی خواہشیں تھیں۔ دوسرے کونے میں گھی کے خالی کنستروں کی طرح دو چار خواب تھے۔ ایک پڑچھتی پر ردی کی طرح اسکی جفا اور ریاضت کے حساب کتاب کے رجسٹر تھے، بیتے لمحوں کی اداس اخباریں تھیں۔ ایک طرف مجبوری کے جالوں میں جکڑی ماضی کی تمنائیں رکھی تھیں۔

واپس مڑا تو ایک طرف زنگ آلود لوہے کے ٹکڑوں کی طرح خواب رکھے تھے۔ سیاہ کوٹھڑیوں میں روشن دنوں کے وہ خواب جو اپنے دیکھنے والوں کی آنکھوں میں آخر کالا موتیا بن جاتے ہیں۔ تعبیر کی صبح کی روشنی کیا پاتے، اپنی دیکھنے والی آنکھوں کی روشنی ہی چھین لیتے ہیں۔

آس کی لالٹین پھڑپھڑانے لگتی ہے۔ عمر کی ریزگاری کا تیل ختم ہونے کو ہے۔ بابا آدم جلدی جلدی یہ سامان اٹھاتا ہے اور وقت کے کباڑیے کے پاس پہنچ جاتا ہے۔ سانس پھولی ہوئی ، ماتھے پر پسینہ۔۔۔دل کی دھڑکنیں معدوم ہوتی ہوئیں۔

وقت کا کباڑیا یہ سب دیکھ کر مسکرا دیتا ہے۔ وزن کرتا ہے اور اچانک سنجیدہ سا ہو جاتا ہے۔ وزن اسکی توقع سے زیادہ تھا۔ کہنے لگا اتنے سکّے نہیں میرے پاس۔ اور ویسے بھی تو کیا کرے  گا اتنے سکّے، آدم بابا۔ کچھ سکّے لے لے اور ایک سفید چادر ہے کسی نے دی ،وہ رکھ لے ،تیرے کام آنے والی ہے ۔ بابا آدم کی آنکھوں سے دو بوندیں گریں کہ اب بس یہی بچی تھیں ۔

وقت کباڑیا بخت کے کھیسے سے جبر کا ہتھوڑا جس میں جفا کا دستہ ہوتا ہے نکال لیتا ہے۔ باباآدم کے سامنے اسکے خوابوں ، تمناؤں ، خواہشوں ، جیون بھر کی حسرتوں کو کوٹ کر یوں بنا دیتا ہے جیسے بابا آدم کا بوڑھا وجود۔

یہ چوٹیں اسکے دل پر لگی تھیں۔ بڑی گھبراہٹ تھی ۔ دل کی دھڑکنیں زندگی بھر معدوم ہی رہیں مگر آج تو جیسے کسی کے جاتے قدموں کی چاپ ہوں گویا۔ جیسے صدائیں دھیرے دھیرے سرگوشیاں بن جاتی ہیں اور پھر عمیق گہرا سکوت۔

آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا رہا تھا۔ ہاتھ کپکپا رہے تھے ، قدم ڈگمگا   رہے تھے۔ سانسیں ڈوبتی ہوئی ، نبضیں کھوئی کھوئی سی۔ اسے سمجھ آ گئی۔

سکے اور چادر لے کر پیچھے مڑا۔ پیچھے اسکا بیٹا کھڑا تھا وارث۔ وارث کے ہاتھ پر سکّے رکھے۔ کانپتے ہاتھوں سے  اسکا سر تھاما ، ماتھے پر بوسہ دیا تو اسکی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اسکے آنسو پونچھ کر بڑی نحیف سی آواز میں وارث سے کہنے لگا۔

میرے وارث ! اپنے خوابوں کا عشق تعبیر کے حسن کے سپرد کرنے سے جھجھکنا مت۔ مجبوریوں کے کتبے لگا کر اپنے دل میں کبھی خواہشوں کی قبریں مت کھودنا۔ شہرِ حیات کے خود ساختہ جلا وطن جب لوٹتے ہیں تو باقی عمر اجنبی بن کر رہتے ہیں۔ شرارت زندگی ہے، دکھاوے کی سنجیدگی کا آئینہ بن کر منہ چڑاتی ہے عمر بھر۔ حیات پر ایک پہلو کھلا رکھنا کہ تمہیں گدگدی کر سکے۔ دکھ کے بادل آئیں تو آنسو ضرور بہانا مگر پھر مسرت کی دھوپ کو ان آنسوؤں کے منشور سے من کے شفق پر آرزوؤں کی دھنک بنانے دینا۔ تمناؤں کی کلیوں سے عمر کی تتلی کو خوشبو سینچنے دینا۔ من کی موسیقیت پہ رقص کرنا ، دھڑکنوں کی تال پر گیت گانا۔ اور ۔۔ اور (آواز گم ہو رہی تھی ) کسی نے اسکے کاندھے پر ہاتھ رکھا اس نے پیچھے دیکھا۔ ملک الموت کو کہنے لگا بس چلتے ہیں ایک لمحہ۔۔۔

میرے وارث ! محبت جب کبھی تمہارے دل پر دستک دے تو کبھی منہ مت موڑنا۔ محبت کا بحران کائنات کا سب سے بڑا بحران ہے۔ جیب خالی ہونا تو کوئی غربت نہیں ۔۔اصل غربت دل کا محبت سے خالی ہونا ہے۔ غربت آنی جانی ہے ۔۔محبت یا آنی یا۔۔۔

آواز مدھم تر ہو گئی۔۔۔آخری بات ۔۔۔۔ زندگی کے سال نہیں لمحے جینا۔ دل ہو کہ  گھر ، تمہارا بیٹا کوئی کباڑ خانہ نہ دیکھے۔ یہی میری تلافی ہو گی میرے یار۔ ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بابا آدم خاموش ہو گیا۔ وارث نے نم آنکھوں کے ساتھ سفید چادر اوپر ڈال دی۔ وہ جیتے جی اتنی بار مرا تھا کہ مرنا اسکی سب سے بڑی ریاضت تھی۔ وہ ان لوگوں کی کھوکھلی باتیں سن رہا تھا جن کی وجہ سے جیتے جی مرا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ انہیں خاموش کرا دے۔ مطمئن تب ہوا جب مٹی اس پر آن پڑی۔ وہ مٹی جہاں سے اسکا خمیر اٹھایا گیا تھا۔ بابا آدم آج واقعی مر گیا تھا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply