بسم اللہ اولہ وآخرہ ۔۔۔ معاذ بن محمود

جان۔۔ کب نکل رہے ہیں تمہارے اماں ابا؟

پیغام کے آگے چار دل والے ایموجی لگا کر اس نے سینڈ کا بٹن دبا ڈالا۔

دس منٹ میں۔ ٹھیک ایک گھنٹے بعد میں دروازہ کھول دوں گی۔ تم کوریڈور سے اندر آنا۔ دائیں ہاتھ والے کمرے کا دروازہ میں ائیرکولر سے کور کر دوں گی۔ تم میرے کمرے میں خاموشی سے پہنچ کر دروازہ بند کر دینا اور مجھے میسج کر دینا۔ اور ہاں۔۔۔ گلی میں پہنچکر ایک کال کر دینا۔ میں چھوٹے بھائی بہن کو باتوں میں لگا لوں گی

یہ پڑھ کر اس کے من میں لڈو پھوٹنے لگے۔ جملہ اعضاء میں خون کا بہاؤ تیز ہوگیا۔ وہ فلمکچھ کچھ ہوتا ہےکی عملی تعبیر دکھائیدینے لگا۔

آئی کینٹ سٹاپ تھنکنگ اباؤٹ یو بے بی

اس کی ذہنی حالت واقعتا ایسی ہی تھی۔

دس منٹ بعد اس نے پھر سے میسج کیا۔

نکل گئے؟ میں آجاؤں؟

صبر بھی کرو۔۔۔ میرا بھی دل ہے ملنے کا۔۔ امی ابو تو چلے جائیں

تم نے ہی کہا تھا دس منٹ میں چلے جائیں گے۔ گئے نہیں اب تک؟

اب نہیں نکلے تو کیا دھکے دے کر نکالوں؟

اوہو۔۔۔ ناراض تو مت ہو۔۔ چلو میں انتظار کر رہا ہوں۔ اپڈیٹ دو مجھے

اوکے

ایک بار پھر اس کی قسمت میں ساعتیں شمار کرنا لکھ دیا گیا۔

گھڑی کیٹک ٹکسے لے کر دل کیدھک دھکتک اسے تیز آواز میں سنائی دے رہی تھی۔ یہ موقع اسے دوسری بار مل رہاتھا۔ پچھلی بار بس دو تین منٹ ہی نکل پائے تھے۔ اس بارالحمد للّٰہپورا ہفتہ میسر ہونے والا تھا۔ اس کا ذہن اچانک پچھلیملاقات پر گیا ہی تھا کہ اچانک۔۔۔

آجاؤ

موبائل پر میسج نمودار ہوا۔

یسسسسسسسس۔۔۔ آیا

اس نے اپنی دلی کیفیت کو موبائل کی پیڈ کے ذریعے ٹائپ کیا اور الیکٹرومیگنیٹک ویوز میں منتقل کر کے بھیج دیا۔

ظہیر۔۔۔ میں گیا۔۔۔ یاد رکھنا۔۔ گھر سے میسج اوّل تو آئے گا نہیں، آ بھی جائے تو ہم اکبر کی طرف کمنائینڈ سٹڈی کر رہے ہیںاور واپسی میں سات دن لگ جانے ہیں۔۔۔ یاد رہے گا ناں؟

ہاں حر*می۔۔۔ یاد رہے گا۔۔۔ جا مزے کر

وہ ایک کمینی سی شیطانی مسکراہٹ کے ساتھ اپنی منزل مقصود کی جانب نکل پڑا۔ تیز تیز قدموں سے چلتے ہوئے دس منٹ کا راستہسات منٹ میں طے کرتا ہوا گلی کے نکڑ پر پہنچ کر کال ملائی۔ آگے سے کال کاٹ دی گئی۔

پہنچ گئے؟

کال منقطع ہوتے ہی میسج موصول ہوا۔

ہاں، دروازہ کھول کر اندر جاؤ اور اپنی عوام کو باتوں میں لگاؤ

اوکے

دل میں پھوٹتے لڈؤوں کو سنبھالتا ہوا وہ دروازے پر پہنچا۔ ٹی وی کی آواز باہر تک آرہی تھی۔

عقل مند ہوگئی ہے

دروازہ کھلتے ہوئے ہلکی سی احتجاجی آواز نکالتا جس کا گلا گھونٹنے کے لیے ٹی وی کی آواز ضروری تھی۔ وہ دروازہ کھول کر اندر داخلہوا۔ چپل اتار کر ہاتھ میں تھامی اور خاموشی سے کوریڈور میں بڑھتا چلا گیا۔ کوریڈور ختم ہونے پر ٹی وی لاؤنج واقع تھا۔ قریب چارفٹ دور ہی سے وہ جھک گیا اور دبے قدموں چلتا ہوا بائیں ہاتھ پر واقع کمرے میں چلا گیا۔ اندر پہنچ کر دروازے کے پیچھے کھڑا ہوا،موبائل نکالا اور میسج داغا۔

آجاؤ

چند گھڑی خاموشی رہی اور اس کے بعد آواز آئی۔

میں ذرا کمرے میں جا رہی ہوں، کوئی کام ہو تو آواز دے دینا۔ کھانا تم دونوں کھا چکے ہو۔ تمہاری مرضی کا کارٹون لگا دیا ہے۔ دوگھنٹے تک تنگ نہ کرنا مجھے

اس کے بعد قدموں کی مختصر چاپ سنائی دی۔ وہ کمرے میں آئی۔ دروازہ بند کیا۔ کنڈی لگائی۔ اب وہ دونوں کمرے میں اکیلے تھے۔یہ آزادی جزوی تھی تاہم رہی سہی قدغن صبح چھوٹے بہن بھائی کے سکول جاتے ہی ختم ہوجانی تھی۔ اگلا ایک ہفتہ ایسے ہیگزرنا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس نے ایک ہفتے بعد دن کی روشنی دیکھی تھی۔ اگرچہ اس کا کمرہ چھوڑتے اسے ہر شے بری لگ رہی تھی تاہم باہر نکل کر اسےسورج کی روشنی سے لے کر یہاں وہاں کچرا بھی پیارا لگ رہا تھا۔ اس کی روح سرشار تھی۔ اس کا دل تھا کہ خوشی سے جھومناشروع کر دے۔

تاہم اس کی ٹانگیں لرز رہی تھیں۔کسی حد تک کمزوری حقیقی تھی، باقی کی کسر سنی سنائی نے پوری کر دی تھی۔ اس نے سوچا گھرجانے سے پہلے جوس کی دوکان سے گزرا جائے۔

ایک ہفتے پہلے کی نسبت اب وقت تیزی سے چل رہا تھا۔

وہ جوس کارنر میں داخل ہوا۔ یہاں اس نے ڈرائی فروٹ، بالائی اور شہد والا کیلے کا ملک شیک آرڈر کیا جو کچھ ہی دیر بعد اس کےسامنے رکھ دیا گیا۔ وہ پورا مگ تین سانسوں میں چڑھا گیا۔ سینے میں ٹھنڈ تو پڑی مگر کمزوری تھی کہ اب تک جان چھوڑنے سےانکاری۔ اس نے ایک اور شیک آرڈر کیا اور انتظار کرنے لگا۔

اسی دوران اس نے موبائل نکالا اور فیس بک کھولی۔

قریب تمام وال ہی ملالہ یوسفزئی کی سرخ دوپٹّے میں تصویر کے ساتھ لفظی طور پرملال و ملالہوئی پڑی تھی۔ اس کی نظر ان میںسے ایک تصویر پر پڑی جس پر کیپشن کچھ یوں تھا۔۔

نکاح نامے پر دستخط کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ صرف پارٹنر بن کر کیوں نہیں رہ سکتے؟

یہ پڑھ کر گویا وہ بھنوٹ ہوگیا۔

بہن *ود۔۔۔ کیا *شتی لڑکی ہے

وہ اپنی ذہنی عکاسی ٹائم لائن پر کرنا چاہتا تھا تاہم اس کی فرینڈ لسٹ میں اس کی بہن بھی موجود تھی۔ اس نے غصے پر قابو کیا اورایک صائب صابر مسلمان بن کر اخلاقی اقدار کے مطابق لکھنا شروع کیا۔۔

شریعتِ محمدیؑ میں اس کی کوئی گنجائش نہیں۔ملالہ صاحبہ اگر خاتم النبین صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم  کی حیاتِ طیبہ کا ہی مطالعہ کر لیتی توکبھی ایسی بات اپنے منہ سے نہ نکالتیں

یہ لکھ کر پوسٹ شئیر کر دی۔

سامنے ملک شیک کا گلاس پڑا تھا۔ شیک کے اوپر پستہ اور بادام بالائی اور شہد کے نیچے کہیں کہیں جھلک رہا تھا۔

مگ کے ایک جانب سے سفید گاڑھا ملک شیک سست روی کے ساتھ بہتا نیچے میز پر گر چکا تھا۔

اس نے مگ اٹھایا، ہونٹوں تک لے کر ہی گیا کہ کچھ یاد آیا۔۔۔ وہ رکا۔۔ اور پھر ذیل پڑھ کر ملک شیک حلق میں انڈیل دیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

بسم اللہ اولہ وآخرہ

Facebook Comments

معاذ بن محمود
انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاست اور سیاحت کا انوکھا امتزاج۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply