جڑ والی رسولی/سلمیٰ کشم

“وقت زیادہ بے رحم ہوتا ہے یا انسان ؟”

صدف نے آئینے میں کھڑی ہمزاد سے پوچھا۔
اس کی آنکھوں کے گرد گہرے ہلکے سیاہ رتجگوں کی چغلی کھارہے تھے اس کے کھلتے رخساروں کا سرخ و سفید گوشت اب ڈھلک چکا تھا اس کے باریک گلقند سے ہونٹ روکھے پن اور بے رنگی کا شکار تھے ،اس کے شریں لبوں کا جام کسی مے خوار کے نصیب نہ بن سکا۔

گھنگریالے سنہرے بال جو سورج کی پہلی کرنوں کی طرح چمکیلے اور سردیوں کی دھوپ کی تمازت جیسی حدت رکھتے تھے ،وقت کی کڑی دھوپ نے انہیں جھلسا کر سفید کردیا تھا۔
اس کی دوشیزگی چھین لی جسے اپنی جوانی کے بارہویں سال سے لے کر بائیسویں سال تک اس نے مقدس امانت کی طرح سنبھال سنبھال کر رکھا تھا۔
سب بیکار گیا ۔
امید اور خواب کی ترنگوں سے روشن آنکھوں میں مقدر کے بے رحمی نے تاریکی بھر دی ۔
ندی کے پاکیزہ پانی کے بہاو جیسی زندگی اچانک سے کیسے آگ کا دریا بن گئی اسے پتا ہی نہ چلا
نیک نیتی ،حسن سیرت ،خوش اخلاقی ،عقل فراست ،تعلیم ،اور اس کی بے پناہ خوبصورتی پہ جب تقدیر کے فیصلےنے اپنی سفاک مہرثبت کی سب دھرے کا دھرا رہ گیا ،بے معنی اور بے مول ہوگیا۔

پورا خاکہ الٹ پلٹ گیا،
جس طرح کسی ظالم کی یلغار کے بعد کوئی تہذیب تہہ نہس ہوجاتی ہے ناک نقشہ حال حلیہ بالکل بدل جاتا ہے۔

اس کا مسکراتا تاثراتی چہرہ خاموش اور گم صم تھا ،آئینے نے بڑی بے دردی سے ساری سچائی اس کے منہ پہ دے ماری۔
اس کی ذات میں آج سے پچیس سال پہلے والی صدف کی کوئی پرچھائی تک نہ تھی۔

اس کی آنکھوں میں آج کچھ بھی نہیں تھا حتی کہ ایک آنسو بھی نہیں۔
اپنی ناقدری ،بے حرمتی اور ذات کے ادھورے پن نے اس کے حساس پن کو شکوے کی بجائے خاموشی میں بدل دیا تھا ۔

دیکھنے والے کو یہی لگتا اس کی خاموشی زندگی کے شور شرابے سے دوری ہے اس کے پاس بولنے کے لیے کچھ ہے ہی نہیں ۔۔۔
لیکن یہ تو صدف ہی جانتی تھی کہ ان گنت آوازیں اس کے اندر چیختی تھی ان کی آپسی بازگشت ہی اس کی خاموشی تھی۔
جب آوازیں زیادہ ہوں اور سننے والا کوئی نہ ہو تو آوازیں انسان کے اندر ہی دب جاتی ہیں انسان چپ اوڑھ لیتا ہے،سو صدف یہی چپ اوڑھ چکی تھی۔

وہ تایا زاد کزن جو صدف کی خوبصورتی اور اعلی تعلیم یافتہ ہونے کا متعرف تھا اور اس سے شادی کا شدید خواہش مند تھا صدف بھی اسے دل سےچاہتی تھی لیکن صدف کی اندرونی بیماری کا سن کر ایک طرف ہوگیا ۔

جب شادی کی تیاریاں چل رہی تھیں اور دو دلوں میں خوشیوں کی لیلہ رچ رہی تھی، صدف کو ایام کی بے قاعدگی سے شروع ہونے والی تکلیف نے تشویش سے دوچار کردیا ۔
تکلیف ناقابل برداشت تھی ،بیماری کی تشخیص کروائی تو پتا چلا بچہ دانی میں جڑ والی رسولی ہے ،جو دن بدن بڑھتی جارہی ہے اگر جلد آپریشن نہ کیا گیا تو صورت حال مزید کشیدہ ہوسکتی ہے۔
جڑ والی رسولی یوٹرس کو شدید متاثر کر چکی تھی اور پھیلتی ہی جارہی تھی ۔

“اچانک میرے ساتھ کیا ہو گیا؟۔۔۔ اتنی اذیت اتنی خطرناک بیماری،؟ ۔۔۔میری خوشیوں کو نظر کھا گئی کوئی۔۔۔۔ یہ بیماری نہیں سدا کا دکھ ہے
جس نے میرے وجود میں جڑیں گاڑ لی ہیں”

خوشیوں کی قوس قزح سے کھیلتی صدف کے جذبات افق کی بلندی سے پاتال کی گہرائیوں میں اترنے لگے ۔
دلہن کا نرم ریشمی سرخ لباس زیب تن کرنے کی بجائے تھیٹر کا بوسیدہ ناپسندیدہ لباس پہن کر وہ آپریشن ٹیبل پہ لٹا دی گئی۔

صدف کی زندگی بچانے کے لیے آپریشن کر کے یوٹرس نکال دیا گیا۔

آہ ،صدف۔۔۔بیچاری صدف مکمل عورت ہوکر بھی ادھوری ہوگئی ۔
شادی کے سپنے خاک اوڑھ کر سو ہوگئے جوانی کے جوش کے اٹھتے ابال حسرتوں کے مقتل چل دیے ، جوانی کی خوشبو ،مان ،نازو ادا ،حسین سپنے اس بھیانک سچ نے نگل لیے ، وہ لاچار مقہور بے بس ہوگئی۔

صدف جب ہسپتال سے گھر آئی ،گھر میں ایک قبرستان کی خاموشی تھی۔
بھابھیاں کونے کھدروں میں جاکر آپس میں چہ مگوئیاں کرتیں ،اور بھائی اس کا حال پوچھنے میں شرم محسوس کرتے ۔
یہ وہی بھائی تھے جو اس کی کمائی کھانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے تھے۔ اب بہن کا دکھ باٹتے ہوئے اس کا حال پوچھتے ہوئے شرم آڑے آرہی تھی ۔
ماں اور بہن کہتیں کہ صدف آہستہ آہستہ صحت مندی کی طرف آرہی ہے لیکن صدف دل میں کہتی۔
“کہ اس کا مرض بڑھ رہا ہے”.

وقت اپنی چال چلنے کے بعد کسی فاتح کی طرح قدم پہ قدم بڑھاتا گیا، کسی کی زندگی میں ٹھہراW آتا ہے تو بھلے آئے وقت کو اس سے کیا فرق پڑتا ہے وہ تو چلتا ہے دوڑتا ہے بھاگتا ہے اور وقت نے یہی کیا۔
صدف اپنے معاملے میں بے حس ہوجانا چاہتی تھی جس طرح وہ باہر سے خاموش تھی اس طرح وہ اندر سے خاموش ہو نا چاہتی تھی، لیکن سانس کی تسبیح چاپتے ہوئے آواز تو آتی ہے زندگی سانس سے عبارت ہے سانسیں کہاں چپ رہتی ہیں کوئی نہ کوئی دھن جاری کرتی رہتی ہے جسے زندگی کا ہر دن الگ الگ ساز کی لے پہ چلاتا ہے اور آوازوں کا جواز نکلتا ہی رہتا ہے۔

جس بات کو وہ فراموش کردینا چاہتی تھی
کسی نہ کسی بہانے سے لوگ اس بات کا تذکرہ چھیڑ دیتے مندمل ہوتے زخموں کی پہ نمک پاشی دکھ اور محرومی کے احساس کو بڑھادیتی ۔
کوئی کہتا
“افسوس کہ اب عمر بھر صدف کی شادی نہیں ہوسکتی”

“اری بہن صدف بیچاری کبھی ماں نہیں بن سکتی ناں ۔۔۔تو کون کرے گا اس سے شادی”

اس کی عیادت کے لیے آئی عورتیں آپس میں بات کرتیں۔
“بطور ڈیکوریشن پیس تو کوئی مرد گھر رکھ سکتا ہے نا”
کچھ رذلیل مردوں کے منہ سے یہ فقرہ سننے کو ملتا۔

صدف کو لگتا رسولی کی جڑیں اس کے وجود میں نہیں بلکہ لوگوں کی ذہنیت میں پھیل گئی ہیں اور سب لوگوں کو ذہنی رسولی ہوگئی ہے۔

کبھی اسے لگتا آپریشن کر کے یہ رسولی اس کے جسم سے نکالی نہیں گئی بلکہ مستقل اس کے ساتھ جوڑ دی گئی ہے وہ چاہ کر بھی اس رسولی کو اپنی زندگی سے الگ نہیں کرسکتی۔

صدف نے خود کو زیادہ مصروف کر لیا ایک ٹیچر سے سکول کی مالک بن گئی اور دن رات اپنے کام میں جتی رہتی ۔
بہن کی شادی ہوئی اور وہ بال بچوں میں کھیلنے لگی بھائیوں کی اولادیں بھی گھر میں رونق اورقہقے بکھیرنے لگیں ،سب اپنی اپنی زندگی میں روز و شب کی بہاریں لوٹنے لگے ۔

بہن بھائی اپنے آنگن میں مہکتے پھولوں کی خوشبو میں مست تھے،جبکہ صدف ایک کانٹے جیسا وجود لیے اس گلستان کا حصہ تھی۔

کبھی اسے لگتا کہ وہ اسٹور پہ پڑی کوئی بیکار چیز ہے جس کی ضرورت پڑنے پر اسے نکال لیا جاتا ہے،استعمال کے بعد واپس اسی جگہ رکھ دیا جاتا ہے۔

ایک ماں ہی تھی جسے اس کے دکھ سے سانجھ تھی وہ چاہتی تھی کہ صدف اپنے گھر کی ہوجائے مگر اس سےشادی کرتا کون؟ ۔

ایک خوبصورت تعلیم یافتہ، تہذیب یافتہ تیس سالہ لڑکی کے لیے رشتہ ڈھونڈے سے نہیں مل رہا تھا۔

نہ مطلقہ تھی نہ بیوہ نہ بدکردار اور نہ تیسری جنس سے تھی ،بے جرم و خطا نوشہء تقدیر میں جکڑی ایک معصوم عفت ماہ لڑکی ۔۔۔۔

جس کے سینے پہ دنیا کے تانے نشتر بن کر گڑ رہے تھے۔ماں نے بیٹوں کے سامنے مدعا رکھا ، کہ بھلے اچھا برا جو رشتہ بھی آتا ہے صدف کو بیاہ دیا جائے۔
بیٹوں کو جیسے سانپ سونگھ گیا ہو،ان کو گھر میں  سالہا سال سے آنے والی کمائی رکتی محسوس ہوئی۔
صدف کی لاچاری اور بیماری کو بہانہ بنا کر انکار کرتے رہے کہ آخر ماں بھی دنیا سے رخصت ہوگئی ساتھ صدف کو بیاہنے کی حسرت بھی تمام ہوئی۔

اب وہ پچاس سال کے لگ بھگ تھی، ایک کامیاب تعلیمی ادارہ چلارہی تھی شہر میں جس کے بہت سے کیمپس کھل چکے تھے ،وہ پروفیشنل جتنی کامیاب تھی اندر سے اتنی ہی شکستہ تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors

آئینہ سچ بول رہا تھا۔ وقت اور انسانوں کی بے رحمی نے صدف کے خال و خد کا نور چھین لیا تھا وہ اپنے وجود اور دل کی خوشی سے محروم تھی ۔
آج زندگی کی سفاکیوں کا احتساب کرتے ہوئے صدف کو لگا کہ اندرونی رسولی کی جڑیں اس کے وجود سے نکل کر سارے سماج میں پھیل چکی ہیں ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply