ظلمت سے نور کا سفر(قسط21)۔۔۔محمد جمیل آصف ،سیدہ فاطمہ کی مشترکہ کاوش

ہے خوشی انتظار کی ہر دم
میں یہ کیوں پوچھوں کب ملیں گے آپ

کچھ منفرد، خوشنما، دلفریب احساس، طبیعت میں مچلتی سرشاری کے ساتھ چہرے پر بشاشت اور ہونٹوں پر دوڑتی مسکان نوید صبح دے رہی تھی ۔
جب سے گھر بدرہوئی تھی ۔مختصر عرصے پاگل خانے اور پھر وہاں سے آمنہ کے گھر اور اب ایک چھوٹے سے اپارٹمنٹ میں میڈ کے ساتھ گزرتی زندگی ایک مشینی سا معمول دکھائی دیتی رہی، ایک ہی روٹین جس میں کبھی کبھی جمود اور بوریت سے طبیعت بوجھل بھی ہو جاتی، آج خلاف معمول کمرے کی بالکونی سے نظر آتے پارک جس پر ہمیشہ اس کی نظر پڑتی تھی کچھ نکھرا نکھرا لگنے لگا ۔ ضحی خوشگوار حیرانگی سے سوچ رہی تھی کہ معمولِ زندگی تو روز کا یہی ہے لیکن یہ تبدیلی کیسی ۔؟
خود سے سوالات کی بوچھاڑ اور اظہر شاہ کا تصور آتے ہی چہرے پر حیا کی سرخی نے ڈورے کھینچ دئیے ۔
“کیا یہ نئے رشتے کی بنیاد رکھتے ہی احساسات کی تبدیلی ہے”؟
دل میں عجیب لطیف جذبات، نئی امنگوں کے ساتھ اٹھ رہے تھے جسے فل حال کوئی بھی نام دینے سے قاصر تھی ۔ فون پر اظہر شاہ نے آمنہ کے گھر ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔وہ اپنی جگہ ٹھیک تھا۔اکیلی عورت بزنس وومین بھی ہو تو اس کا معاشرتی تحفظ ایک خاندانی مرد ہی کر سکتا ہے۔
ضحی نے آمنہ کو اپنے گھر بلا کر مشاورت کرلی ۔طے یہ پایا کہ آمنہ یہیں رہے گی جب اظہر شاہ آئےگا اور آمنہ اسے ذہنی طور پہ اس کے آنے کے متعلق تیار کرچکی تھی ۔اندر کی تلخی نے ضحی کو آمنہ کے سامنے زہر اگلنے پہ مجبور کیا ۔
” کاش میری امی نے میرے لیے کوئی روزن کھلا چھوڑا ہوتا میں بھی اپنے باپ کے گھر سے رخصت ہوتی جہاں میرے لڑکپن کے خواب ہیں جہاں سے میری گڑیا کی ڈولی اٹھی تھی جہاں ہر لال دوپٹہ میں نے دل میں انگڑائی لیتی معصوم سی خواہش کے ساتھ اوڑھا تھا۔جیسے ریشمہ وہاں مان اور عزت سے رخصت ہوگی ”

آمنہ نے اسے گلے سے لگا کر الگ کیا۔
“اس موقع پہ یہ یاد آنا فطری ہےلیکن خواب ہمیشہ صبر کے کانٹوں سے تعمیر ہوتے ہیں اور پھر انکی تعبیر بہت خوبصورت ہوتی ہے ضحی
دل میں اب بغض رکھنا چھوڑ دو یہ بے چین رکھتے ہیں ۔دوسرا لوگوں کی پرواہ  کرنا چھوڑوں ۔اظہر بہت اچھا ہے اور وہ تمہیں خوش رکھے گا۔اب تم شکوہ نہیں شکر کرو گڑیا ۔۔۔اللہ کو ناراض مت کرو کیونکہ تمہارے پاس ایک ہی دوست صرف اللہ ہے اور وہ بہت قیمتی ہیں۔ لوگوں کے لیے خیر بن جاؤ۔ ان کو نقصان پہنچانے سے باز رہو ۔اب یہ سوچ رکھو کہ اظہر کی ہم سفر ہوکر اچھے کام کرو اور اچھے لوگوں کی صحبت میں رہو۔ زندگی تمہیں ایک اور موقع دے رہی ہے ۔ایک گھر جس کی بنیاد تم ہوگی اور اس گھر کے ماحول کی محافظ ہوگی۔”

شام میں اظہر خوش بو کی طرح ہوا کے ساتھ آیا اور عقد نکاح و رخصتی کی تاریخ مقرر کرکے چلا گیا۔ روایتی طور طریقے اور ضحی کے مان کے سارے سامان کے ساتھ آیا ۔لیکن اس کے جانے کے بعد گھر کی دیواریں ضحی کو چھوٹی محسوس ہونے لگیں ۔تمام دروازے اور کھڑکیاں بند کرکے وہ بستر پہ آکر لیٹ گئی۔۔۔
موبائل کی رنگ ٹون پہ موبائل اٹھا کر مسیج کرنے والے کا نام پڑھا۔۔۔جلی حروف میں اظہر شاہ جگمگا رہا تھا۔
مسکراہٹ ضحی کے لبوں کو چھو گئی

Advertisements
julia rana solicitors

“اب دیکھتے ییں پہلے مسیج میں وہ کیا لکھتے ہیں جناب۔۔”
اپنی سوچ پر خود ہی شرما گئی اور دوپٹے کے پلو کو اپنی الجھی سوچوں کی طرح لپیٹنے لگی ۔
مسیج کھولا اور سکون جسم میں بھر گیا ۔اب وہ آنکھیں موند گئی اور پرسکوں نیند کی وادی میں وہ پری بن کر اتر گئی۔
“لاکس اور بولٹس چڑھا لیں ضحی۔صبح دفتر ملاقات ہوگی ۔چوڑی ،انگوٹھی اور جوتے کا نمبر بتائیے گا۔ماپ بھی لیتی آئیے گا۔برا نہ لگے تو آمنہ کے ساتھ جا کر کسی دن ہم نکاح کے کپڑے لے لیں گے۔شب بخیر”۔۔۔
اور زندگی کے نئے دورانیے کے آغاز نے دستک دی ۔چند الفاظ اور اس میں چھپے پیغام نے حیات نو کی نوید سنائی اور زندگی ایک نئے ڈھب پر ایک خودکار انداز میں چل پڑی ۔
پہلے ضحی کو لگتا تھا کہ میں اور زندگی کے میرے ہی فیصلے ہیں ۔اور اچھے برے، نفع نقصان کی ذمہ داری میری ہی ہو گی ۔
لیکن نئی زندگی اب میں سے ہم کا سفر ہے ۔جہاں مان کے ساتھ مشاورت سے چیزیں طے کی جائیں گی ۔اور ان فیصلوں کو احترام دیا جائے گا ۔
“ضحی میری جان ایک بات یاد رکھنا، شوہر کبھی روک ٹوک نہیں کرتے، جب آپ انہیں آگاہ رکھتے ہیں کسی بھی کام کرنے سے پہلے ۔ جب آپ ان سے اجازت طلب کرتے ہیں تو انہیں ایک مان کا احساس ہوتا ہے، اپنی ذات اہم لگتی ہے ۔مرد توجہ کا طلبگار ہوتا ہے اس توجہ کی کنجی اپنائیت کے ساتھ اسے خود سے مقدم ہونے کا احساس دلانا ہے لیکن جب تم اس پر خود کے ساتھ اپنی مرضی بھی مسلط کرو گی تو دل سے جلد ہی اتر جاؤں گی ۔ایک اچھے کاروباری فرد کی طرح جو اپنے کلائنٹ کی خواہشات اور طلب کے مطابق چلتا ہے اور اس کے مزاج کے حساب سے معاملات کو طے کرتا ہے ایسے ہی اپنے شوہر کے بارے فہم و فراست اور درگزر رکھنا ۔پھر ایک وقت ایسا آئے گا کہ وہ آپ کو پلکوں پر بٹھا کر رکھے گا ”
آمنہ اسے زندگی کے نشیب و فراز سے آگاہ کرتے ہوئے ایک شفیق استاد، مہربان دوست اور راہنما کے طور پر اس کی راہ حیات کو سہل بنا رہی تھی ۔۔۔ ڈھلکتے شام کے سائے میں ڈوبتا سورج اس کی زندگی کی تنہائیوں کو بھی ساتھ لے جا رہا تھا ۔ضحی خود کو پہلے سے زیادہ مضبوط اور خود اعتمادی سے بھرپور محسوس کرنے لگی ۔
جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply