ٹورنٹو(مکتوب /2)-انجینئر ظفر اقبال

یوں تو کینیڈا سیٹل ہونے والے ہر مہاجر کی اپنی الگ ہی داستان ہے لیکن وہ لوگ زیادہ مسائل کا شکار ہوتے ہیں جو دو کشتیوں کے سوار ہوتے ہیں۔ ان میں سے اکثر لوگ وہ ہوتے ہیں جنہوں نے بھیڑ چال یا دیکھا دیکھی میں امیگریشن اپلائی کی ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں کا پلان صرف کینیڈین سیٹیزن شپ کا حصول ہوتا ہے تاکہ سوشل سکیورٹی، ہیلتھ اور تعلیم کی سہولیات تک رسائی ہوجائے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ پاسپورٹ آجائے تو بعد میں دیکھیں گے کیا کرنا ہے۔ پاسپورٹ کے حصول کا عرصہ کم ازکم تین سے پانچ سال ہوتا ہے۔ مسئلہ تب بنتا ہے جب ان کے پاس پاسپورٹ آجاتا ہے لیکن پھر بھی یہ لوگ کوئی مستقل فیصلہ نہیں کرتے اور اس دوران یہ لوگ اپنا پاکستانی سیٹ آپ یا نوکری بھی ساتھ ساتھ چلانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔

یہ ہروقت پاکستان اور کینیڈا کا تقابل کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ انہیں کبھی پاکستان وارے میں نظر آتا ہے تو کبھی کینیڈا کے صدقے واری جانے لگتے ہیں۔ بار بار ٹوپیاں بدلنے سے یہ کسی ایک جگہ فوکس نہیں کرپاتے۔ یہ نہ تو کینیڈا سیٹل ہونے کی لانگ ٹرم پلاننگ کر پاتے ہیں اور نہ ہی اپنے پاکستانی سیٹ یا جاب سے انصاف کر پاتے ہیں۔ نتیجتاً یہ دونوں جگہ پر اپنے ہم عصر اور ہم پیشہ لوگوں سے پیچھے رہنا شروع ہوجاتے ہیں اور یہ چیز انہیں اور زیادہ ڈپریشن میں لے جاتی ہے۔ یہ کبھی دوتین سال کے لئے پاکستان بھاگ آئیں گے اور پھر اچانک کینیڈا چلے جائیں اور یوں اپنی زندگی کے بہترین دس بارہ سال ضائع کرکے انہیں ادراک ہوتا ہے کہ عمر تو گزر گئی کسی ایک جگہ کا فیصلہ کر لینا چاہئے تھا اور اکثر پھر بھی درست فیصلہ نہیں کرپاتے۔

ان کے برعکس کچھ دبنگ مہاجر ہوتے ہیں۔ یہ بڑے زبردست لوگ ہوتے ہیں۔ یہ اپنی تمام کشتیاں جلا کر کینیڈا روانہ ہوتے ہیں۔ انہوں نے ہر قیمت پر کینیڈا سیٹل ہونا ہوتا ہے۔ یہ فوکسڈ ہوتے ہیں اور ان کی مٹھی میں پلان اے، بی، سی ان کے پاس موجود ہوتے ہیں۔ انہیں پتہ ہوتا ہے کہ دس سال سخت مزدوری ہے۔ یہ اس مزدوری کو بھی اپنے لانگ ٹرم گول کا راستہ سمجھ کر عقلمندی سے کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ آہستہ آہستہ اپنے قدم جماتے جاتے ہیں اور ایک دن ناقابلِ یقین حد تک کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ایسے ہی لوگ نہ صرف کینیڈا کے لیے بلکہ پاکستان کے لئے بھی بالآخر نیک نامی کا باعث بنتے ہیں۔

دبنگ لوگوں میں سے ہی میرے یوای ٹی لاہور کے ایک انجینئر  دوست ہیں جنہوں نے آج سے پچیس سال پہلے ٹورنٹو کے نواح میں ایک پٹرول پمپ پر فِلر کی حیثیت سے کام شروع کیا ایک سال بعد اسی پمپ کی فرنچائز لے لی، پھر دوسری فرنچائز لی، ساتھ پراپرٹی میں گھسے پہلے ایک گھر لیا پھر دوسرا ،آج کل ان کے کئی گھر کرائے پر اٹھے ہوئے ہیں۔ جب مالی حالات بہتر ہوئے تو اپنے شعبے کی طرف متوجہ ہوئے۔ ٹورنٹو یونیورسٹی سے ایم ایس سی انجینئرنگ کی ڈگری لی اور آج کل ٹورنٹو میں ایک سرکاری ادارے میں سینئر پوزیشن پر ہیں۔ بلین ڈالر کے پراجیکٹ کو دیکھ رہے ہیں۔ مقامی سیاست میں بھی بہت انِ ہیں اور ایم پی کا الیکشن لڑ چکے ہیں۔ ان کے بچے بھی تعلیمی میدان میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ ایک بیٹا میڈیکل کی تعلیم لینے امریکا پہنچا ہوا ہے۔

کسی بھی ملک کی شہریت اختیار کرنے کا مطلب اس معاشرے کو اپنی تمام تر اچھائیوں اور کمزوریوں کے ساتھ ذہنی طور پر قبول کرنا ہے اور اس کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر زندگی کے مقاصد کا حصول ہے۔ تاہم اکثر مہاجرین لمبا عرصہ گزارنے کے باوجود بھی اپنے آپ کو اس معاشرے میں مدغم نہیں کرپاتے۔ انہیں کینیڈا کے سوشل سکیورٹی کے فوائد تو چاہیے ہوتے ہیں لیکن سکولوں میں اپنے بچوں کو سیکس ایجوکیشن یا LGBT پر آگاہی ملنے پر بہت پریشانی ہوتی ہے۔ یہ کبھی بچوں کی بہتر تربیت کے لئے خلیجی ریاستوں میں آکر سالوں نوکریاں کریں گے کہ بچوں کی تربیت اسلامی ماحول میں ہو لیکن یونیورسٹی ایجوکیشن کے لئے بالآخر بچوں نے پھر بھی کینیڈا ہی جانا ہوتا ہے اور وہاں کے ماحول میں پڑھنا ہوتا ہے۔ ایسا سوچنے والے ایمیگرینٹس کی زندگیاں اپنی مشرقی خاندانی روایات کے آگے بند باندھتے گزر جاتی ہیں۔

ایک دوست کینیڈا کے پاسپورٹ پر سعودی جاب کررہے تھے۔ ایک دن جوش میں آکر بچوں کو خوش خبری سنائی کہ اس دفعہ عید اپنے وطن میں کریں گے۔ سب بچے بڑے پرجوش ہوگئے اور خوشی خوشی عید کی تیاریاں شروع ہوگئیں۔ مسئلہ تب ہوا جس دن وہ پاکستان جانے کے ٹکٹ کرواکر بچوں کو سرپرائز دینے گھر پہنچے تو سب بچوں کے منہ لٹک گئے کیونکہ ان کے بچے کینیڈا کو اپنا وطن سمجھتے تھے نہ کہ پاکستان کو۔ کہتے ہیں یہ وہ پہلا جھٹکا تھا جس دن انہیں محسوس ہوا کہ پاکستان صرف ان کا وطن ہے ضروری نہیں ان کے بچے بھی اسے اپنا وطن سمجھیں۔ انہوں نے بہت کوشش کی کہ ان کے بچے پاکستان کے ساتھ جڑیں لاہور اسلام آباد میں گھر رکھ لئے سال میں ایک آدھ بار بچوں کو ضرور پاکستان لاتے لیکن ان کے بچے کہتے “وطن کشمیر ہے”۔ بالآخر چار پانچ سال مزید کوشش کے بعد انہوں نے اس حقیقت کو تسلیم کرلیا اور پاکستان والے گھر سیل کردیے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply