دے جا سخیا۔۔سلیم مرزا

1964میں بننے والی انڈین فلم “دوستی “ایک اندھے اور لنگڑے کی کہانی تھی ۔
عوام کی بدقسمتی سے دونوں ملتے ہیں اور پھر بہترین المیہ ڈرامہ تخلیق ہوتا ہے ۔شاندار گانے ،جو آج بھی ایسے ہیں کہ نئے لگتے ہیں ۔اس فلم کی فوٹو گرافی اتنی شاندار تھی کہ اس کا ایک گانا
“قدم قدم پہ نئے دکھ ہیں زندگی کیلئے “۔
میں صرف اس کی شاندار عکاسی کی وجہ سے کئی بار دیکھ چکا ہوں ۔اس کے باقی گانے بھی اپنی مثال آپ تھے ۔جن میں”راہی منوا دکھ کی چنتا کیوں ستاتی ہے “۔
“چاہوں گا میں تجھے سانجھ سویرے”
آج بھی میرے پسندیدہ ہیں ۔پاکستانی فلم سازوں نے یہ فلم پینسٹھ کی جنگ کے بعد 1966 میں دیکھی ۔
فوری طور پہ چربہ بنانے کا مسئلہ درپیش ہوا۔جلدی جلدی میں فلم “ہمراہی “بنائی گئی ۔کہانی تو بنی بنائی تھی ،اس کی فوٹو گرافی بس گذارے لائق تھی ۔ایکٹر اچھے تھے ۔
ڈائریکٹر جلدی میں تھا ۔گانے بھی کمال کے”مجھے چھوڑ کر اکیلا کہیں دور جانے والے”
“ہوگئی زندگی مجھے پیاری ”
“کیا کہوں اے دنیا والو کیا ہوں میں ”
اور تو اور ایمان والوں کیلئے “کرم کی اک نظر ہم پر خدارا یارسواللہ “نعت بھی ڈال دی گئی ۔پھر اسی پہ بس نہیں کی گئی ۔راہ چلتی پینسٹھ کی جنگ والی ایوب خاں کی تقریر بھی اس فلم میں “تن “دی گئی کہ سرکار اسے ٹیکس فری کردے اور فلم سے انٹر ٹینمنٹ ٹیکس ختم بھی کر دیا گیا ۔
اندھے اور لنگڑے کی دوستی حکومت اور ریاست کی بہترین المیہ کہانی ہے۔انڈیا نے تو بس ایک فلم بنا کر بات ختم کردی،مگر ہمارے ہاں یہ کہانی بار بار دہرائی جارہی ہے ۔
اندھا لنگڑےکو راستہ بتا رہا ہے ۔
لنگڑا اندھے کو سہارا دے رہا ہے
اور عوام ان دونوں منگتوں کو دیکھ دیکھ کر رو رہی ہے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply