مسلح تنازعات ایک بھیانک منصوبہ /علی ہلال

دور حاضر میں جس کسی علاقے میں کسی بھی نوعیت کا مسلح تنازع ہو۔ مذہب کے نام پر ہو، نفاذ کے نام پر ہو یا نسلی لسانی ہو۔ کسی علاقے پر کسی بھی قسم کے مسلح گروپ کے قبضے کی اطلاع ہو۔ یہ محض ایک شوشہ ہوگا۔ اس کے پیچھے کوئی اہم خفیہ مقاصد کارفرما ہوں گے۔ اس علاقے میں کسی قسم کے ذخائر ہوں گے۔ جن پر قبضے کے لئے اسے نوگوایریا بنایا جاتا ہے۔ تاکہ خوف وہراس پھیل کر لوگ وہاں کا رخ ہی نہ  کریں ۔
میانمار سے افریقہ تک ہر ملک میں جاری تنازعات اور وہاں سرگرم مسلح گروپس محض ایک مفروضہ ہوتے ہیں۔
2011ء میں لیبیا میں بغاوت ہوئی تو سب خوش تھے کہ معمر قذافی ڈکٹیٹر کو گراکر پُرامن جمہوری نظام قائم ہوجائے گا۔ اسلام پسندوں کو خوش فہمی تھی کہ اسلامی نظام نافذ ہوگا۔ مگر آج نہ جمہوریت کے شیدائی پُرسکون ہیں اور نہ  اسلام پسندوں کا نام ونشان ہے، کیونکہ بغاوت اغیار کا منصوبہ تھا۔

ہمسایہ ملک مصر میں حسنی مبارک کے خلاف عوام سڑکوں پر آگئی۔ میڈیا نے سرخیاں لگائیں کہ فرعون گرگیا۔ حسنی مبارک کے سقوط کے بعد انتخابات میں اسلام پسند جیت گئے مگر ایک برس بعد ان سے بزور قوت حکومت چھن گئی۔ رابعہ العدویہ میں ہزاروں کی تعداد میں گولیوں سے بھون دیے گئے  مگر دنیا خاموش رہی۔ نہ  کسی کو کٹہرے میں کھڑا کیا گیا اور نہ ہی کسی کو انصاف ملا۔
الٹا مصری افراتفری کا فائدہ اٹھاکر دریائے نیل پر اسرائیل کی مدد سے ایتھوپیا نے افریقہ کا سب سے بڑا ڈیم بنالیا اور یوں سوڈان اور مصر کی ہزاروں ایکڑ اراضی خشک ہوگئی۔

شام میں عرب اسپرنگ کے نام  پرعوام کو اکسایا گیا۔ ایران اور روس نے بشار الاسد کو بچانے کے لئے عسکری مداخلت کی اور چار لاکھ انسانوں کو بارود سے جلاکر اور مولی گاجر کی طرح کاٹ کر رکھ دیا گیا ۔ شام کی پوری ڈیموگرافک ساخت کو تبدیل کردیا گیا۔ لاکھوں عربوں کو ان کے علاقوں سے نکال کر پناہ گزین بنادیا اور ان کی جگہ دوسروں کو بسایا گیا۔حالانکہ جس وقت یہ خونی کھیل جاری تھا شام میں دنیائے اسلام کی ہر اسلام پسند عسکری تنظیم پورے تیر و تفنگ کے ساتھ موجود تھی۔ مگر نہ یہ خواتین کو باندیاں بننے سے روک سکے اور نہ ہی ان کی عصمت دریوں کے واقعات کی روک تھام کرسکے۔

یہی کھیل اس سے قبل 2003ء میں عراق میں کھیلا گیا ۔عراق کی ابوغریب جیل میں عراقی خواتین کی اجتماعی عصمت دریاں جاری رہیں۔ مگر دنیا کی ایک مضبوط عسکری اسلام پسند تنظیم کی قیادت ایران کے ساتھ دوستیاں نبھاتی رہیں۔
2011ء میں سوڈان کے جنوب کو عالمی قوتوں نے شدید خانہ جنگی کے بعد الگ کروادیا ۔ 2013ء میں جنوبی سوڈان کے ہمسایہ افریقہ کے وسطی جمہوری افریقہ میں عیسائی ملیشیا سینٹی بالاکا کے ذریعے مسلمانوں کے ساتھ روا رکھا گیا۔

اسی پٹی پر واقع صومالیہ کے صوبہ صومالی لینڈ کو الگ کرنے کے لئے اسلامی ریاست کا پروپیگنڈا آج کل عروج پر ہے۔ مگر افریقہ میں جاری تنازعات کے پس منظر میں خفیہ عزائم سے متعلق معلومات رکھنے والے جانتے ہیں کہ اس منصوبے کے پیچھے کیا مقاصدپوشیدہ ہیں۔

یہ افریقی وسائل پر قبضے کا گریٹ صہیونی گیم ہے جس میں عالمی قوتیں ملوث ہیں  مگر بدقسمتی یہ ہے کہ ہر جگہ مسلمان اور اسلام کا نام استعمال ہورہاہے۔ ہمیں دنیا بھر میں اسلام کے نفاذ کے نام پر سینکڑوں گروپس سرگرم نظر آتے ہیں۔ ان گروپس کے پاس دنیا کا جدید ترین ہتھیار ہوتاہے۔ ان کے کمانڈرز اور عناصر لذیذ ترین کھانے کھاتے ہیں۔ ان کی وردیاں اور جوتے لاکھوں کے ہوتے ہیں۔ یہ کئی کئی عورتوں سے شادیاں کرتے ہیں۔

یہ لگژری گاڑیوں میں پھرتے ہیں مگر آپ ان کے زیرِکنٹرول علاقوں کا دورہ کریں۔ وہاں کے مسلمان کسمپرسی اور پس ماندگی کا شکار ہوتے ہیں۔ وہ غربت کے دلدل میں پھنسے رہتے ہیں۔ وہ کیمپوں میں رہتے ہیں۔ وہ خوراک کے لئے خیراتی اداروں کے در پر ہوتے ہیں۔ ان ممالک کی عورتوں اور بچوں کی زندگیاں کیمپوں میں گزرتی ہیں۔ یہ عصمت دری اور ریپ کا نشانہ بنتی ہیں۔

میں ان کی نیت پر شک نہیں کرتا۔ یہ لوگ اپنے مقاصد میں سچے ہوتے ہیں ،مگر کامیاب نہیں ہوتے کیونکہ یہ اپنے وسائل پر نہیں بلکہ اغیار کے وسائل پر سرگرم رہتے ہیں۔ ان کے پیچھے کوئی سیاسی سوچ اور حکمت عملی نہیں ہوتی۔ جس کے باعث یہ کچھ عرصے بعد ختم ہو جاتے ہیں اور مسلمانوں کے وسائل کے ساتھ ان کی عزتیں نیلام ہوتی ہیں وہ فقر وغربت اور جہالت کے اندھیروں میں گرجاتے ہیں۔

یہ دنیا کا ایک خطرناک کھیل ہے۔ مسلمان تعلیم میں پیچھے ہیں۔ مسلم نوجوانوں کے دماغ میں انتہاپسندی کا بارود بھردیا گیا ہے۔ان کو یہ نہیں پتہ کہ وہ ریت پر بیٹھے ہیں یا سونے کی  کان پر ۔ انہیں اگر معلوم بھی ہو کہ وہ وسائل کے مالک ہیں تو ان کے پاس ان وسائل سے استفادے کا ہنر نہیں ہے۔

مغربی ذرائع ابلاغ اور واعلامی وسائل اسلامی دنیا کے مغرب زدہ حکمرانوں کی نا انصافیوں،عیاشیوں، ظالمانہ ٹیکسز اور دیگر عوامل کو نمایاں کرکے ان نوجوانوں میں بغاوت کی ہوا بھر دیتے ہیں جس کے نتیجے میں باری باری ایک ایک ملک بدامنی کا شکار ہوجاتاہے۔ جہاں سے پڑھے لکھے انسان مغرب کا رخ کرتے ہیں۔
مغرب کے بوڑھے معاشرے کو ینگ سکلڈ مل جاتے ہیں۔ ان کی لیبارٹریز، انسٹیٹیوٹز اور جامعات میں تخلیقی سرگرمیوں کو نئی تقویت ملتی ہے اور اسلامی ممالک کے کچھ جذباتی نوجوان اپنے فاتح ہونے کا دعوی کرکے اپنی تباہی،پسماندگی اور محرومی کا غم کم کرنے کی سعی کرتے ہیں۔

یہ پری پلان منصوبہ آہستہ آہستہ ایک ایک ملک کو لپیٹ میں لے رہا ہے۔ 1991ء میں حجاز کو زکات دینے والا صومالیہ نشانہ بنا ۔ 1993ء میں دنیا کے سب سے زیادہ سونے کے ذخائر رکھنے والا سوڈان پابندیوں کی زد میں آگیا ۔آج سوڈان بدترین انسانی بحران سے گزررہاہے۔

ابھی اردن نشانے پر ہے۔ اس کے بعد خلیج کی باری ہے۔ جہاں یمن کی جانب سے میدان کھول دیا گیا ہے ۔ باری سب کی آئے گی جلد یابدیر۔ اس منصوبے کو “صوملة العالم العربي” کہاجاتاہے۔

2010ء سے مشرق وسطی کے حالات کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ اندازہ ہوگیا ہے کہ کسی بھی ملک میں ہونے والی بغاوت صرف اس وقت پھوٹتی ہے جب عالمی قوتوں کا ہوم ورک پورا ہوگیا ہو۔ یہ بغاوت کبھی بھی اندرونی نہیں ہوتی۔ اس میں اس ملک کے نوجوانوں کے دل ودماغ اور جسم بطور ایندھن استعمال ہوتے ہیں۔ مگر ان کی ڈوری کسی اور کے ہاتھ میں ہوتی ہے جس کے نتیجے میں اس نوعیت کی تبدیلیوں کے ثمرات بھی عالمی قوتیں حاصل کرلیتی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ فیس بک وال

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply