سورہ الفتح کی آیت 2 میں ذنب، گناہ یا الزام/عثمان انجم زوجان(1)

لِّیَغْفِرَ لَکَ ﷲُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَاَخَّرَ وَیُتِمَّ نِعْمَتَهٗ عَلَیْکَ وَیَهدِیَکَ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًاo

(القرآن-الفتح- 2:48)

تاکہ خدا تمہارے اگلے اور پچھلے گناہ بخش دے اور تم پر اپنی نعمت پوری کردے اور تمہیں سیدھے رستے چلائے(ترجمہ مولانا فتح محمد جالندھری)

اس آیت میں اکثر مترجمین نے رسالت مآب ﷺ  کی ذات ستودہ کے بارے ایسے الفاظ کہے یا لکھے جس میں گناہ کی نسبت رسالت مآب  ﷺ  کی طرف کی گئی  کہ آپ سے گناہ سرزد ہوئے جو آپ کے  شایانِ  شان نہیں۔

بے ادبوں نے رسول اللہ ﷺ  کے بارے ایسے نازیبا الفاظ کہے کہ  وہ اعلان نبوت سے پہلے اور بعد بھی کچھ نازیبا افعال کرتے رہے۔

یہ علم نہیں، جہالت ہے، یہ تحقیق نہیں تجہیل ہے،یہ سعادت نہیں، شقاوت ہے،یہ ثواب نہیں عذاب ہے۔

غفر (غ،ف،ر) کے لغوی معانی

ماہرین لغت نے غفر ( غ۔ف۔ر) کے بہت سے معانی لکھے ہیں۔

1۔ أصل الغفر الستر والتغطیة وغفر اﷲ ذنوبه أي سترها۔

الأزهري، تهذیب اللغة، 8: 112
ابن لأثیر الجزري، النهایة، 4: 373
ابن منظور الأفریقی، لسان العرب، 5: 25

غفر کا اصل (لغوی) معنی پردہ ڈالنا، ڈھانپنا۔ اﷲ اس کے ذنوب کی پردہ پوشی کرے۔

2۔ غفر الغفر الباس مایصونه عن الدنس ومنه قیل اغفر ثوبک في الوعاء واصبغ ثوبک فانه أغفر للوسخ والغفران والمغفرة من اﷲ هو أن یصون العبد من أن یمسه العذاب۔

أبو القاسم الحسین بن محمد، المفردات في غریب القرآن، 1: 362

کسی شئے کو ایسا لباس پہنانا جو اسے میل کچیل سے بچائے، اسی طرح کہا گیا ہے اپنا کپڑا برتن میں ڈھانپ کر رکھو اور اپنے کپڑے کو رنگ لو کہ وہ میل کو زیادہ چھپاتا ہے اللہ کی غفران ومغفرت یہ ہے کہ وہ بندے کو عذاب سے بچائے۔

3۔ المِغْفَر: وِقایة للرَّأس وغَفِرَ الثَّوْبُ اذا ثارَ زِئْبَرُه غَفَرًا والغِفارة: المِغْفَر ومِغْفَرُ البَیْضة: رَفْرَفُها من حَلَقِ الحدید۔

خلیل بن فراهیدي، العین، 4: 406

مِغْفَر: سر کو بچانا۔ کپڑے پر اُبھرنے والے ریشے۔ غفر، غفار، المغفر، مغفر سر پر لوہے کا پہنا جانے والا خَود جس کی جھالر لوہے کی کڑیاں ہوتی ہیں۔

4۔ غَفَرَه یَغْفِرُه غَفْراً سَتَرَه وَالْعَرَبُ تَقُوْلُ اصْبَغْ ثَوْبِکَ بِالسَّوَادِ فَهوَ أَغْفَرُ لِوَسخه۔ وَغَفَرَ المِتَاعَ فِي الوِعَائِ یَغْفِرُه غَفْراً وَأَغْفَرُه أَدْخَلَه وَسَتَرَه وَکَذَلِکَ غَفَرَ الشَّیْبَ بِالخِضَابِ۔

علی بن اسماعیل، المحکم والمحیط الأعظم، 5: 499، دار الکتب العلمیة بیروت
محمد مرتضی الحسیني الزبیدي، تاج العروس، 13: 246
فیروز آبادي، القاموس المحیط، 1: 580

اسے چھپا لیا، اسے اچھی طرح ڈھانپ لیا۔ عرب کہتے ہیں: اپنے کپڑے کو سیاہ رنگ کر لے کہ وہ میل کو اچھی طرح چھپا لیتا ہے۔ اس نے سامان تھیلے میں ڈال لیا، چھپا لیا۔جیسے خضاب سے بالوں کی سفیدی چھپا لی۔

5۔ أصل الغفر الستر ومنه یقال الصبغ۔

أحمد بن محمد، المصباح المنیر، 2: 449

غفر کا لغوی معنی ہے پردہ ڈالنا۔ رنگ کر کے کسی شے کے اصل رنگ یا میل کو چھپانا۔

6۔ غفارة بالکسر والغفارة سحابة تراها کأنها فوق سحابة والغفارة خرقة تکون علی رأس المرأة توقي بها الخمار من الدهن وکل ثوب یغطی به فهو غفارة۔

یاقوت بن عبد اﷲ الحموي، معجم البلدان، 4: 207

غَِفَارَۃ (کسرہ اور فتحہ کے ساتھ) بادل دیکھو تو معلوم ہوتا ہے بادل پر بادل ہے۔ غفارہ عورت کے سر پر چھوٹا سا تکونی کپڑا ہوتا ہے جس کے ذریعے دوپٹے کو تیل سے بچایا جاتا ہے۔ جس کپڑے سے بھی سر یا جسم ڈھانپا جائے غفارہ کہلاتا ہے۔

ذنب (ذ،ن،ب) کے لغوی معانی

ماہرین لغت نے ذنب ( ذ۔ن۔ب) کے بھی بہت سے معانی لکھے ہیں۔

1۔ ذَنَبُ الدَّابَة وغیرها معرُوف وَ یُعَبَّرُ به عَنِ المُتأَخِّرِ وَالرَّذْلِ، یُقَالُ همْ أَذْنَابُ القوم وعنه اسْتُعیرَ مَذَانِبُ التِّلاع لمسایلِ مِیأهها۔

أبو القاسم الحسین بن محمد، المفردات في غریب القرآن، 1: 181، دار المعرفة لبنان

چوپائے وغیرہ کی دُم، یہ معنی مشہور ہے، ہر پچھلی اور کمزور چیز کو دم سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے: قوم کے پچھلے یعنی کمزور لوگ۔ اسی سے استعارہ کیا گیا ہے سیلاب کے ٹیلوں کی چوٹیاں۔

2۔ ذَنَبُ الرَّجُلِ أتْباعُه وأذنابُ القوم أتباعُ الرُّؤساء یقال: جاء فلان بِذَنبه أي بأتباعه۔

الأزهري، تهذیب اللغة، 14: 315، دار احیاء التراث العربي بیروت

کسی شخص کے ذنب، اس کے پیروکار۔ قوم کے اذناب، سرداروں کے پیروکار۔ کہا جاتا ہے: فلاں شخص اپنے ذنب یعنی پیروکاروں کے ہمراہ آیا۔

3۔ الأذناب والأتباع جمع ذنب کأنهم في مقابل الرؤوس وهم المقدمون۔

ابن الأثیر الجزري، النهایة، 2: 170، المکتبة العلمیة بیروت

اذناب ذنب کی جمع اور مراد پیروکار ہے۔ یہ رؤوس کے مقابل ہے۔ جیسے سر آگے اور دُم پیچھے ہوتی ہے اسی طرح سردار آگے ہوتا ہے اور پیروکار پیچھے ہوتے ہیں۔

4۔ ذَنَبُ الرَّجُلِ، أتْبَاعِه وَ أذْنَابُ النَّاسِ وذَنَبَاتُهمْ أتْبَاعُهمْ وَسَفِلَتُهمْ دُوْنَ الرُّؤَسَاءِ ذَنَبُ کُلِّ شَيئٍ آخِرُهة وجَمْعُه ذِنَابٌ۔۔۔ عقب کل شيئ۔۔۔ ذَنَبُ الْفَرَسِ۔

ابن منظور الأفریقی، لسان العرب، 2: 92، دار صادر بیروت
محمد مرتضی الحسیني الزبیدي، تاج العروس، 5: 99، دار الهدایة

کسی شخص کے ذنب، اس کے پیروکار اور لوگوں کے اذناب ان کے پیچھے چلنے والے، گھٹیا لوگ، بڑے نہیں۔۔۔ ہر چیز کا ذنب اس کا آخر اور اس کی جمع ذِناب ہے۔۔۔ ہر چیز کا پچھلا حصّہ۔۔۔ جیسے گھوڑے کی دُم۔

5۔ (ذَنَبَه) ذَنْباً: أصاب ذَنَبَه وتبعه۔ فلم یغادِرْ أثْرَه۔ یقال: السحاب یَذْنِب بعضه بعضاً۔

ابرهیم أنیس، المعجم الوسیط، 1: 316، دار احیا التراث العربي

اسکی وسعت اس کے پیچھے یعنی آخر تک پہنچ گئی۔ سو اس کا اثر نہ چھوڑا۔ کہا جاتا ہے: بادل تہہ در تہہ آخر تک پہنچ گیا۔

6۔ أصل ذنب البعیر حیث دق وبره ویقال لها المشاعر لأن تلک المواضع من جسده۔

خلیل بن فرهیدي، العین، 1: 330، دار ومکتبة الهلال

اونٹ کے دم کی جڑ جہاں اس کی اون پتلی یعنی باریک ہوتی ہے، اس جگہ کو مشاعر (بالوں کی جگہیں) کہا جاتا ہے کہ یہ مقامات اس کے جسم کے حصے ہیں۔

7۔ الذنب: الاثم والجمع (ذنوب) و(أذنب) صار ذا ذنب بمعنی تحمله۔

أحمد بن محمد، المصباح المنیر، 1: 210، المکتبة العلمیة بیروت

ذنب گناہ، اس کی جمع ذنوب ہے اور اَذْنَب کا مطلب گناہگار ہوا، گناہ کا مرتکب ہوا۔

احادیث مبارکہ میں غفر

1۔ عَنْ أَبِي بُرْدَة عَنِ الْأَغَرِّ الْمُزَنِيِّ وَکَانَتْ لَه صُحْبَة أَنَّ رَسُولَ اﷲِ صلیٰ الله علیه وآله وسلم قَالَ إِنَّه لَیُغَانُ عَلَی قَلْبِي وَإِنِّي لَأَسْتَغْفِرُ اﷲَ فِي الْیَوْمِ مِائَة مَرَّة۔

مسلم، الصحیح، 4: 2075، رقم: 2702، دار احیاء التراث العربي بیروت
أحمد بن حنبل، المسند، 4: 211، رقم: 17881
أبو داؤد، السنن، 2: 84، رقم: 1515، دار الفکر

حضرت اغر مزنی بیان کرتے ہیں (یہ صحابی ہیں) کہ رسول اللہ ﷺ  نے فرمایا: میرے قلب پر کبھی ابر چھا جاتا ہے اور میں اللہ تعالیٰ سے ایک دن میں سو مرتبہ استغفار یعنی پردہ پوشی  طلب کرتا ہوں۔

2۔ قَالَ أَبُو هرَیْرَة سَمِعْتُ رَسُولَ اﷲِصلیٰ الله علیه وآله وسلم یَقُولُ وَاﷲِ إِنِّي لَأَسْتَغْفِرُ اﷲَ وَأَتُوبُ إِلَیْه فِي الْیَوْمِ أَکْثَرَ مِنْ سَبْعِینَ مَرَّة۔

بخاري، الصحیح، 5: 2324، رقم: 5948، دار ابن کثیر الیمامة بیروت
أحمد بن حنبل، المسند، 2: 341، رقم: 8474
ابن حبان، الصحیح، 3: 204، رقم: 925
نسائي، السنن الکبری، 6: 115، رقم: 10271
طبراني، المعجم الأوسط، 8: 329، رقم: 8770

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ  کو فرماتے ہوئے سنا: خدا کی قسم، میں روزانہ ستر مرتبہ سے زیادہ بارگاہ خداوندی میں استغفار پردہ پوشی اور توبہ کرتا ہوں۔

3۔ حَدَّثَنَا زِیَادٌ هوَ ابْنُ عِلَاقَة أَنَّه سَمِعَ الْمُغِیرَة یَقُولُ قَامَ النَّبِيُّ صلیٰ الله علیه وآله وسلم حَتَّی تَوَرَّمَتْ قَدَمَاه فَقِیلَ لَه غَفَرَ اﷲُ لَکَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَأَخَّرَ قَالَ أَفَـلَا أَکُونُ عَبْدًا شَکُورًا؟

بخاري، الصحیح، 4: 1830، رقم: 4556
مسلم، الصحیح، 4: 2171، رقم: 2819
أحمد بن حنبل، المسند، 4: 255، رقم: 18269
ترمذي، السنن، 2: 268، رقم: 412
نسائي، السنن الکبری، 1: 418، رقم: 1325

حضرت مغیرہ بن شعبہ ص فرماتے ہیں کہ نبی کریم  ﷺ راتوں کو اس درجہ قیام فرماتے کہ آپ کے مبارک قدموں پر ورم آجاتا۔ عرض کی گئی یارسول اللہ، اللہ تعالیٰ نے آپ کے سبب آپ کے اگلوں اور پچھلوں کے ذنوب پر پردے فرمادیئے (تو اب اتنا قیام کیوں فرمایا جاتا ہے؟) فرمایا کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں؟

مفسرین کرام کے اقوال

’’لِّیَغْفِرَ لَکَ اﷲُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَاَخَّرَ‘‘

1۔ المرادذنب المؤمنین۔

الرازي، التفسیر الکبیر، 28: 68، دار الکتب العلمیة بیروت

ذنب سے مراد مومنین ہے۔

2۔ لوکان لک ذنب قدیم أو حدیث لغفرناه لک۔

قرطبي، الجامع لأحکام القرآن، 16: 263، دار الشعب القاہرة

بالفرض آپ کا کوئی پرانا یا نیا ذنب ہوتا بھی تو ہم تمہاری خاطر اس پر پردہ دیتے۔

3۔ عن مغیرة الشعبي قال نزلت إنا فتحنا لک فتـحا مبینا بالحدیبیة و أصاب في تلک الغزوة مالم یصبه في أصاب أن بو یع بیعة الرضوان وغفرله ماتقدم من ذنبه وماتأخر وظهرت الروم علی فارس وبلغ الهدی محله واطعموا نخل خیبر وفرح المومنون بتصدیق النبي صلیٰ الله علیه وآله وسلم وبظهور الروم علی فارس و قوله تعالی و یتم نعمته علیک بإظهار إیاک علی عدوک ورفعه ذکرک في الدنیا وغفرانه ذنوبک في الآخرة۔

طبري، جامع البیان في تفسیر القرآن، 26: 71، دار الفکر بیروت

بیعت رضوان نصیب ہوئی اور آپ کے ذریعے آپ کے اگلے پچھلوں کے ذنوب پر پردے ڈالے گئے۔ ادھر رومی، فارس پر غالب آئے، ہدی کے جانور اپنے مقام مقررہ پہنچ گئے اور مومنین کو خیبر کی کھجوریں کھانا نصیب ہوئیں۔ مسلمانوں کو خوشی نصیب ہوئی کہ رسول اللہ ﷺ  کی پیشین گوئی سچی ثابت ہوئی اور رومی عیسائی فارس مجوسیوں پر غالب ہوئے اور یہ جو فرمایا تاکہ اللہ آپ پر اپنی نعمت مکمل کرے کہ اس نے آپ کی کفار کے مقابلہ میں مدد فرمائی اور دنیا میں آپ کا ذکر بلند فرمایا اور آخرت میں آپ کے لیے ذنوب پر پردے ڈال دیے جائیں گے۔

4۔ قال ابن عباس والمعنی ماتقدم في الجاهلیة وماتأخر مالم تعلمه۔

ابن الجوزی، زاد المسیر، 7: 423، المکتب الإسلامي بیروت

مطلب یہ کہ پہلے یعنی آپ کے دورجاہلیت کے اور پچھلے جو آپ کے علم میں نہیں۔

5۔ قال عطاء الخراساني ما تقدم من ذنبک یعني ذنب أبویک آدم وحواء ببرکتک وماتأخر ذنوب أمتک بدعوتک۔

بغوي، معالم التنزیل، 4: 189، دار المعرفة بیروت
علي بن أحمد، تفسیر الواحدي، 2: 1007، دار القلم الدار الشامیة دمشق بیروت
شوکاني، فتح القدیر، 5: 45، دار الفکر بیروت
ابو اسحاق، تفسیر الثعلبي، 9: 42، دار إحیاء التراث العربي بیروت۔ لبنان

عطاء خراسانی نے کہا پہلوں کے ذنوب سے مراد آپ کے ماں باپ آدم و حواء علیہما السلام کے ذنوب ہیں جن  پرآپ کی برکت سے پردے ڈالے گئے، اور پچھلے ذنوب سے مراد آپ کی امت کے ذنوب ہیں جو آپ کی دعا سے پردے ڈالے جائیں گے‘‘۔

6۔ قال أبو حیان هو کنایة عن عصمته صلیٰ الله علیه وآله وسلم من الذنوب وتطهیره من الأرجاس۔

محمد الأمین، أضواء البیان، 8: 575، دار الفکر للطباعة والنشر بیروت

علامہ ابو حیان اندلسی نے فرمایا: یہ کنایہ ہے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذنوب سے پاک ہونے کا اور یہ کہ آپ ہر قسم کی گندگی سے پاک صاف ہیں۔

7۔ ما تقدم من ذنبک یعني ذنب آدم وما تأخر یعني ذنب أمتک۔

نصر بن محمد، تفسیر سمر قندي، 3: 293، دار الفکر بیروت

آپ کے پہلوں کے یعنی آدم کے اور پچھلے یعنی آپ کی امت کے ذنوب

8۔ معنی الغفران الاحالة بینه وبین الذنوب فلا یصدر منه ذنب لأن الغفر هو الستر والستر اما بین العبد والذنب وعقوبته فاللائق به وبسائر الأنبیاء الأوّل واللائق بالأمم الثاني۔

جمل، الفتوحات الالہیة، 4: 157، دار الفکر

پردہ ڈالنے کا مطلب ہے حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس اور ذنوب کے درمیان رکاوٹ ڈالنا۔ لہٰذا سرکار دوعالم  ﷺ  سے کوئی ذنب سرزد نہیں ہوسکتا، کیونکہ غفر کا مطلب ہے پردہ اور پردہ یا تو بندے اور ذنب کے درمیان ہوتا ہے، یا بندے اور عذاب کے درمیان۔ رسول اللہ ﷺ  اور تمام انبیائے کرام کے شایانِ شان پہلا معنی ہے اور امتوں کے لائق دوسرا۔

لِّیَغْفِرَ لَکَ ﷲُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَاَخَّرَ وَیُتِمَّ نِعْمَتَهٗ عَلَیْکَ وَیَهدِیَکَ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًاo

(القرآن ،الفتح، 48: 2)

ترجمہ:
تا کہ اللہ پردہ ڈال دے آپ (کے لیے آپ کے اور مومنین کے لیے) ذنب(یعنی الزام جو مخالفین نے آپ پر اور ان مومنین پر لگا دیے) جو(آپ سے) پہلے ہوئے اور جو بعد میں ہونگے اور اللہ اپنی نعمت کا آپ پر اتمام فرما دے اور آپ کے لیے ایک قائم رہنے والے رستہ کی ہدایت کرتا ہے۔

تفسیر درِ منثور

وقولہ تعالیٰ: لیغفرلک اللہ ماتقدم من ذنبک

ابن المنذر نے عامر وابو جعفر رحمہما اللہ سے روایت کیا کہ کہ (آیت) ” لیغفرلک اللہ ماتقدم “ سے مراد ہے تاکہ اللہ تعالیٰ وہ الزام دور فرما دیں جو آپ اور مومنین پر زمانہ جاہلیت میں لگائے گئے (آیت ) ” وما تاخر “ اور جو زمانہ اسلام میں لگائے گئے۔

(تفسیر درِ منثور ۔ امام جلال الدین السیوطی ۔سورۃ نمبر 48 ۔ الفتح ۔ آیت نمبر 2)

Advertisements
julia rana solicitors

(جاری ہے)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply