آزاد کشمیر میں سیاست نئی کروٹیں لینے کو تیار

آزادکشمیر کے سابق وزیراعظم راجا فاروق حیدر نے کہا ہے کہ ہمارے پاس نمبر پورے ہیں، انوارالحق کے خلاف کسی بھی وقت تحریک عدم اعتماد آ سکتی ہے۔

چند روز قبل میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ چوہدری انوارالحق کو لانے والی قوتوں سے غلطی ہوگئی، اب نواز شریف اور آصف زرداری ریاست کے آئندہ وزیراعظم کا فیصلہ کریں۔

فاروق حیدر کے بیان کے ردِعمل میں آزادکشمیر کے وزرا نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ فردِ واحد کے ذاتی مفادات اور خواہش کے تحت آزادکشمیر میں تبدیلی نہیں آ سکتی۔

آزادکشمیر کا ایوان 53 ارکان پر مشتمل ہے، اور تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے 27 ممبران کی حمایت درکار ہوگی۔

آزادکشمیر کے موجودہ وزیراعظم چوہدری انوارالحق اُس وقت وزارت عظمیٰ کی کرسی پر براجمان ہوئے تھے جب آج سے تقریباً ایک سال قبل اُس وقت کے وزیراعظم تنویر الیاس کو آزادکشمیر ہائیکورٹ نے توہین عدالت پر نااہل قرار دیدیا تھا۔

تنویر الیاس کی نااہلی کے وقت چوہدری انوارالحق بحیثیت اسپیکر اسمبلی ذمہ داریاں انجام دے رہے تھے۔

سردار تنویر الیاس پاکستان تحریک انصاف کے وزیراعظم تھے مگر جونہی انہیں توہین عدالت پر نااہل کیا گیا تو پی ٹی آئی میں مختلف دھڑے بن گئے۔
تنویر الیاس کی نااہلی کے بعد جب نئے قائد ایوان کے انتخاب کے لیے شیڈول جاری کیا گیا تو چوہدری انوارالحق کے مدمقابل کسی نے کاغذات نامزدگی جمع نہیں کرائے تھے۔ تاہم رولز کے مطابق جب ایوان میں ووٹنگ کرائی گئی تو 48 ارکان نے ان کی حمایت میں ووٹ کاسٹ کیا۔ جن میں پاکستان تحریک انصاف کے 29، پیپلزپارٹی کے 12 اور ن لیگ کے 7 ارکان شامل تھے۔

چوہدری انوارالحق 2021 میں ہونے والے آزادکشمیر کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر ایل اے 7 بھمبر سے رکن اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ انہوں نے سابق سینیئر وزیر و مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما چوہدری طارق فاروق کو شکست دی تھی۔

واضح رہے کہ 2021 کے انتخابات کے بعد وجود میں آنے والی اسمبلی میں 3 وزیراعظم آ چکے ہیں۔ انتخابات میں چونکہ پاکستان تحریک انصاف نے واضح اکثریت حاصل کر لی تھی جس کے بعد بانی پی ٹی آئی عمران خان نے عبدالقیوم نیازی کو وزیراعظم کا امیدوار نامزد کیا تھا اور وہ اکثریت سے قائد ایوان منتخب ہو گئے تھے۔
عبدالقیوم نیازی کا اقتدار تقریباً ایک سال سے بھی کم عرصے پر محیط رہا، اور 12 اپریل 2022 کو اُس وقت کے سینیئر وزیر سردار تنویر الیاس نے مرکزی قیادت سے ساز باز کرکے اچانک عبدالقیوم نیازی کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرا دی تھی۔

سردارتنویر الیاس نے جب عبدالقیوم نیازی کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرائی تو انہوں نے وزارت عظمیٰ سے استعفیٰ دیدیا تھا۔ اور بعد ازاں یہ الزام عائد کیا تھا کہ انہوں نے علی امین گنڈاپور (جو اس وقت وزیر امور کشمیر تھے) کو آزادکشمیر کے خزانے تک رسائی نہیں دی جس کی بنیاد پر ان کو اقتدار سے ہٹانے کی سازش کی گئی۔

عبدالقیوم نیازی کے وزارت عظمیٰ سے استعفیٰ کے بعد نئے قائد ایوان کے انتخاب کا شیڈول جاری کیا گیا تھا مگر متحدہ اپوزیشن اپنا امیدوار سامنے لانے میں ناکام رہی تھی، اور یوں سردار تنویر الیاس بلا مقابلہ وزیراعظم منتخب ہو گئے تھے۔
اب آزادکشمیر میں ایک بار پھر وزیراعظم کی تبدیلی کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں اور سیاسی رہنما سرجوڑ کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ ’آزادکشمیر میں محلاتی سازشیں اور وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنا کوئی نئی بات نہیں، 2006 کے انتخابات کے بعد وجود میں آنے والی اسمبلی میں یکے بعد دیگرے 4 وزیراعظم تبدیل ہوئے تھے ‘۔

2006 کے الیکشن میں بننے والی اسمبلی میں 3 بار تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی
2006 کے انتخابات کے بعد مسلم کانفرنس کے پلیٹ فارم سے سردار عتیق نے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالا تو کچھ ہی عرصے بعد جماعت میں فارورڈ بلاک بن گیا اور سردار عتیق سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ پارٹی صدارت چھوڑیں یا وزارت عظمیٰ سے دستبردار ہوں، مگر انہوں نے دونوں مطالبات مسترد کر دیے، یوں فارورڈ بلاک نے سردار یعقوب کو قائد ایوان نامزد کرتے ہوئے سردار عتیق کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کردی۔
یوں 6 جنوری 2009 کو سردار عتیق کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگئی اور سردار یعقوب وزارت عظمیٰ کی کرسی براجمان ہوگئے۔

سردار یعقوب کا اقتدار بھی چند ماہ ہی چل سکا اور پھر اچانک اکتوبر 2009 میں مسلم کانفرنس کے ایک گروپ کی جانب سے ان کے خلاف تحریک عدم پیش کردی گئی اور یہ الزام عائد کیا گیا سردار یعقوب پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کرنا چاہتے تھے۔ اس موقع پر راجا فاروق حیدر کو قائد ایوان نامزد کیا گیا تھا جو تحریک کی کامیابی کے بعد وزارت عظمیٰ کے منصب پر براجمان ہوگئے۔

پھر جولائی 2010 میں عام انتخابات سے کچھ عرصہ قبل سردار عتیق ایک بار پھر وارد ہوئے اور راجا فاروق حیدر کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرکے اقتدار پر براجمان ہو گئے۔

راجا فاروق حیدر کے خلاف تحریک اعتماد پیش کرکے ان کی حکومت ختم کرنا سردارعتیق کے لیے سیاسی طور پر بہت مہنگا ثابت ہوا۔ کیونکہ اسی تنازع کی بنیاد پر راجا فاروق حیدر اور ہمنواؤں نے مل کر آزادکشمیر میں مسلم لیگ ن کے قیام کے لیے نواز شریف کو راضی کرلیا اور آزادکشمیر میں ایک نئی جماعت کا اضافہ ہوگیا، یوں مسلم کانفرنس کے تمام سینیئر رہنما ن لیگ میں چلے گئے اور ریاستی جماعت سکڑنا شروع ہو گئی، جو اب ایک سیٹ تک محدود ہے۔

نجی خبررساں‌ادارےنے آزادکشمیر کی سیاست پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں سے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ کیا چوہدری انوارالحق کے خلاف واقعی تحریک عدم اعتماد پیش ہو رہی ہے؟ اور ایسا ہونے کی صورت میں نیا وزیراعظم کون اور کس پارٹی سے ہوگا؟

ذرائع کے مطابق آزادحکومت کے سابق سینیئر مشیر چوہدری ریاض بیرسٹر سلطان کو واپس پیپلزپارٹی میں لانے کے لیے کوشاں ہیں، تاہم بیرسٹر سلطان کا موقف ہے کہ اب کی بار آصف زرداری اگر خود ان سے رابطہ کریں گے تو بات ہو سکے گی۔

آزادکشمیر اسمبلی میں بیرسٹر سلطان محمود کا اپنا ایک دھڑا ہے اور اس وقت وہ کسی بھی جماعت کے ساتھ نہیں، بیرسٹر سلطان نے اپنی سیاسی سرگرمیاں دوبارہ سے شروع کر دی ہیں اور وہ جلد ہی اپنا کوئی سیاسی فیصلہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

آزادکشمیر کی سیاست میں اکھاڑ پچھاڑ اور تبدیلیوں پر گہری نظر رکھنے والے سینیئر صحافی عامر محبوب نے کہاکہ چوہدری انوارالحق کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کا فیصلہ ہو چکا ہے اور آزادکشمیر کا اگلا وزیراعظم پیپلزپارٹی سے ہوگا۔

عامر محبوب نےنجی خبررساں ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن چوہدری انوارالحق کا بوجھ نہ اٹھانے کا فیصلہ کر چکی ہیں، مسلم لیگ ن کو وزارت عظمیٰ کے لیے پیپلزپارٹی کا ساتھ دینا پڑے گا۔

عامر محبوب کے مطابق آزادکشمیر کے نئے وزیراعظم کے لیے چوہدری یاسین اور سردار یعقوب کا نام زیرِ غور ہے۔

انہوں نے مزید کہاکہ اس وقت پی ٹی آئی فارورڈ بلاک کے 3 دھڑے ہیں جن میں سب سے مضبوط بیرسٹر سلطان کا دھڑا ہے۔

عامر محبوب نے چوہدری انوارالحق کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی ممکنہ کامیابی کا فارمولا بتاتے ہوئے کہاکہ اس وقت آزادکشمیر اسمبلی میں پاکستان پیپلزپارٹی کے 13 ارکان ہیں جبکہ اسماعیل گجر کی کامیابی اور اکمل سرگالا کی شمولیت کے بعد مسلم لیگ ن کے ارکان کی تعداد 9 ہوگئی ہے۔

انہوں نے کہاکہ فارورڈ بلاک کے علی شان سونی چونکہ تنویر الیاس گروپ سے تعلق رکھتے ہیں، اس لیے وہ بھی چوہدری انوارالحق کے خلاف عدم اعتماد کی صورت میں اپنا ووٹ کاسٹ کریں گے۔

عامر محبوب کے مطابق سردار عتیق پہلے ہی مسلم لیگ ن کی حمایت کا اعلان کر چکے ہیں۔ جبکہ حسن ابراہیم بھی مائنس سردار یعقوب کی صورت میں پیپلزپارٹی کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار کو ووٹ دے دیں گے۔ ایسے میں تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے صرف 2 ارکان چاہیے ہوں گے جو فارورڈ بلاک سے ساتھ مل جائیں گے اور تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو جائے گی۔
عامر محبوب نے مزید کہاکہ اسٹیبلشمنٹ چونکہ چوہدری انوارالحق کو سپورٹ کر رہی ہے مگر اتحادی جماعتیں فیصلہ کر چکی ہیں کہ وہ چوہدری انوارالحق کا مزید بوجھ نہیں اٹھا سکتیں۔ اس لیے اب ریاست میں تبدیلی ناگزیر ہو گئی ہے۔ چوہدری یاسین یا سردار یعقوب میں سے کوئی ایک آزادکشمیر کا اگلا وزیراعظم ہوگا۔

سینیئر صحافی خواجہ اے متین نجی ٹی وی کے ساتھ بحیثیت ڈائریکٹر کشمیر افیئرز منسلک ہیں اور ریاستی سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں، ان کے مطابق پیپلزپارٹی آزادکشمیر کی قیادت اپنے طور پر تحریک اعتماد کی منصوبہ بندی ضرور کر رہی ہے اور کچھ رہنما خود کو وزارت عظمیٰ کا امیدوار بھی سمجھتے ہیں مگر مرکزی قیادت نے ابھی تک اس پر کوئی موقف نہیں دیا، نہ ہی کوئی اجلاس بلایا گیا۔

خواجہ متین نے کہاکہ مرکز میں عام انتخابات کے بعد صورت حال یکسر تبدیل ہو گئی ہے، پی ٹی آئی فارورڈ بلاک کے لوگ جو دوسری جماعتوں میں جانے کی منصوبہ بندی کرکے بیٹھے ہوئے تھے وہ رک گئے ہیں اور پارٹی کے ساتھ معاملات طے کرنے کی کوششوں میں لگے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ پاکستان پیپلزپارٹی کے پاس چونکہ عدم اعتماد کے لیے اکثریت نہیں، انہیں اپنی اتحادی جماعت مسلم لیگ ن سے رابطہ کرنا پڑے گا، جو ذرائع کے مطابق ابھی تک نہیں کیا گیا۔

خواجہ متین کا ماننا ہے کہ آزادکشمیر میں تبدیلی اس وقت تک نہیں آ سکتی جب تک مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کی مرکزی قیادت اس کی باضابطہ منظوری نہیں دے دیتیں۔ ’اگر پیپلزپارٹی آزادکشمیر کی قیادت نے مرکزی قیادت سے رابطہ کیا تو آصف زرداری کو شہباز شریف سے بات کرنا پڑے گی۔ لیکن شہباز شریف ازخود کوئی فیصلہ نہیں کریں گے وہ معاملہ نواز شریف کی طرف بھیج دیں گے‘۔

انہوں نے مزید کہاکہ میرے مطابق نواز شریف آزادکشمیر میں پیپلزپارٹی کا وزیراعظم بنانے کے لیے حامی نہیں بھریں گے، باالفرض اگر دونوں جماعتیں متفقہ طور پر یہ فیصلہ کر بھی لیتی ہیں تو مقتدر حلقے موجودہ حالات میں آزادکشمیر کے اندر سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کی اجازت نہیں دیں گے۔

راجا کفیل احمد 2 دہائیوں سے زیادہ عرصہ سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں اور آزادکشمیر کی سیاست پر ان کی بھی گہری نظر ہے، ان کے مطابق چوہدری انوارالحق کے خلاف تحریک عدم اعتماد آنا طے ہوچکا ہے، ہو سکتا ہے بات چند ہفتے آگے چلی جائے مگر تبدیلی رکے گی نہیں۔

راجا کفیل احمد نے کہاکہ وزرا حکومت کی جانب سے انوارالحق کے ساتھ کھڑے ہونے کے دعوے کی کوئی حیثیت نہیں کیونکہ تحریک عدم اعتماد کا فیصلہ مرکزی قیادت کرے گی، جس روز اسلام آباد میں تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کا فیصلہ ہوگیا تو اگلے روز انوارالحق وزیراعظم نہیں ہوں گے۔

راجا کفیل احمد نے کہاکہ انوارالحق اس وقت اسمبلی میں فردِ واحد ہیں، ان کا اپنا کوئی دھڑا نہیں جبکہ پی ٹی آئی فارورڈ بلاک مختلف دھڑوں میں تقسیم ہے جن میں ایک اہم دھڑا بیرسٹر سلطان محمود کا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ کشمیر کونسل کے انتخابات کے وقت پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے درمیان معاہدہ ہوا تھا کہ آزادکشمیر میں تحریک عدم اعتماد آنے کی صورت میں پیپلزپارٹی وزیراعظم کا امیدوار لائے گی اور مسلم لیگ ن اسے سپورٹ کرے گی۔

راجا کفیل نے کہاکہ پاکستان میں مخلوط حکومتیں بننے کے بعد پورا سیاسی نظام آصف زرداری کے ہاتھ میں ہے اور وہ ضرور آزادکشمیر میں اپنا وزیراعظم لائیں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان پیپلزپارٹی کی جانب سے سردار یعقوب یا چوہدری یاسین وزارت عظمیٰ کے امیدوار ہوں گے۔

Facebook Comments

خبریں
مکالمہ پر لگنے والی خبریں دیگر زرائع سے لی جاتی ہیں اور مکمل غیرجانبداری سے شائع کی جاتی ہیں۔ کسی خبر کی غلطی کی نشاندہی فورا ایڈیٹر سے کیجئے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply