غیرت مند جرگے ، جن کی قیمت عورت ادا کرتی ہے۔ ۔منصور ندیم

پاکستان میں ایک قانون ریاستی اداروں کا ہے اور ایک دوسرا متوازی قانون پنچایت اور جرگوں کا ہے، ان تمام قوانین کو سرپنچ، مشران، وڈیرے اور سردار اپنے مفادات کے لئے چلاتے ہیں، اور اس کی قیمت ہمیشہ عورت ادا کرتی ہے۔ خیبر پختونخوا  میں باجوڑ کی تحصیل سلارزئی میں گرینڈ جرگے نے خواتین کے سیاحتی مقامات  پر جانے پر پابندی لگادی ہے، جرگے کا یہ فیصلہ مقامی علما  نے کیا ہے ان کا موقف یہ ہے کہ سیاحتی مقامات پر خواتین کو لانا اور مردوں کے ساتھ اکھٹے گھومنا ان کی روایات کے خلاف ہے۔اور وہ اپنی روایات و مذہب کے سچے امین ہیں ۔ خواتین اکیلے تو کیا مردوں کے ساتھ بھی سیاحتی مقام پر نہیں جاسکتیں  اور اگر ضلعی انتظامیہ نے سیاحتی مقامات پر خواتین کو سیاحت سے نہ روکا تو اسے جرگہ روکے گا۔ سڑکوں پر آدھا گھنٹہ ازار بند کھولے ،شلوار ہاتھ میں لئے ڈھیلے رگڑتے مرد انہیں نہیں نظر آتے مگر برقع میں ملفوف عورت کو  گھر سے کسی سیاحتی مقام پر نکلتے دیکھ کر ان کی عجیب مذہبی تشریحات کو ٹھیس پہنچتی ہے۔

ایسے ہی ایک رسم جسے پنجاب میں  “ونی “اور خیبر پختونخوا  میں “سوارہ” کہتے ہیں اور اسی سے ملتی جلتی رسم سندھ اور بلوچستان میں بھی ہے ،جن کا مقصد دو خاندانوں کی دشمنی میں صلح نامہ ہوتا ہے،قتل و اغوا کے فیصلوں میں دو خاندانوں کی رنجش ختم کرنے کے لیے اور دونوں خاندانوں میں بھائی چارہ قائم کرنے کے لیے لڑکیوں اور خاندانوں کی باقاعدہ رضا مندی سے یہ فیصلے جرگے یا پنچایت سے کروائے جاتے ہیں۔ اس میں سرپنچ، مشران، وڈیرے اور سردار جرگہ یا پنچایت بلا کر قتل ہونے والے گھرانے کی لڑکیاں بطور جرمانہ یا ہرجانہ دوسرے فریق کو دیتے ہیں، اس میں ہمیشہ کنواری اور اکثر کم سن لڑکیاں بڑی عمر کے لوگوں سے بیاہی جاتی ہیں، جس شخص سے شادی کی جاتی ہے وہ دوسری شادی کا بھی حق رکھتا ہے، اور اس رسم کے ذریعے بیاہی لڑکی کا درجہ انتہائی کمتر ہوتا ہے جسے ذلت کا نشان  بنا  کر رکھنا عزت و غیرت کی نشانی سمجھا جاتا ہے۔

حق بخشوانے والی لڑکیوں کی حالت ایسے ہی ہے جیسے کیتھولک عیسائیت میں راہبہ کی ہوتی ہے، اسے بہت مقدس عہدہ دے دیا جاتا ہے، اسے عرف عام میں کہا جاتا ہے کہ ان کی “قرآن سے شادی” ہوگئی ہے ملکیتوں کی تقسیم کے خوف سے لڑکیوں کی شادیاں نہ کرنا تو سندھ اور پنجاب کے بہت سے علاقوں اور گھرانوں میں موجود ہے لیکن قرآن سے شادی ’سید اور پیر‘ خاندانوں میں ہوتی ہے۔ اور اس کی قیمت بھی عورت ہی ادا کرتی ہے اور بدقسمتی سے یہ ظلم بھی مذہب کے نام پر ہوتا ہے۔

جنوبی پنجاب میں ملتان سے لیکر سندھ میں ہالہ اور مٹیاری تک ایک رسم قرآن سے شادی ہے جس کا مقصد جائیداد میں لڑکیوں کو حصہ نہ دینا ہے ان تمام خِطوں میں جو بڑی بڑي جاگییریں اور چھوٹی بڑی درگاہیں اور حویلیاں ہیں انکے مالک اور گدی نشیں خاندانوں میں سے بہت سوں نے اپنی عورتوں اور لڑکیوں کا ’حق بخشوا‘ کر رکھا ہوا ہے۔ حق بخشوانے والی لڑکیوں کی حالت ایسے ہی ہے جیسے کیتھولک عیسائیت میں راہبہ کی ہوتی ہے، اسے بہت مقدس عہدہ دے دیا جاتا ہے، اسے عرف عام میں کہا جاتا ہے کہ ان کی “قرآن سے شادی” ہوگئی ہے ملکیتوں کی تقسیم کے خوف سے لڑکیوں کی شادیاں نہ کرنا تو سندھ اور پنجاب کے بہت سے علاقوں اور گھرانوں میں موجود ہے لیکن قرآن سے شادی ’سید اور پیر‘ خاندانوں میں ہوتی ہے۔ اور اس کی قیمت بھی عورت ہی ادا کرتی ہے اور بدقسمتی سے یہ ظلم بھی مذہب کے نام پر ہوتا ہے۔

پاکستان میں ابھی پچھلے دنوں ایک ڈرامہ “سنگ ِ ماہ” چل رہا تھا جس میں قبائلی علاقوں میں ایک رسم “غگ” یا ’ژغ‘ ہے، اس پر یہ ڈرامہ بنایا گیا، یہ رسم “غگ” یا ’ژغ‘ قدیم پشتون جہالت کی روایت کی امین رسم ہے، ظاہر ہے کہ یہ لفظ “غگ” پشتو زبان کا لفظ ہے, اس سے مراد یہ ہے کہ آواز لگانا یا اعلان کرنا، یہ قدیم روایت قبائلی علاقوں میں آج بھی رائج ہے، اس کے مطابق اگر کسی شخص کو کوئی خاتون پسند آجائے تو وہ اس خاتون کے گھر آکر شادی کا اعلان کردیتا ہے، اس اعلان کے طریقے میں اس خاتون کے گھر کے باہر آکر وہ فائر کرتا ہے اور یہ دعویٰ پیش کرتا ہے کہ  یہ خاتون اب میری ہے، یہ دعویٰ  کشت وخون کا موجب ہوتا ہے، یا پھر یہ تو طے ہوتا ہے کہ جس خاتون پر دعویٰ  ہوا اب اس کی زندگی ختم یا برباد ہوجاتی ہے، کیونکہ جو شخص یہ دعوی بندوق کے زور پر کرتا ہے تو اس سے کوئی اور شادی نہیں کرسکتا، یا نہیں کرتا اس   خاتون کے لیے شادی کے رشتے آنا بند ہو جاتے ہیں کیونکہ رشتہ بھیجنے کا مطلب دعویٰ  کرنے والے شخص بلکہ اس کے خاندان سے ایک نہ ختم ہونے والی خونی جنگ کا آغاز ہے۔ نہ اس دعوے پر اس معاشرے میں  کوئی قدغن لگائی گئی ماسوائے خیبر پختوانخوا  نے سنہء ۲۰۱۳ میں اسمبلی میں قانون پاس کرواکے اسے  جرم قرار دلوایا، مگر چونکہ اس روایت یا رسم کے زیادہ تر واقعات جنوبی علاقوں خاص طور پر جنوبی وزیرستان میں پیش آتے ہیں، اسی لئے وہاں پر مشران و جرگہ سسٹم ہی فیصلہ کرتا ہے، قانونی عملداری تقریبا ً نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس فرسودہ روایت کا بعض اوقات مقصد خاتون سے شادی کرنا نہیں بلکہ خاتون کے خاندان کو تنگ کرنا یا اپنی شرائط پر ان سے معاملات طے کرنا ہوتا ہے۔ چاہے بعد میں مذاکرات ہوجائیں مگر زورآور اعلان کرنے والے کا تو کچھ نہیں جاتا مگر اس خاتون کی زندگی برباد ہوجاتی ہے۔ مشران و جرگہ عموماً ان معاملات میں۔ مردوں کی مرضی یا طاقتور حریف کے حق میں ہی فیصلہ کرتے ہیں، اکثر ایسے حالات میں  گھر والوں کی طرف سے لڑکی کا قتل بھی کردیا جاتا ہے۔ لیکن لڑکی والے غگ کرنے والے شخص سے شادی کروانا بھی بے غیرتی سمجھتے ہیں۔ یہ ایک انتہائی بد ترین رسم ہے جس کی قیمت خواتین  ادا کرتی ہیں۔ کیونکہ اس معاشرے میں عورت کی حیثیت شاید جانور سے بھی کم ہے، سب سے مزے کی بات یہ ہے کہ ایسے جرگوں میں ہمارے مولوی بھی بیٹھتے ہیں، اور اس ظلم کے لئے شرعی جواز نکال لیتے ہیں۔

ایک لطیفہ یاد آرہا ہے ، ایسے ہی ایک قبیلے میں  ایک حاجی صاحب دوسرے حاجی صاحب کی کم سن لڑکی کا رشتہ مانگ لیتے ہیں رشتہ مانگنے والے کا نام گل خان ہے، اور جس سے رشتہ مانگا جارہا ہے وہ مرجان خان ہے۔

گل خان: ماڑا حاجی تم کو پتہ ہے میرے سات بچے ہیں، گھر والی تین مہینے پہلے انتقال کرگئی ہے، گھر میں بچوں اور ماں کے لئے کوئی عورت چاہیے، اگر تم کو برا نہ لگے تو اپنی بیٹی کا رشتہ ام کو دے دو،

مرجان خان : اوئے بد بختا ، تم اپنا عمر دیکھو، چھپن سال تمہارا عمر ہے امارا بیٹی کا عمر پندرہ سال ہے۔

گل خان : ام تم کو تمہارا دو لاکھ قرضہ بھی معاف کردے گا، اس سال زمین کا پانی بھی مفت میں دے گا، فصل میں سے بھی حصہ دے گا اور پانچ لاکھ روپے بھی دے گا

مرجان خان : اوے شرم کرو : تم نے ام کو بے غیرت سمجھا اے کہ ام پانچ لاکھ میں اپنا بیٹی دے دے گا

کان کھول کر سن لو، ام کو پورا دس لاکھ روپے نقد چاہیے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

سوچیں کہ ہمارے ملک میں غیرت کے  قانون  مذہب و روایات کی آڑ میں صرف عورت پر ہی پورے نافذ ہوتے ہیں اور ہر جگہ قیمت بھی انہیں ہی ادا کرنا پڑتی ہے۔ یہ جرگے مردوں کی پگڑی کی لاج کے لیے ہوتے ہیں جن کی قیمت عورت کی عزت اور عصمت سے ادا کی جاتی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply