پتنگ بازی ایک جان لیوا شوق/سید عمران علی شاہ

کھیل کود اور دیگر مشاغل سے لطف اندوز ہونا انسان کی فطرت میں شامل ہے  اور اگر یہ مشاغل نہ ہوں تو شاید لوگ گھٹن کا شکار ہو کر ذہنی بیماریوں  میں مبتلا   ہو جائیں، مگر کسی کا کھیل کود و مشغلہ اس وقت تک قابل قبول ہے جب تک کہ وہ جانداروں اور انسانی زندگیوں کے لیے نقصان دہ ثابت نہ ہو، ارض وطن کے طول و عرض میں لوگ ایسے بیسیوں مشاغل اپنائے ہوئے ہیں جو کہ کسی طور بھی قابل قبول نہیں ہیں ، اپنی خوشی کے حصول کی خاطر  کتوں  ،مرغوں کی لڑائی ، ریچھ کتوں کی لڑائی، کروا کر ان پر بھاری جوئے بازی کرنا تشویش ناک حد تک بڑھتا جارہا ہے، اس سے جہاں ایک طرف بے زبان جانوروں کی زندگیوں کو داؤ پر لگایا جاتا ہے تو دوسری جانب اس قسم کے بیہودہ کھیل کو دیکھنے سے شدت پسندی اور خون بہا جیسے منفی رویے فروغ پاتے ہیں ، پاکستان میں بات صرف یہاں تک نہیں رکتی بلکہ  ہر سال سردیوں کے موسم میں ٹھنڈ سے محفوظ رہنے کی غرض سے سائبیریا سے اڑ کر جنوبی ایشیا آنے والے مہمان پرندے بھی شکار کے  شوقین افراد کا نشانہ بن جاتے ہیں، ہرن اور تلور کا شکار بھی ایک قابلِ مذمت شوق ہے ، اس سے بڑھ کر ہر سال بسنت کے موسم میں پتنگ بازی جیسا مہلک کھیل عام لوگوں کے لیے وبال جان بن جاتا ہے۔

پتنگ ایک دھاگے کی مدد سے اڑان بھرنے والا مصنوعی پرندہ ہے۔ اس کی اڑان کے لیے ضروری قوت اس کے پَروں کے اوپر اور نیچے کی جانب ہوا کے دباؤ پر منحصر ہے۔ پتنگ کے
اوپری جانب کم دباؤ اور نیچے کی جانب زیادہ دباؤ کی وجہ سے پتنگ اڑتا ہے۔ یہ کھیل سب سے زیادہ جاپان اور چین میں معروف ہے، جاپان کے ہگاشیومی شیگا شہر میں ہر مئی کے چوتھے اتوار کو پتنگوں کا تہوار منایا جاتا ہے۔پتنگوں کی چند ایک اقسام ہوا سے بھی وزن دار ہوتی  ہیں، انھیں اڑان بھرنے کے لیے ہوا کے جھونکوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ پتنگ اکثر کھیلوں کے زمرہ میں آتا ہے۔ لیکن ان کا استعمال کئی میدانوں میں ہوتا ہے۔بات اگر پتنگ بازی کی تاریخ کے حوالے سے کی جائے تو 2800 سال پہلے چین میں پتنگ اڑانے کی تاریخ ملتی ہے۔

پتنگ بازی ایک وقت تک بہت اچھی تفریح سمجھی  جاتی  تھی  ،مگر تب تک کہ جب اس میں ڈور کی دھاتی تاروں اور سادہ ڈور پر شیشے کا مانجھا استعمال نہیں ہوا کرتا تھا ،مگر اب یہ ایک انتہائی خطرناک کھیل ہے جس کی وجہ سے ہر سال کئی افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ یہ صرف وہی لوگ نہیں ہوتے جو پتنگ بازی کا شوق پورا کرتے ہوئے جان کی بازی ہارتے ہیں بلکہ ہلاک ہونے والوں میں سے اکثر ایسے افراد ہوتے ہیں جنہیں پتنگ بازی کا کوئی شوق نہیں ہوتا ،نہ ہی وہ اس قاتل کھیل کا طریقہ جانتے ہیں بلکہ وہ ویسے ہی کسی آوارہ ڈور کی زد میں آ کر بے دردی سے جان دے دیتے ہیں یعنی پتنگ بازی ایک ایسا کھیل ہے جس میں کھلاڑی اپنا نقصا ن کم جبکہ دوسروں کا زیادہ نقصان کر دیتے ہیں۔ یہ نقصان ایسے ہوتے ہیں جن کا کبھی ازالہ نہیں ہو سکتا۔ پتنگ بازی کے نتیجے میں مالی نقصان شاید ہی کہیں ہوتا ہے اس میں اکثر و بیشتر جانی نقصان ہی ہوتا ہے۔ پتنگ باز خود بھی خطرے میں رہتے ہیں کبھی چھت سے گرنے کا خطرہ اور کبھی بجلی کے تاروں سے کرنٹ وغیرہ کا خطرہ ،  اس لیے ایسا کھیل جس میں جان کا خطرہ ہر دم لاحق ہو کسی صورت جائز نہیں ہو سکتا۔ اس خونی کھیل نے بہت سی معصوم زندگیوں کے چراغ گل کیے ہیں۔

اب تک ملک میں ہزاروں بچے ،بوڑھے خواتین اور نوجوان گلے پر پتنگ کی دھاتی ڈور پھرنے پر جہان فانی سے کوچ کر چکے ہیں ، پنجاب میں لاہور فیصل آباد ،ملتان ،گجرانوالہ گجرات اور سیالکوٹ میں سب سے زیادہ پتنگ بازی کی جاتی ہے۔ ملک  میں بارہا قانون ساز اسمبلیوں نے اس قاتل کھیل پر عارضی پابندی عائد کی مگر وہ کارگر ثابت نہ ہو سکی، یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ  اس اہم ترین معاملے میں لوگوں کا رویہ نہایت غیر ذمہ دارانہ ہے، وہ اس مہلک کھیل کو چھوڑنا ہی نہیں چاہتے، دھاتی ڈور کا استعمال جہاں دوسرے لوگوں کے لیے جان لیوا ہے ، دوسری جانب پتنگ بازی کرنے والوں کو بھی بارہا شدید چوٹیں پہنچتی ہیں ،ان  کے ہاتھ کٹ جاتے ہیں ،ان  کے گھر میں موجود معصوم بچے زخمی ہو جاتے ہیں۔

حال ہی میں فیصل آباد میں ایک نوجوان گلے پر ڈور پھرنے سے سڑک پر دم توڑ گیا ،اس مکروہ اور انسانی جانوں کے قاتل کھیل کو ملک سے مکمل طور پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کا وقت آ چکا ہے،اب اس مہلک شوق سے وابستہ لوگوں کو انسانی جانوں سے کھیلنے کی اجازت کسی طور بھی نہیں دی جاسکتی۔

پتنگ بازی محض جانی خطرات کا موجب نہیں بلکہ نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈ سٹیچ کمپنی کے مطابق دھاتی ڈور کا استعمال بجلی کے ترسیلی نظام کیلئے بھی خطرے کا سبب بن رہا ہے۔ پتنگ بازی سے جانی حادثات کی اطلاعات تو اتر سے ملتی رہتی ہیں۔ ایسے حادثات میں اکثر افراد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جان گنوا د یتے ہیں مگر اس خونی  کھیل کی روک تھام یقینی بنانے کیلئے کوئی مؤثر عملی کار روائی نہیں کی جاتی ۔ حکام کی ذمہ داری ہے کہ اس خطرناک کھیل کی روک تھام کیلئے مؤثر اقدامات کریں۔ اس سلسلے میں پولیس کو زیادہ متحرک کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے اور اس کام کو انجام دینے کیلئے پولیس کی نگرانی کی قابلیت کو بڑھایا جانا بھی ضروری ہے۔ڈرون کیمرے اس کام میں خاصے مدد گار ثابت ہو سکتے ہیں ۔ پتنگ بازی کے خلاف بھر پور کریک ڈاؤن کیلئے فضائی نگرانی کے کم خرچ جدید آلات سے مدد لی جائے تو پولیس نہ صرف پتنگ بازی کے مرتکب افراد کی لوکیشن کا بہ آسانی پتہ چلا سکتی ہے بلکہ ویڈیو اور تصویری شہادتیں بھی مجرموں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے میں معاون و مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

عوام الناس میں یہ مطالبہ زور پکڑتا جارہا ہے کہ  پتنگ بازوں اور پتنگ سازی کی صنعت سے وابستہ لوگوں کو کڑی سے کڑی سزا  دی جائے تاکہ  مزید قیمتی انسانی جانوں کو اس کا شکار ہونے سے بچایا جا سکے ، یقیناً صوبائی اور وفاقی حکومتیں اس قبیح کھیل کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرکے اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھیں گی ،پروردگار عالم پاکستان کو سلامت رکھے۔

Facebook Comments

سید عمران علی شاہ
سید عمران علی شاہ نام - سید عمران علی شاہ سکونت- لیہ, پاکستان تعلیم: MBA, MA International Relations, B.Ed, M.A Special Education شعبہ-ڈویلپمنٹ سیکٹر, NGOs شاعری ,کالم نگاری، مضمون نگاری، موسیقی سے گہرا لگاؤ ہے، گذشتہ 8 سال سے، مختلف قومی و علاقائی اخبارات روزنامہ نظام اسلام آباد، روزنامہ خبریں ملتان، روزنامہ صحافت کوئٹہ،روزنامہ نوائے تھل، روزنامہ شناور ،روزنامہ لیہ ٹو ڈے اور روزنامہ معرکہ میں کالمز اور آرٹیکلز باقاعدگی سے شائع ہو رہے ہیں، اسی طرح سے عالمی شہرت یافتہ ویبسائٹ مکالمہ ڈاٹ کام، ڈیلی اردو کالمز اور ہم سب میں بھی پچھلے کئی سالوں سے ان کے کالمز باقاعدگی سے شائع ہو رہے، بذات خود بھی شعبہ صحافت سے وابستگی ہے، 10 سال ہفت روزہ میری آواز (مظفر گڑھ، ملتان) سے بطور ایڈیٹر وابستہ رہے، اس وقت روزنامہ شناور لیہ کے ایگزیکٹو ایڈیٹر ہیں اور ہفت روزہ اعجازِ قلم لیہ کے چیف ایڈیٹر ہیں، مختلف اداروں میں بطور وزیٹنگ فیکلٹی ممبر ماسٹرز کی سطح کے طلباء و طالبات کو تعلیم بھی دیتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply