معمارِ قوم کا لہو۔۔۔۔عابد حسین

کسی بھی ملک کی آئندہ نسلوں کے مستقبل کے حالات کا اندازہ وہاں کی درسگاہوں کے نصاب اور اساتذہ کی معاشرے میں توقیر کو مدِ نظر رکھتے ہوئے لگایا جاتا ہے ـ ترقی یافتہ ممالک کو اگر دیکھا جائے تو انہیں معاشی سماجی اور اخلاقی عروج حاصل ہی اس وقت ہوا کہ جب انہوں نے اپنی پہلی ترجیح درسگاہ اور معلم کو ٹھہرایا اپنے تعلیمی نصاب سے فرسودہ قصوں اور بے معنی ابواب کا خاتمہ کیا اور وقت کے تقاضوں کے مطابق اپنی درس گاہوں میں دورِ حاضر کے معیار پر پورے اترتے علوم نصاب میں شامل کیے ـ۔
آپ جاپان کی مثال دیکھ لیں ایک وقت تھا کہ 1945 سے 1952 تک کی جاپانی دستاویزات کے مطابق وہاں کے جوانوں میں خودکشی کا رجحان بہت زیادہ تھا اس سوچ کو ختم کرنے کےلیے انہوں نے یہ نتیجہ نکالا کہ صرف تعلیم ہی جاپان کے حالات اور جوانوں کے ذہن بدل سکتی ہے انہوں نے عملی طور پر ایسا کیا اور آج نتائج ہمارے سامنے ہیں ـ ۔یہی نظامِ تعلیم ہی پسماندہ عوام کو پسماندگی سے نکالنے، ـ لا شعور سے شعور کی طرف لانے، ـ متبادل سوچ فکر مہیا کرنے ـ ،سیکھنے کی جستجو ـ سمجھانے کے فن ـ سوال کرنے کے ساتھ ساتھ جواب تلاش کرنے میں آسانی ـ معاشرے میں اخلاقی فرائض کی ادائیگی اور بنیادی انسانی و آئینی حقوق سے آگاہی کا سبب بنا کرتا ہےـ۔
اگر دیکھا جائے تو ہمارے انحطاط کی اصل وجہ بھی یہی ہے کہ نظامِ تعلیم ہماری ترجیح اور توجہ میں شامل ہی نہیں ہے ـ نہ ہم نے کبھی اس نظام کی اہمیت کو سمجھا اور نہ ہی اس بارے ہم کبھی سنجیدہ ہوئے ـ
ہماری حکومتیں آئے روز نئے منصوبے نئے نِظام اور تبدیلیاں لانے کے دعوے تو کرتی ہیں مگر نظامِ تعلیم میں ان کی کارکردگی دورِ حاضر کے تقاضوں پر کبھی پورا نہیں اتری ـ۔
دوسری طرف کی حالتِ زار یہ ہے کہ بہاولپور کے سانحے کے بعد اندازہ لگایا اور سمجھا جا سکتا ہے کہ فکری طور پر ہماری نسل کس خطرناک راستے پر گامزن ہے ایک مذہبی شدت پسند خطیب حسین نے کالج کے پروفیسر خالد حمید صاحب کو چاقو کے وار سے قتل کر دیا اور پھر اس جرم کے ارتکاب کے بعد قاتل خطیب حسین نے ویڈیو میں اس قبیح عمل کو درست سمجھتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے کیے پر بالکل پشیمان نہیں ہے ـ۔
اس سانحے اور اس بیان کے بعد ایک عجیب سی بے کلی اضطراب اور بے سکونی کے ساتھ پریشان کن اندیشوں اور خدشات نے دل و دماغ کو گھیر لیا ہے اور سوچتا ہوں کہ آخر ان بچوں کے ذہنوں میں یہ انتہا پسندی، خون بہانے اور جہادی جنونیت کا زہر بھرنے والے اصل مجرم کون لوگ ہیں ـ؟
آخر سانپ پیدا کرتے سانپوں کے سر کب کچلے جائیں گے وہ فیکٹریاں کب بند ہوں گی جو درسگاہوں تک کو مذہبی اکھاڑہ   ـاور فتویٰ گاہ سے قتل گاہ بنانے پر تُلی ہیں ـ جن کا مقصد ایک ایسی نسل تیار کرنا ہے جو نظریات اور عمل کے اختلاف کو اسلام کی توہین کے  زمرے میں لے آئے ـ۔
جن ذہنوں میں قلم اور کتاب کی اہمیت اجاگر ہونی چاہیئے تھی جنہوں نے اپنے استاد سے ہر حال ادب و احترام سے پیش آنا تھا وہ نسل چاقو اٹھانے اور پھر لہو بہانے پر مطمئن  کیوں ہے کون لوگ انہیں اس راہ پر لا رہے اور یقین دلا رہے کہ ان کا یہ عمل عین اسلامی عمل ہےـ؟
ضرور ایسے لوگ یہیں موجود ہیں جو انہیں اسلام کے نام پر ورغلا رہے ہیں جس وجہ سے یہ بچے خود کو اسلام کا سپاہی محافظ و علمبردار سمجھ لیتے ہیں ـ ہمیں یہ فیصلہ آج کرنا ہوگا کیونکہ یہ ہماری آئندہ نسلوں یعنی پاکستان کی توقیر اور وقعت کا سوال ہے کیونکہ جس فصل کو آج کاٹا جا رہا ہے اگر دیکھا جائے تو یہ وہ ہے جو ماضی میں ہم سے پہلے کسی دور میں بویا گیا تھا ـ
چالیس سال قبل جس شدت پسندی کی فصل کو بڑے منظم  طریقے سے وطن عزیز میں آبیار کیا گیا پھر اس کی حفاظت اور آب و کھاد کے خاص سے خاص انتظام کیے گئے اب وہی تو ہے جو گلی گلی اُگ رہا اور کٹ رہا ـ اگر ماضی کی پالیسیوں کی عملداری میں نئی نسلوں کے مستقبل کی فکر مندی شاملِ حال رہتی تو مسجدیں بارگاہیں مندر چرچ گردوارے اور درسگاہیں لہو میں ہرگز تر نہ ہوتے ـ۔
اسی شدت پسندی کی وجہ سے ریاست میں اب نہ اقلیتیں محفوظ ہیں نہ  کسی مسلک کی عبادت گاہیں۔ ـ اب حالات اس سنگین مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں کہ درسگاہوں کے معلم بھی اس زد میں ہیں ـ ریاستِ پاکستان میں اگر دوسرے ممالک کے شہری آنے پر خود کو غیر محفوظ تصور کرتے ہیں یا نقصان اٹھاتے ہیں تو انہی شدت پسند جتھوں اور غولوں سے ـ۔
اگر پاکستان کا امیج دنیا   بھر میں  دھندلا چکا ہے تو انہی گروہوں کی وجہ سے کہ جو جب چاہیں ریاست پاکستان کے قانون کو پامال کرتے نظر آتے ہیں پھر اپنے تحفظ اور جرم کے جواز کی خاطر اسلام کی آڑ لیتے ہیں ـ ۔پروفیسر خالد حمید صاحب کا قتل صرف قابلِ افسوس اور قابلِ مذمت کہہ دینے یا لکھ دینے حالات درست نہیں ہوں گے اس جیسے بیسیوں واقعات پر ہم پہلے بھی افسوس اور مذمتی بیان داغ چکے ہیں کیونکہ ہم اجتماعی طور پر ذرا کمزور یاد داشت کے حامل ہیں بہت جلد بھول جاتے ہیں اگر ہم ماضی کے دریچوں میں ذرا جھانکیں تو سنسان سڑک پر پروفیسر حسن ظفر عارف کی گاڑی میں پڑی نعش بھی نظر آئی گی ـ سبطِ جعفر کا پُر ہجوم سڑک پر چھلنی سینہ دیکھنے کو ملے گا،ـ مشال خان کی  نعش پر کئی مشتعل جوانوں کا جتھا اللہ اکبر کی صدائیں لگاتا اور پتھر پھینکتا نظر بھی آئے گا۔ ـ قاتل اور ہوں گے مقتول اور ہوں گے جائے وقوعہ اور ہوگی مگر الزام ہر جگہ صرف ایک ہوگا کہ اس شخص نے توہین کر دی ہے یہ لا دین ہو گیا تھا اس نے دین کے خلاف عمل سر انجام دیا تھا اسے مارنا بہت ضروری تھا اور یہ اسلام کی خاطر کیا ہے۔۔۔۔ ـ ہمیں یہ بات سنجیدگی سے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بد بخت خطیب حسین کسی ایک شخص کا نام ہرگز نہیں بلکہ ایک گھٹیا سوچ اور بے ہودہ پرورش کا نام ہے جو ہماری آئندہ نسلوں کے ذہنوں اور مزاجوں پر مسلط کی جا رہی ہے ـ۔
یہ لوگ کسی فرد کے مجرم ہونے کا تعین بھی خود کرتے ہیں پھر خود ہی منصف بنتے ہیں اور پھر خود ہی سزا دیتے ہیں ـ۔
اسلام کو بد نام کرنے سے لے کر پاکستان کو کمزور کرنے تک بیرونی دشمن سے زیادہ اصل خطرہ اور وجہ یہ لوگ ہیں جو اس ذہن سازی میں پیش پیش ہیں ـ کہاوت ہے کہ شتر مرغ گردن ریت میں چھپا بھی لے تو سر پر موجود خطرہ نہیں ٹل سکتا ـ ہم بھی شدت پسندی کو جتنا نظر انداز کرتے رہیں جب تک اس کے سدِ باب کے عملی اقدامات نہیں اٹھائیں گے آئندہ نسلیں اس کے نقصان سے نہیں بچ سکیں گی ـ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply