کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا۔۔۔۔ممتاز علی بخاری

مسئلہ کشمیر روز اول سے ہی پاکستانی حکومت کی سرد مہری اور بے اعتنائی کے ساتھ ساتھ غیر متوازن ریاستی پالیسی کا شکار رہا ہے۔ یہ اہم ترین مسئلہ پاک بھارت مذاکرات میں کبھی ایک پریشر ایشو سے زیادہ اہمیت کا حامل نہیں رہا۔
اسی لیے معاہدہ تاشقند ہو یا آگرہ مذاکرات۔۔۔ یہ موضوع قابلِ بحث چھوڑا ہی نہیں۔ ہاں البتہ جب پاکستان اور بھارت دونوں ممالک کو ایک دوسرے پر عالمی دباؤ ڈلوانا ہو تو مسئلہ کشمیر کے حوالے سے صدائیں بلند ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔
آپریشن جبرالٹر، 1989 کی عوامی تحریک ، اس صدی میں ہونے والی تینوں انتفادہ کی تحریکیں پاکستان کی انہی غیر متوازن پالیسیوں اور ناکام خارجہ پالیسی کے باعث کامیابی سے ہمکنار نہ ہو سکیں۔
پاکستان کے سیاستدان چاہے وہ حکومت سے تعلق رکھتے ہو ں یا اپوزیشن سے۔۔ ان کی تقریروں میں بھی بس کبھی کبھار ہی کشمیر کا ذکر سننے کو ملتا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف نے تبدیلی کا نعرہ بلند کیا تو بہت سے کشمیریوں نے ان سے بہتری کی امید لگا لی۔ ایک ایسے وقت میں جہاں کشمیر کی سیاست کے فیصلے نوڈیرو اور جاتی امراء میں ہوتے ہیں عمران خان کے اس اعلان “کشمیر کے فیصلے کشمیری خود کریں گے” کے ساتھ اپنی جماعت کے کشمیر ونگ کے قیام کا اعلان کیا تھا۔ حکومت کے بھارت نواز رویے پر اکثر جلسوں میں خان صاحب ہی سیخ پا ہوتے تھے کہ ایک طرف مقبوضہ وادی میں ہزاروں لوگ انڈیا کی ریاستی دہشت گردی کا شکار ہو رہے ہیں تو دوسری طرف ہمارے حکمران بھارت کے ساتھ محبت کی پینگیں بڑھا رہے ہیں۔ خان صاحب کے انہی کارناموں کے باعث کشمیری کمیونٹی ان کو مسیحا سمجھ رہی تھی۔
2018 کے ایکشن قریب آتے ہی ملک میں سیاسی ہلچل مچ گئی۔ مختلف پارٹیوں نے اپنے انتخابی منشور پیش کیے ۔ عمران خان کے گیارہ نکاتی الیکشن ایجنڈے کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے لیکن جہاں ان نکات کے ذریعے خان صاحب نے ملک کے بڑے بڑے گھمبیر مسائل کی نشاندھی کرتے ہوئے انہیں حل کرنے کا وعدہ فرمایا ہے وہاں ایک انتہائی اہم موضوع انہوں نے چھوڑ ہی دیا ہے جس کے حوالے سے وہ اکثر تقاریر میں حکمران جماعت کو آڑے ہاتھوں لیتے تھے وہ ہے مسئلہ کشمیر۔۔!
افسوس کا مقام یہ ہے کہ خان صاحب کے فین کشمیری بھی ان کی اس غلطی کو غلطی تسلیم نہیں کرتے اور ان کے اس اقدام کی وکالت کرتے نظر آرہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس موقع پر کشمیری کمیونٹی جو پاکستان الیکشن میں کوئی اہم کردار ادا کرنے کے قابل ہے، انہیں چاہیے کہ وہ اپنی اپنی پارٹیوں پر زور ڈالیں کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے موثر پالیسی اور بین الاقوامی سطح پر اس مسئلے کے حل کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کوششیں کرنا اپنے انتخابی دستور میں سر فہرست رکھیں۔

Facebook Comments

ممتاز علی بخاری
موصوف جامعہ کشمیر سے ارضیات میں ایم فل کر چکے ہیں۔ ادب سے خاصا شغف رکھتے ہیں۔ عرصہ دس سال سےطنز و مزاح، افسانہ نگاری اور کالم نگاری کرتےہیں۔ طنز و مزاح پر مشتمل کتاب خیالی پلاؤ جلد ہی شائع ہونے جا رہی ہے۔ گستاخانہ خاکوں کی سازش کو بے نقاب کرتی ایک تحقیقاتی کتاب" عصمت رسول پر حملے" شائع ہو چکی ہے۔ بچوں کے ادب سے بھی وابستہ رہے ہیں ۔ مختلف اوقات میں بچوں کے دو مجلے سحر اور چراغ بھی ان کے زیر ادارت شائع ہوئےہیں۔ ایک آن لائن میگزین رنگ برنگ کےبھی چیف ایڈیٹر رہے ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply